تھل کی یاد میں راکھ سے لکھا گیا کالم

پیر 13 دسمبر 2021

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

کچھ جگہوں میں جادوئی کشش ہوتی ہے. وہ اپنے حصار میں جکڑ لیتی ہیں. وہ بھلے مٹی کا بوسیدہ منکیرہ کا قلعہ ہو. ریت کے ٹیلوں کے درمیان اجڑا شہر ہڑپہ ہو. فلک بوس مری کے پہاڑ ہوں. دامن کوہ سے روشنیوں میں ٹمٹمتے شہر اسلام آباد کا نظارہ ہو. یا پھر اپنے تھل کی کوئی ٹھنڈی سوجھل رات ہو. ہر منظر ہر نظارے سے ہر کسی کی مخصوص یادیں وابستہ ہوتی ہیں.

مجھے بھی اپنے تھل سے محبت ہے. میں بھی اپنے تھل کا اسیر ہوں.
ایک طویل عرصے سے میں نے کچھ نہیں لکھا. اس دوران کافی دوستوں نے رابطہ بھی کیا اور میرے آرٹیکل نہ لکھنے کی وجہ بھی دریافت کرتے رہے. تعلیمی مصروفیات اور کچھ نام نہاد وقت کی قلت کے باعث کچھ نہ لکھا سکا.

(جاری ہے)

لیکن کل ایک دوست نے مجھے سرائیکی شاعر سئیں اشولال فقیر کا لکھا کلام واٹس ایپ کیا.

جس کے  بول کچھ یوں ہیں.
"خوشبو آووے پئی تھل دے پاسوں ولا"
ان سرائیکی مٹھڑے لفظوں کی بنت اور گائیکی  نے مجھے اپنے سحر میں جکڑ لیا. اور سینکڑوں میل دور لاہور میں مجھے اپنے تھل کی خوشبو محسوس ہونے لگی.
میری انگلیوں میں جنبش ہوئی,  قلم نے حرکت کی اور میں اپنے تھل کے بارے لکھنے لگا.
تھل اور اہلیان تھل کا کل تک مذاق اڑایا جاتا رہا ہے.

تھل کے ووٹرز کی سپورٹ سے اقتدار کے مزے لینے والے, انہی پر اپنے نشتر چلاتے رہے ہیں.
بھکر ضلع بننے سے پہلے اہلیان بھکر کا میانوالی کے لوگ استحصال کرتے رہے. اور جب بھکر کو ضلع بنایا گیا تو تھلوچڑ کچھ گھرانوں کے آسیب کا شکار ہو گئے. جس سے کچھ تو باغی ہو گئے, جنھیں تھانہ کچہری کے زور سے دبانے اور خاموش کرانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی. اور زیادہ تر عوام میں صدیوں سے رگوں میں گردش کرتی غلامی جو قیام پاکستان کے وقت ختم ہو گئی تھی,  دوبارہ وہ غلامانہ سوچ لوٹ آئی.

جس نے کچھ ذہنوں میں اس قدر سرایت کیا.  جس سے وہ آج تک باہر نہیں نکل پائے.
تھل کے باسیوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا رہا ہے. ایک تو انہیں ترقیاتی کاموں سے محروم رکھا گیا. پھر غضب خدا کا انہیں کی زمینوں پر ناجائز قبضے کروائے گئے. انہیں سیاسی عناد کا نشانہ بنایا گیا. تھل کو تعلیم,  صحت, بجلی اور پختہ سڑکوں کی فراہمی تک نہیں کی گئی.

یہ تو مشرف کا بھلا وہ دیہی ترقیاتی سیکیموں کا اجراء نہ کرواتے, تو آج ہم لوگ موجودہ سہولتوں سے محروم رہتے. کچھ ان کاموں کا بھی کریڈٹ لیتے ہیں.
تھل کی زمینیں باہر کے باشندوں کو الاٹ ہوتیں رہیں, کسی ممبر اسمبلی نے کسی پارلیمنٹ کے فلور پر بھی تھل کے حقوق کا مقدمہ نہیں لڑا.
 پچھلی دو سے زائد دہائیوں سے ایم ایم روڈ "خونی سڑک" بن چکا ہے.

اسی روڈ نے حال ہی میں بھکر کی صحافت کے دو درخشندہ ستاروں کو دبوچ لیا. کئی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا. آج تک یہ اہم شاہراہ دوبارہ نہیں بنی,  آخر کیوں؟
بھکر میڈیکل کالج دوسرے ضلع میں منتقل کر دیا گیا. کیونکہ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے؟. آج بھی پنچاب میں سب سے کم شرح خواندگی تھل میں ہے. بچیاں تو دور کئی بچے بمشکل میڑک تک تعلیم حاصل کر پاتے ہیں.

تھل کے کئی علاقوں کی سڑکیں مشرف دور کے بعد دوبارہ نہیں بن سکیں, جہاں بنائی بھی گئی ہیں تو کرپشن کی وجہ سے ناقص میٹریل کا استعمال کیا گیا. جس کے باعث دوبارہ وہ اپنی پہلے والی حالت میں واپس پلٹ گئی ہیں. تھل کا ایک مسئلہ نہیں ہے, کئی مسائل ہیں. جن پر جتنے بھی کاغذ سیاہ کیے جائیں,  کم ہیں.
لیکن یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ ان سارے مسائل کا ذمے دار کون ہے؟
بدقستمی سے تھل کو تھانہ کچہری کی سیاست کا مرکز بنانے والے مقامی "پگڑ پوش" ہیں.

اور یہی وہ پہلا گروہ ہے,  جو تھل کی خوشحالی میں اہم رکاوٹ ہے. یہ وہ گروہ ہے جن کے وڈیروں نے انگریز کی چاکری کی, انگریز کے گھواڑے اور کتے نہلائے, ان کے حققوں کے چلم گرم کرتے رہے,  جس کا  بطور انعام انہیں جاگیریں اور جائیدایں الاٹ کی گئیں. جو انگریز کے باپ کی نہیں تھیں. وہ بھی مال مفت دل بے رحم ہو کر اپنی سخاوت چلاتے رہے. انگریز کی سخاوت دوسروں کے گلے پڑ گئیں.

اور ان مقامی پگڑ پوشوں کی آنے والی نسلیں خود عیاش پرست ہو گئیں اور تھل کی عوام کو اپنے مذموم اور نا پاک عزائم سے دوش دیتی چلی آ رہی ہیں.
دوسرا اہم گروہ خوشامدی, "جی حضوری" کرنے والوں کا ہے,  جو تھل کے مکینوں کا خون چوسنے میں پیش پیش رہے ہیں. پچھلے دنوں بھکر سے زیرک صحافی اعجاز بلوچ صاحب نے سوشل میڈیا صارفین سے دریافت کیا کہ بھکر کی ترقی میں حائل رکاوٹوں میں خوشامدی ٹولے کا کتنا ہاتھ ہے؟ تو اکثریت کا جواب یہ تھا: کہ یہ مخصوص چمچہ گیر ٹولہ ہی اصل مسائل کی جڑ ہے.

جو اپنے ذاتی مفادات تو اپنے "خاص ہنر" سے حاصل کر لیتے ہیں. لیکن اجمتاعی کاموں میں حیل و حجت سے کام لیتے ہیں.
تیسرا گروہ خود عوام ہیں. جو خان جی کے سامنے ٹس ہو جاتے ہیں. یا پھر اپنے مفاد کےلیے "جی جی جی" کا ورد لگائے رکھتے ہیں. اور ان میں اکثریت ان کی ہے, جو سارا دن کسی چائے خانے کسی ہوٹل یا پھر کسی کھوکھے پر بیٹھ کر سگریٹ کی ڈبیاں پھونک جاتے ہیں.

اور کئی پیالے چائے جسے  "چسکی" کہہ کر  اپنے اندر انڈیل لیتے ہیں. اور ساتھ میں اپنے اپنے خان جی کی تعریفوں سے زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں. اور تعریفیں بھی ایسی ویسی, "سبحان اللہ".  کسی تعلیم یا صحت کے پروجیکٹ پر بات نہیں کریں گے. بلکہ یہ بتانے میں مسرت محسوس کرتے ہیں کہ خان صاحب نے کتنے بندوں پر جھوٹے پرچے کروائے, کتنی لڑائیاں کروائیں, کتنوں کی عزتوں پر ہاتھ ڈالویا وغیرہ وغیرہ.


یہ سب عوامل اپنی جگہ, لیکن اب وقت بدل چکا ہے. ہر شخص کو سوشل میڈیا نے سیاسی طور پر بالغ کر دیا ہے. لوگ اپنے مفادات, اپنے نفع و نقصان کو جاننے لگے ہیں. تھل کی عوام کو بھی اپنی  سمت درست کرنا ہو گی. انہیں اپنے ذاتی مفادات سے نکل کر اپنے پورے معاشرے کی خوشحالی اور ترقی کی سوچ کی طرف مائل ہونا ہو گا. اور انہیں سب سے پہلے اپنے علاقائی وڈیروں سے جان چھڑانا ہو گی.

جو چند برادریاں ہم پر مسلط ہیں, ان کے چنگل سے نکلنا ہو گا.
اسی میں بہتری اور بھلائی ہے. ورنہ میں صرف اپنے علاقے کی چند برادریاں اور ان کے عوام کے ساتھ سلوک اور اپنے ہتھکنڈوں سے لوگوں کو نقصان پہنچا کر انہیں محسوس نہ ہونے دینا پر لکھنا شروع کروں, تو دماغ شل ہو جائیں.  یہ قصہ پھر کبھی زیر قلم لائیں گے.
میرا تھل کے مسائل پر لکھنے کا بالکل مزاج نہیں تھا.

میں تھل کے تخیل اور فنٹسیی میں کھونے لگا تھا. لیکن پھر کچھ درد پرانے جاگ اٹھے. اور میں نے سوچا وہ لکھو جس سے چند فی صد ہی سہی, کچھ تو فائدہ ہو.
مجھے امید ہے تھل کی قسمت بدلے گی.  یہاں خوشحالی آئے گی. اور لوگ اعلی تعلیم یافتہ ہوں گے. وقت بدل جاتا ہے,  لیکن کچھ زخم اور نشان ان مٹ ہوتے ہیں. اہل شعور اور اہل ظرف لوگ ہر اس شخص پر لعنت کریں گے.

جس نے بھی تھل کو لوٹا ہو گا.
تھل کی عوام کے ساتھ ناجائزی اور نا انصافی کا موجب رہا ہو گا. تھل کی عوام کو تھانہ کچہری کی سیاست میں دھیکلنے, ان کو آپس میں گتھم گتھا کرنے میں اس کا کردار رہا ہو گا. عوام کے پیسوں سے لگژری گاڑیوں میں ان کے کام کے بہانے اپنے ڈرائیورز کے ذریعے پیسے بٹورنے والے کب تک عیش کریں گے؟ ان سب کی نسلوں تک کو لوگ معاف نہیں کریں گے.

سب کا احتساب ہو گا. سب کو ایک دن اپنے کرتوتوں کا حساب چکانا ہو گا.
اور وہ وقت قریب سے قریب تر ہے. سننے میں آیا ہے,  کچھ یونین کونسلز میں چیئرمین اور وائس اپنے ممبران کے ساتھ مل کر ترقیاتی کاموں کے پیسے باہمی مشورت سے ایک دوسرے میں بانٹ لیتے ہیں. ایک دن ان کا بھی حساب ہو گا. جو بھی ایسا کرتا ہے اسے دنیا اور آخرت میں ذلت کی مار ہو گی.
کالا دھندے میں ملوث سبھی کو اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے. ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے. لیکن شرم, سوچ اور لحاظ کسی کسی کو ہوتا ہے.
اور عبرت بھی بہت کم ہی پکڑتے ہیں. 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :