پاکستان کا المیہ

جمعہ 5 فروری 2021

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

اس دن پاکستان اور انڈیا کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان میچ تھا۔ ہم چھوٹے تھے، اور کرکٹ کا خاص شوق نہیں تھا۔ لیکن لوگوں کا جوش اور خروش دیکھ کر ہم بھی کرکٹ میچ دیکھنے لگ گئے۔ لوگ اپنی اپنی ذہنی استطاعت کے مطابق انڈیا کو برا بھلا کہنا شروع ہو گئے، انڈیا پہلے بیٹنگ کر رہا تھا، اس دوران جب پہلی وکٹ جلد گری تو پورا مجمہ اچھلنا شروع ہو گیا، ہم بھی ان کے ساتھ شور کرنے لگ گئے۔

ہمارا جذبہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا۔ انڈیا کے خلاف ہمارا جذبہ، عزم اور حوصلہ دیکھ کر آسمان پر اڑتے پرندے بھی ہم پر نازاں ہونے لگے، آخر وہ بھی تو پاکستانی پرندے تھے۔
گو کہ ہم تماشائی تھے، لیکن پھر بھی ہم انڈیا کو چلینج کرتے رہے، 'آج ہم سے میچ جیت کر دیکھاؤ،' گو کہ ہم نے ورلڈکپ میں کبھی بھی انڈیا کو شکست نہیں دی تھی۔

(جاری ہے)

پھر بھی ہم انھیں زیر کرنے کےلئے تیار تھے۔ کیونکہ انڈیا ہمارا ازلی دشمن تھا اور ہم اسے ہر میدان میں شکست دینے کے لیے پر عزم تھے۔ ون ڈے میچ تھا، رات دیر کو ختم ہوا، اور پاکستان بدستور میچ ہار گیا۔ اس وقت تو خیر کسی نے کچھ نہ کہا، اور سارے تماشائی غصے میں گھروں کو چلے گئے۔ صبح سویرے گاؤں کے وسط میں رات کے میچ کے تماشائی اکھٹے ہو گئے اور تبصرہ شروع ہو گیا۔


 سارے اس نتیجے پر پہنچے کہ پچ کو انڈیا کےلئے تیار کیا گیا تھا۔ ایمپائرز سے لے کر میچ ریفری تک پاکستان کے خلاف تھے۔ کیونکہ آئی سی سی میں بھی انڈیا کی چلتی ہے۔ انڈیا جیسے چاہے ویسے کر سکتا ہے۔ پاکستان کے خلاف نا انصافی ہوئی ہے۔ ورنہ میچ تو یقینی طور پر پاکستان کا تھا۔ اس وقت سے لے کر کل تک میں یہی سمجھتا رہا کہ پاکستان کے مقابلے میں ساری دنیا انڈیا کی حمایت کرتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمیں کرکٹ میچ بھی سازش کے تحت ہرایا جاتا ہے۔
لیکن آج میں یہ تسلیم کرتا ہوں۔ اس وقت پاکستان میچ سازش کے تحت نہیں ہارا تھا، بلکہ انڈیا کی ٹیم میں کوالٹی پلئیر تھے۔ جبکہ ہماری ٹیم میں زیادہ کھلاڑی ذاتی پسند اور سفارشی کلچر سے آئے تھے۔
اور آج بھی کرکٹ سے لے کر تعلیم، صحت، سائنس، آرٹس، فلموں، ٹیکنالوجی میں انڈیا ہم سے آگے ہے۔


ہم انڈیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ گو کہ انڈیا پاکستان کا حریف ہے۔ انڈیا میں مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا ہے۔ کشمیریوں کا برسوں سے ناحق خون بہایا جا رہا ہے۔ انڈیا نے پاکستان میں دہشت گردی پھیلائی ہے۔ انڈیا پاکستان کے خلاف میڈیا وار، پروپیگنڈا وار لڑ رہا ہے۔ یہ سارے عوامل اپنی جگہ درست ہیں۔
لیکن میرا سوال یہ ہے ہم نے انڈیا کے مقابلے میں کیا کیا ہے؟ انڈیا کا شمار دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں ہوتا ہے۔

انڈیا آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ انڈیا کی ائیر فورس اور آرمی بھی ہم سے مضبوط ہے۔ انڈیا کا تعلیمی نظام بھی کئی درجے ہم سے بہتر ہے۔ انڈیا دنیا کو بہتریں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ماسٹر، سائنس دان، کھلاڑی اور ہر پروفیشنلز دے رہا ہے۔ ہم نے آج تک دنیا کو کتنے قابل لوگ دیے ہیں؟
 ہمارا تو نوبل انعام یافتہ سائنسدان تعصب کا شکار ہو گیا۔

ہم نے تو ایدھی کو کافر قرار دیا۔
ہم تو ستر برس سے ان کافروں کے پیسے پر ملک کا نظام چلا رہے ہیں، جن کی تباہی و بربادی کی ہم دن میں پانچ مرتبہ دعا مانگتے ہیں۔ دنیا میں زیادہ قرضوں لینے والوں میں ہمارا شمار ہوتا ہے۔
دن میں چوبیس گھنٹے باہم دست و گریباں ہم رہتے ہیں۔ ہمارا ملک اسلام کے نام پر بنا تھا۔ اور اسی اسلامک نظریاتی ملک کے آئین سے ختم نبوّت کو ختم کرنے کی سازش رچائی گئی تھی۔

اسی ملک میں معصوم قصور کی زینب جیسے بچے محفوظ نہیں ہیں۔ معاشرہ اپنی اقدار بھولتا جارہا ہے۔ کیا ہماری ساری نالائقیوں، اور نا اہلیوں کے پیچھے انڈیا ہے؟
ہمیں آؤٹ آف دی بکس جا کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ انڈیا کے نام پر سیاستدان اور ادارے اپنا اثرورسوخ قائم رکھنے کےلئے عوام کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ ارے انڈیا ہمارا اتنا بڑا دشمن ہے، تو ہم ان کے مقابلے میں کہاں کھڑے ہیں؟ انڈیا نے حال ہی میں اپنے آئین سے 370ارٹیکل اور 53A کی شقیں ختم کی ہیں، جو کشیمری عوام کو تحفظ دیتی تھیں۔

ان کے خاتمہ کے بعد وہاں ہندو آباد کاری کی جائے گی۔ ہم نے انڈیا کا کیا بگاڑ لیا ہے؟ آج اگر ہم معاشی، سیای، سماجی اور عسکری لحاظ سے انڈیا سے مضبوط ہوتے تو جو ہم چاہتے وہی ہوتا۔ کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہو جاتا اور پانی کی تقسیم کا معاملہ بھی باقی نہ رہتا۔ لیکن ستر سال سے ملک کو پسماندہ رکھا گیا ہے۔ اب حالت یہ ہے کہ ہماری معیشت بیساکھیوں کے سہارے کھڑی ہے۔


ابھی کرونا وائرس کی وباء کو دیکھ لیں، ساری دنیا اس وباء کو روکنے کےلئے اقدامات کر رہی تھی۔ ویکسین بنانے میں لگی ہوئی تھی۔ لیکن پاکستان اس دوران دنیا کا واحد ملک تھا، جس میں منتخب حکومت کو گرانے کےلئے سڑکوں پر مارچ کیا جارہا تھا۔ ہماری نالائقی کسی ایک میدان تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ ہم تو خیرات میں ملنے والی چیزوں کا بھی جشن مانتے ہیں۔


گزشتہ دنوں جب خیراتی ویکسین پاکستان میں پہنچی تو شادیانے بجائے گئے۔ چین کی تعریفوں کے پل باندھ گئے۔ لیکن کسی نے سوچنا گوارا نہ کیا کہ ہم ایک میڈیکل کٹ تک کیوں نہیں بنا سکتے؟
ہمیں ماسک تک کیوں خیرات میں ملتے ہیں؟
 جبکہ انڈیا سارے میڈیکل کے آلات نہ صرف خود تیار کرتا ہے، بلکہ پوری دنیا کو بھی بھیجتا ہے۔ ابھی انڈیا نے دو کامیاب ویکسین تیار کر لیں ہیں۔

جنھیں وہ اپنے شہریوں کے علاؤہ پڑوسی ممالک کو تحفے میں بھی بھیج رہا ہے۔ جبکہ ہم میں نہ ویکسین بنانے کی اہلیت ہے۔ اور نہ ہی ہم ویکسین خرید سکتے ہیں۔
موجودہ حکومت تو بڑی آسانی سے سارا ملبہ پچھلی حکومتوں پر گرا کر بری الزمہ ہو جاتی ہے۔
لیکن موجودہ حکومت نے بھی کوئی تیر نہیں مار لیا۔ وزیروں، مشیروں کے وہی شاہی پروٹوکول، پہلے والی موج مستیاں، جبکہ عوام مہنگائی سے مر رہی ہے۔


پاکستان کے تو اندرونی مسائل بہت زیادہ ہیں۔ اور پھر ہمارا المیہ یہ ہے کہ غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنے کی بجائے، ہم دوسروں پر الزام تراشی کرتے ہیں۔ بھلے قصور ہمارا اپنا ہی کیوں نہ ہو۔
  اگر ہم انڈیا کو شکست دینا چاہتے ہیں، تو پہلے ہمیں اپنے آپ کو مضبوط بناتا ہو گا۔ جب کوئی ملک اندرونی طور پر مضبوط ہوتا ہے، تب وہ ترقی کرتا ہے۔ پھر اس کا حکم چلتا ہے۔ لیکن یہ سب وہ قومیں کر پاتی ہیں، جو دوسروں کے رحم و کرم پر نہیں ہوتیں۔ جن کو بھیک میں ویکسین دوسروں ممالک سے نہیں ملتی۔ وہ اپنے وسائل استعمال کر کے اپنے پاؤں پر کھڑی ہوتی ہیں۔ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنے والی قومیں غلام تو رہ سکتی ہیں، حاکم نہیں۔ اور شاید یہی ہماری قسمت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :