نفرت کی آگ

ہفتہ 12 دسمبر 2020

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

یہ خاکسار لیکھک پیشہ ور لکھاری نہیں ہے۔ جب بھی کوئی واقعہ یا حادثہ دل کی تاروں کو چھیڑتا یے، اور دکھتی رگ پر زور ڈالتا ہے، تو بے ساختہ قلم لکھنے کو دوڑتا ہے۔ طویل عرصے بعد جنبشِ قلم سے مجبور ہو کر دم تحریر ہو رہا ہوں۔ پچھلے چند عرصے سے اپوزیشن جماعتیں حکومت مخالف بیانیہ لے کر سڑکوں پر محو تماشا ہیں۔ اور حکومت پی ڈی ایم کے تماشا سے لطف اندوز ہونے کی بجائے اس تماشا کےلئے محرک کا کردار ادا کر رہی ہے۔

جہاں امید ہوتی ہے، کہ اپوزیشن زیادہ ہجوم اکھٹا نہیں کر پائے گی، وہی پر حکومت کوئی ایسا اقدام کرتی ہے، جس سے لوگ اس ہجوم کی طرف لپکتے چلے جاتے ہیں۔ ملتان میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ یہ تماشا تو شب و روز ہوتا رہتا ہے۔ اور برسوں سے اس ملک میں ہو رہا ہے۔

(جاری ہے)


 اکیسویں صدی جسے ٹیکنالوجی کی صدی بھی کہتے ہیں۔ اس صدی کو ایشیاء کی صدی بھی کہا گیا تھا۔

امید یہی تھی کہ ایشیائی قومیں اپنے قومی کردار کے بل بوتے پر رواں صدی میں راج کریں گی۔ اور عالم اقوام پر چھا جائیں گی، یہ بات اب کسی حد تک درست معلوم ہوتی نظر بھی آتی ہے، ایسے میں جب چین سپرپاور بننے کےلئے پر پھیلائے بیٹھا ہے۔ چابان، جنوبی کوریا، آسیان ممالک، اور بھارت کی تیزی سے بڑھتی ترقی سے ایشیائی صدی کا خواب کسی حد تک پورا ہوتا دیکھائی دیتا ہے۔

ایسے میں سوال یہ بنتا ہے، کہ ہم بحثیت قوم کہاں کھڑے ہیں؟
آپ ٹیکنالوجی، سائنس، ریسرچ، تعلیم، صحت کے میدان سے لے کر اجتماعی اخلاقیات تک، کی طرف طائرانہ نظر دوڑائیں اور دیکھیں، ہم نے کس میدان میں کونسی ڈیویلپمنٹ کی ہے؟ اس سرسری جائزہ کے بعد، آپ نہ صرف مایوسی کا شکار ہوں گے، بلکہ اگر آپ میں تھوڑی سی قوم، ملک کے لئے تڑپ ہے، تو یہ ناکامیاں آپ کو افسردہ کر دیں گی۔

جب یہ صدی شروع ہوئی تو ملک میں آمریت مکمل طور پر جھنڈے گاڑ چکی تھی۔ اور یہ آمرانہ دور پہلے آٹھ سال کو نگل گیا۔ پھر جب خدا خدا کر کے، ملک میں جمہوریت نے دوبارہ آنکھ کھولی تو لوگ پر امید تھے۔ اور جمہوریت کے ذریعے ترقی کے خواب دیکھنے لگے، مگر انھیں سوائے مایوسی اور عالمی سطح پر عسکری اداروں کی جگ ہنسائی کے کچھ نہ ملا۔ سی آئی اے ہمارے حساس علاقے میں گھس کر اسامہ بن لادن کو مار جاتی ہے۔

افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے نیٹو افواج کا جنگی طیارہ اڑتا ہے، اور ہمارے ڈیوٹی پر خدمات سر انجام دیتے نوجوان کو بمباری سے لہولہان کر کے واپس چلا جاتا ہے۔ اور ہماری حکومت اور ذمےدران ایک دوسرے کا منھ تکتے رہ جاتے ہیں۔ اور ہم کچھ نہیں کرتے۔
پھر نواز شریف کا دور آیا۔ عمران خان عوام کو سڑکوں پر لے آئے۔ اور دھاندلی اور کرپشن کے خلاف ایک سو بیس دن تک دھرنا دیا۔

اسی دوران باہمی چپقلش کی وجہ سے پشاور اسکول میں دشمن ظالمانہ کاروائی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ اور ہمارے پھول گولیوں سے مسل دیے جاتے ہیں۔ عمران دھرنا تو ختم کر دیتے ہیں، لیکن مخالفین کے خلاف گالی کا کلچر پروان چڑھ جاتا ہے۔ یہاں سے نفرت کی آگ بھڑکتی ہے، اور پاکستان میں پاپولزم کی سیاست کو تقویت ملتی ہے۔ اور عمران خان کو اس کا فائدہ ہوتا ہے۔

اور یہ ملک کے وزیراعظم بن جاتے ہیں۔
اب اپوزیشن وہی کھیل کھیل رہی ہے۔ جو عمران خان نے نواز شریف کے خلاف کھیلا تھا۔ یہ تو ایک سلسلہ ہے، چلتا رہتا ہے۔ اور تیسری دنیا کے ممالک میں تو یہ پسندیدہ کھیل ہوتا ہے۔ جہاں یا تو جمہوریت نہیں ہوتی اور اگر ہو بھی تو سیاسی جماعتیں اقتدار کی ہوس میں سب کچھ کر جاتی ہیں۔ چاہے، زمبابوے کی طرح ملک دیوالیہ ہی کیوں نہ ہو جائے، جہاں ملک سے زیادہ ربراٹ موگابے کے مفادات ہر کسی کو عزیز تھے۔

اور زمبابوے کے پاس سرکاری ملازمین کو دینے کےلئے پیسے تک نہیں بچے تھے۔
بات دور نکل آئی ہے، میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں، جو نفرت کی سیاست کے متعلق ہے۔ نفرت کی سیاست نے ہماری رہی سہی اخلاقیات کا جنازہ ہی نکال دیا ہے۔ اپوزیشن اور حکومت کی لڑائیاں تو جاری رہتی ہیں۔ لیکن افسوس ہمارے ملک میں ایک نیا ٹرینڈ چل پڑا ہے۔ جس کا مرکزی میدان سوشل میڈیا ہے۔

اور یہ ٹرینڈ گالی گلوچ کا ہے۔
جو گندی، غلیظ، اور فحش زبان سوشل میڈیا پر استعمال کی جاتی ہے۔ وہ انتہائی قابل افسوس ہے۔
جہاں پہلے ہی مذہبی رواداری نہ ہونے کے برابر ہو۔ لسانیات کا جھگڑا شروع دن سے موجود ہو۔ اور وہی پر سیاست کے میدان میں بھی گالی گلوچ کا کلچر نکل پڑے تو وہ قوم باہم دست و گریباں نہیں ہو گی تو کیا کسی کشمیر یا فلسطین کو فتح کرلے گی؟
کیا ایسی قوم دہلی کے لال قلعے پر جھنڈا لہرانے کے قابل ہے۔

کیا ایسے ملک میں ریاست مدینہ کا خواب دیکھا جا سکتا ہے؟ جو دن رات نام تو ریاست مدینہ کا لیتے ہیں، اور کام کفار مکہ والے کرتے ہیں۔ ہمارے دین میں اور ہماری روایات میں گالی بکنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم فحاشی اور فحش گوئی سے بچو؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ فحاشی اور فحش گوئی کرنے والے کو ناپسند کرتا ہے۔

لیکن افسوس ہم ایک دوسرے کی مخالفت میں سب کچھ بھول جاتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر جو گالی گلوچ کا مقابلہ چل پڑا ہے۔ اس کو روکنا ہو گا۔ ورنہ یہ غیر اخلاقی حرکات جس نفرت کی آگ کو ہوا دی رہی ہیں۔ یہی آگ کل بھڑک اٹھے گی، جس کے شعلوں سے کوئی محفوظ نہیں رہے گا۔ اس سلسلہ کو روکنے کےلئے سیاسی جماعتوں کے قائدین کو سامنے آنا چاہیے اور اپنے جیالوں کو اخلاقیات کا درس دینا چاہیے۔

ورنہ بنی گالی سے نکلی نفرت کی آگ رائے ونڈ کے ساتھ ساتھ بنی گالا کو بھی جھلسا دے گی۔ اور رائے ونڈ سے نکلتے نفرت کے بول پہلے رائے ونڈ کے مکینوں کو سنائی دیں گے۔ یہی بہتر ہے، اختلاف اختلاف رہے، نفرت میں نہ بدل پائے، ورنہ اس نفرت کی آگ سے کسی کا گھر محفوظ نہیں رہے گا۔
دوسرا پہلو قابل افسوس یہ ہے کہ پڑھے لکھے جوانوں کی اکثریت سوشل میڈیا استعمال کرتی ہے۔

اور یہی طبقہ گالی گلوچ اور غیر اخلاقی مواد کی تشہیر میں صف اول میں ہوتا ہے۔ یہ امر بہت ہی تکلیف دہ ہے۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں، روایتی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقیات کی تعلیم، جس کےلئے دین سب سے بہتر ہے، اس کی بھی ضرورت ہے۔ دوسرا کتاب کلچر کو بھی پرموٹ کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ہماری کتب خانے ویران ہو گئے ہیں۔ اور ہمارے جوان سوشل میڈیا پر محو ہو کر رہ گئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ایک صحت مند بحث و مباحثہ کا فقدان ہے۔ لوگ جلد ذاتیات پر اتر آتے ہیں، اور باہم دست و گریباں ہو جاتے ہیں۔ ادب اور معاشرت ہی سے ہم علمی و فکری سطع پر کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ورنہ نفرت کی آگ ہمیں کھا جائے گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :