سمندر کے پانیوں سے ابھرتا سورج

بدھ 19 مئی 2021

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

سورج ابھی سمندر کے پانیوں میں تھا۔ ہم اسے ان پانیوں کی سطح سے بلند ہوتا دیکھ رہے تھے۔ ہم منھ اندھیرے سمندر کے پانیوں سے نمودار ہوتے سورج کی پہلی کرن کا نظارہ دیکھنے کےلئے چلے آئے تھے۔ صرف ہم ہی نہیں تھے، بلکہ منھ اندھیرے خلق خدا آنکھوں کو چندھیا دینے والے مناظر دیکھنے دو دریا، کراچی کی جانب نکل پڑی تھی۔ میرے ساتھ میری طرح آوارہ گرد میرا دوست ارشد ابڑو بھی تھا۔

جو ایک جہاں دیدہ شخص ہے۔ اس کے پاؤں میں گویا پھیرکی لگی ہوئی ہے۔ یہ بلوچستان سے اٹھ کے کہیں بھی چلا آتا ہے۔ اس دن بھی یہ ابھرتے سورج کے مناظر دیکھنے چلا آیا تھا۔ ہم طلوعِ آفتاب سے پہلے وہاں پہنچ چکے تھے۔ اور سورج کی پہلی کرن کو دیکھنے کےلئے بے تاب کھڑے تھے۔ جب سورج نے اپنی پہلی جھلک دیکھائی، تو سیاح اش اش کر اٹھے۔

(جاری ہے)

سبحان اللہ، کیا دل افروز ساعت تھی، جب ساکن پانیوں سے سورج ابھر کر افق کی جانب محو سفر ہوا۔

سورج کی روشنی جب ساکن پانیوں پر پڑی، تو جو منظر پیدا ہوا، اس نے دیکھنے والوں کو محو حیرت میں ڈال دیا۔
انسان جب خدا کی تلاش میں سرگرداں بھٹکتا پھرتا تھا، اور وہ کبھی سورج تو کبھی چاند کو خدا مان لینے پر آمادہ ہو جاتا تھا۔ میرا گمان ہے، جب انسان خدا کی تلاش میں نکلا ہو گا، تو اس نے کہیں گہرے پانیوں سے ابھرتے سورج کے منظر کو دیکھا ہو گا، اور وہ ان مناظر کی تاب نہ لے کر سورج کے آگے سجدہ ریز ہو گیا ہو گا۔


یہ منظر بھی اس قدر جلوہ انگیز تھا، کہ خدا کی قدرت کو دیکھ کر اس کے سامنے سجدہ ریز ہونے کو جی چاہتا تھا۔ رفتہ رفتہ آفتاب کا سحر ٹوٹ رہا تھا، شاید ہر سحر کی ایک حد اور مدت ہوتی ہے، جس کے بعد وہ بے رونق ہو کر بکھر جاتا ہے۔ سورج اب سمندر کے نمکین پانیوں سے اوپر افق پر پھیل چکا تھا، اور سیاح اب سمندر کی جانب متوجہ ہونے لگے تھے۔
جہاں سمندر کے نمکین پانی کی مہک تیرتی تھی۔

اور سمندری پرندے اڑانیں بھر رہے تھے۔ سمندری بگلے بھی اپنی منفرد سفیدی رنگت و جسامت کے ساتھ اڑانیں بھر رہے تھے۔ کونج کی ڈار بھی سمندری پانی کے اوپر اڑ رہی تھی۔ کونج سے تو ہمیں خاص رغبت اس حوالے سے بھی ہے، کہ شاعری بالخصوص سرائیکی شعری میں خواجہ فرید نے اس کا ذکر سسکیاریوں اور آہ و زاریاں کے حوالے سے کیا ہے، جو اپنے ساتھیوں سے بچھڑ کر تنہائیوں میں کرلاتی پھرتی ہے۔

ان سمندری پرندوں کے علاؤہ کچھ شکار کے شوقین دھاگوں کے ساتھ کنچوے باندھ کر مچھلیاں پکڑنے کےلئے کوشاں تھے۔ کچھ نے ایک دو مچھلیاں پکڑ بھی رکھی تھیں، جو رنگین اور خوش نظر نہ تھیں۔ سرمئی رنگ کی تھیں۔ جو ابھی دھاگے سے چمٹی ہوئیں تھیں اور اپنے پوپلے منھ کو ہلا رہی تھیں، شاید اس پھندے سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ جبکہ چینی جوڑا اپنے پاکستانی ایمپلائز کے ساتھ کیکڑے اکٹھے کرنے میں سرگرداں تھا، اور وہ پتھروں سے چمٹے کیکڑوں کو پکڑ کر پلاسٹک کی بالٹی میں ڈال رہے تھے، جو قریباً بھر چکی تھی۔


دوسری جانب سمندر کے پانیوں کی لہروں کا شور کانوں میں عجب رس گھول رہا تھا۔ سارے شور بھدے لگتے ہیں، لیکن ان لہروں کے شور میں ایک موسیقی تھی، ایک لے تھی، جو ماحول میں نکھار پیدا کر رہی تھی۔
وقت کافی ہو چکا تھا، لوگ آہستہ آہستہ گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ ساحل ویران سا ہونے لگا تھا، جہاں اس چینی جوڑے کے علاؤہ ہم تھے۔ اور لہروں کی چھپاک چھپاک کا شور تھا۔

میں زیادہ وقت وہاں گزارنا چاہتا تھا۔ پانیوں سے رغبت تھی۔ شاید صحرائے تھل کا اثر تھا، جسے روٹھے ہوئے سمندر کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے، یا پھر دریائے سندھ کے پانیوں کا اثر تھا، جو بھی تھا، میں کچھ گدلے گدلے، کچھ نیلے پانیوں کے پاس ٹھہر جانا چاہتا تھا۔ ہم لمحہ بھر مزید رکے رہے، خوبصورت تصویریں بنانے کی ہر کوشش ناکام ہوئی، کوئی سیلفی بھی کام کی نہ بن سکی، شاید کیمرے کا مسئلہ تھا، یا پھر بقول میرے دوست، 'سمندر کنارے نمی کی وجہ سے تصویر اچھی نہیں بنتی، صرف ڈی ایس ایل آر ہی اچھی تصویر نکالا سکتا ہے۔

'
اب ہم واپس لوٹ آنا چاہتے تھے۔ سورج بلند ہو چکا تھا۔ جو سمندر کی سطح پر ایک پارے کی تہہ بچھا رہا تھا۔ جو دمکنے لگا، اور آنکھوں کو خیرہ کرنے لگا۔ لیکن اب ہم ایک طے شدہ سفر سے واپس لوٹنے لگے تھے، جو چار گھنٹے پر محیط تھا۔ یہ سفر انتہائی دلچسپ رہا۔ ہم نے سمندر کے اوپر طلوعِ آفتاب کے مناظر کی حیرتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، جہاں ہم قدرت کی تخلیق کو دیکھ کر محظوظ ہوئے۔

وہی پر سمندر کنارے لفافے، شاپر بیگ اور گند دیکھ کر بہت دکھ بھی ہوا، یہ گندی اشیاء پانیوں میں جا کر آبی حیات کو موت کے گھاٹ اتار دیتی ہیں۔ صفائی کے حوالے سے بحثیت قوم ہم بڑے نالائق واقع ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سمندر جیسی نعمت عطاء کر رکھی ہے، اس کے ساحل پر کم از کم ہمیں گند پھیلانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ہم سمندر سے لوٹ چکے تھے، اور اب ہمیں اپنی اگلی منزل کی جانب بڑھنا تھا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :