انسانیت مر چکی ہے

ہفتہ 9 جنوری 2021

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

لفظ قلم کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ مچھ ٹریجڈی پر لکھنے سے قاصر تھا۔ کئی بار لکھنے کی جسارت کی، لیکن تحریر مکمل کرنے کا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا۔ شاید اس لیے کہ بہت سے ایسے سوال ہیں، جو پوچھے نہیں جا سکتے، کچھ سچ ایسے ہیں، جن کو بولنے پر پابندی ہے۔ کچھ حقیقتیں ایسی ہوتی ہیں، جن سے پردہ اٹھنا موت کو گلے لگانا ہوتا ہے۔اس کی وجہ یہ کہ سماج کے ٹھیکیداروں میں آج تک حوصلہ پیدا ہی نہیں ہو سکا، کہ وہ سچ کا سامنا کر سکیں۔


بابا بلھے شاہ نے سچ ہی تو کہا تھا، 'سچ آکھیاں بھامبڑ مچدا اے،"
لیکن سچ کبھی چھپ نہیں سکتا، وہ ایک نہ ایک دن سامنے آ ہی جاتا ہے۔ ہزارہ قبائل کے مسلسل قتل کے پیچھے بھی کچھ ایسے حقائق، اور سچ چھپے ہیں، جو آج نہیں تو کل ضرور سامنے آئیں گئے۔

(جاری ہے)

کیونکہ زمانہ اپنے حوادث کبھی نہیں چھپا سکتا۔ وہ کہیں نہ کہیں محفوظ ہو رہے ہوتے ہیں۔ جن کو تاریخ وقت آنے پر آشکار کر دیتی ہے۔


ہزارہ جات کا قتل آج کا قصہ نہیں ہے۔ ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی داستان پرانی اور المناک ہے۔
میں نے حال ہی میں خالد حسینی کا ناول "دی کائٹ رنر" پڑھا ہے۔ جس میں انہوں نے ہزارہ قبائل کے ساتھ روا رکھے جانے والے امیتازی سلوک کی کہانیوں کو مؤثر انداز میں بیان کیا ہے۔ انھوں نے قبائل کے درمیان تعصب کی آگ کو جامع انداز میں پیش کیا ہے۔

تاجک، ازبک، پختون قبائل کے ہزار ہا اختلافات کے باوجود ہزارہ قبائل کے ساتھ دشمنی مشترک رہی ہے۔ یہ تو قبائلی لڑائیاں ہیں، جو جنگجو قبائل کے درمیان برس ہا برس سے لڑی جا رہی ہیں۔ جن میں قاتل عام ہزارہ کا ہی ہوتا رہا ہے۔ ان سارے واقعات کو خالد حسیننی نے ناول میں قلمبند کیا ہے۔
 اس کے علاوہ بھی جب میں نے ہزارہ کے بارے میں پڑھا، تو معلوم ہوا کہ ہزارہ آج سے نہیں بلکہ پچھلی چار صدیوں سے نفرت ، نسل پرستی اور فرقہ واریت کی وجہ سے مارے جارہے ہیں۔

لیکن ہزارہ اور پختون قبائل کے مابین لڑائی اس وقت تیز ہوگئی، جب انیسویں صدی کے آخر میں افغانستان کے شاہ عبدالرحمن کا دور شروع ہوا۔ جس کے بعد ہزارہ قبائل برصغیر کے برطانوی راج میں پناہ لینے بلوچستان کے علاقوں میں آباد ہوگئے۔ پھر ہزارہ نسل کشی ایک لمبے عرصے تک رک گئی۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد ، جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا ، اس کا سب سے زیادہ منفی اثرات ہزارہ قبائل پر مرتب ہوئے۔

افغانستان میں ہزارہ قبائل کا قتل عام ایک بار پھر شروع ہوا ۔ لیکن پھر جب طالبان کی حکومت آئی تو ان کے خلاف مظالم کسی حد تک کم ہوگئے۔ لیکن ایک بار پھر ، جب دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ شروع ہوئی ، اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں انتہا پسندی اور فرقہ واریت شدت اختیار کر گئی ، تو پاکستان میں بھی ہزارہ نسل کشی کا آغاز ہوا۔ اور لشکر جھنگوی نے ہزارہ قبائل کا خون بہایا۔

پھر حکومت پاکستان اور سیکورٹی اداروں نے اس نسل کشی کو روکنے کے لئے اس وقت کافی اقدامات کیے تھے، جس کی وجہ سے کافی عرصہ تک یہ مظالم رکے رہے ہیں۔ لیکن ایک بار پھر ، بلوچستان کے علاقے مچھ میں گیارہ افراد کی حالیہ ہلاکتوں نے امن و امان کی صورتحال پر کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔
بھارت ایک عرصے سے پاکستان میں دہشت گردی پھیلا رہا ہے۔

جس کے شواہد ای یو لیب کی حالیہ رپورٹ سے دنیا پر واضح ہوگئے ہیں۔ لیکن مقامی لوگ سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ان کے بقول ، اگر بھارت دہشت گردی پھیلا رہا ہے تو اسے روکا کیوں نہیں گیا ہے؟ مقامی لوگوں کا غصہ جائز ہے۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ جب کچھ مقامی لوگ رقم لے کر ملک کے خلاف لڑنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں تو ، ان کالی بھیڑوں کو روکنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

لیکن پھر بھی ، اللہ کے فضل و کرم سے ، پاکستان کے اداروں نے بے پناہ قربانیاں دے کر ملک کو ایک بڑے سانحے سے بچایا ہے۔ بہر حال ، ہمیں اپنے لوگوں کی جان ومال کے تحفظ کے لئے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف ، پاکستان میں ایک بار پھر فرقہ واریت اور انتہا پسندی پھیل رہی ہے۔ لوگوں کو بغیر کسی تصدیق کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر قتل کیا جارہا ہے۔

شیعہ مسلک کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جبکہ باقی مسالک کے علماء کرام کو بھی شہید کیا جا رہا ہے۔
بلوچستان کے علاقے مچھ میں کان کنوں کا قتل انتہائی افسوسناک ہے۔ رات کے اندھیرے میں ان معصوم کان کنوں کی نشاندہی کر کے ان کی گردنیں اڑا دی گئیں۔ اس طرح کے واقعات کئی سالوں سے بلوچستان میں ہورہے ہیں۔ جب شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو بے دردی سے ہلاک کیا جاتا رہا ہے۔


جس میں پنجابیوں اور ہزارہ قبائل کے بیشتر افراد شہید ہوچکے ہیں۔ جبکہ دیگر قبائل کے افراد کا بھی نا حق خون بہایا جاتا رہا ہے۔
ملک میں تعصب ، فرقہ واریت اور قبائلی منافرت کو ایک بار پھر ہوا مل رہی ہے۔ مچھ کے واقعات کے قاتلوں کی تلاش اور انہیں سزا دینا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں، عوام کے مال و جان کی حفاظت کرنا ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے۔

لیکن افسوس ریاست کہیں سوئی پڑی ہے۔ دوبارہ سے نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے عملدرآمد کی ضرورت ہے، تاکہ آئندہ ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔ ایسے واقعات پر جتنا لکھا جائے کم ہے۔ لیکن یہاں پر اس ماں کا تذکرہ بے حد ضروری ہے، جو دکھی دل سے بے چین کر دینے والے الفاظ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے۔
"ہمارے خاندان میں کوئی مرد نہیں بچا، ہمیں ان کی لاشوں کو دفنانا ہے"
اس فقرے پر ہزاروں المناک داستانیں تمام، لیکن افسوس یہ کسی ناول یا فلم کا ڈائیلاگ نہیں، ہزارہ قبائل کی بے بس ماؤں، بہنوں اور بیواؤں کی دوہائی ہے۔


سر تن سے جدا پڑے ہیں، اور منفی درجہ حرارت پر لواحقین دھرنا دیے بیٹھے ہیں، لیکن افسوس حاکم وقت کو "سیکورٹی تھریٹ" کے خدشات کے پیش نظر جانے نہیں دیا جا رہا، اور حاکم بھی ایک تاریخی ڈرامہ ارطغرل کے غازیوں سے مل رہا ہے، جبکہ شہیدوں کے لاشے منتظر پڑے ہیں۔
آسمان بھی یہ سب دیکھ کر پشیمان ہو گا۔ سورج تو دیکھائی نہیں دیا، کہیں دھند کی اوٹ میں چھپ گیا ہے، لیکن سارے عذاب تو لاشے سہہ رہے ہیں۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وہ دنیا میں ایک گول مٹول چہرے کے ساتھ، شیعہ فرقہ میں پیدا ہو گئے،
  لیکن افسوس، فرقوں سے بالاتر ہو کر سب سے بڑا المیہ یہ ہوا ہے، کہ انسانیت مر چکی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :