کٹاس راج کے مندر اور آنسوؤں کا تالاب

جمعہ 23 جولائی 2021

Muhammad Saqlain Kanjan

محمد ثقلین کانجن

جب ہم کٹاس راج تیرتھ پہنچے، تو اس وقت وادی کہون میں کٹاس گاؤں کے شمالی پہاڑ کی چوٹی سے ابھرتے سورج کی روشنی پھیل رہی تھی۔ ہر طرف چپ تھی۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ ٹھنڈی ہوا میں وادی کہون کے درختوں کی بھینی بھینی مہک تھی۔ جس نے ہمارے بدنوں میں تازگی پیدا کر دی، اور ہم سے میلوں دور کے سفر کی تھکان رافع ہو گئی۔ ہم نے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی اور کٹاس کے مندروں کی جانب چل دیے۔

اب ہم پانچ ہزار سال پرانی تاریخی عمارت میں داخل ہو چکے تھے۔ جو کئی تہذیبوں کے آثار اپنے وجود میں سمٹے ہوئے تھی۔ یہ عمارت یونانیوں، کوروؤں پانڈوؤں، بدھ مت، جین مت اور سکھ مت سبھی تہذیبوں کا ایک مرکز رہی تھی۔ اب بھی یہاں پر شیو جی مہاراج کے آنسوؤں کی مقدس جھیل، پانڈوؤں کے مندر، بدھوں کے معبد، مہاراجہ اشوک کے سٹوپے اور مہاراجہ ہری سنگھ کا ذاتی محل موجود ہیں۔

(جاری ہے)

یہ مقام مسلمانوں کےلئے بھی اہم ہے۔ یہاں پر شہرہ آفاق مہندس ابوریحان البیرونی نے شکنتلا یونیورسٹی سے سنسکرت زبان کی تعلیم حاصل کی اور وہ کافی عرصہ یہاں پر مقیم رہے۔ البیرونی نے یہاں سے سنسکرت، روایات، تاریخ اور کلچر کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد قلعہ نندنا میں بیٹھ کر،" کتاب الہند" لکھی، جس میں زمین کا قطر اور محیط بیان کیا گیا۔ البیرونی کی پیمائش مستند اور جامع تھی، جو آج کے کمپیوٹر دور میں بھی درست مانی جاتی ہے۔


البیرونی نے یہاں پر جس شکنتلا یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ کہا جاتا ہے کہ اس یونیورسٹی میں ایران، وسط ایشیا، چین اور بھارت کے دور دراز علاقوں سے طلباء تعلیم حاصل کرنے آتے تھے، جو یہاں پر ہوسٹل میں رہتے تھے۔ ہم شکنتلا یونیورسٹی اور اس سے ملحقہ لائبریری کے آثار دیکھنے کے بعد مندر کالی ماتا کی طرف چل دیے، جو کٹاس جھیل کے مشرقی کنارے پر موجود تھے۔

وہ کٹاس جھیل جسے آنسوؤں کی جھیل بھی کہتے ہیں۔
یہ جھیل شیو جی مہاراج کے آنسوؤں سے وجود میں آئی تھی۔ ہندؤوں کے عقیدے کے مطابق شیو جی کو اپنی بیوی ستی پاربتی سے بے حد محبت تھی۔ جب پاربتی موت کی اندھیر نگری میں اتری، تو شیو جی اس کے غم میں بے حد روہے، ان کا ایک آنسو اجمیر میں گرا، جو پشکر جھیل میں بدل گیا۔ جبکہ دوسرا آنسو کٹاس کے مقام پر آ گرا، جس نے کٹاس جھیل کا روپ دھار لیا۔

یہ دونوں جھیلیں ہندوؤں کے لئے بہت متبرک ہیں۔ جہاں پر وہ اشنان کرتے ہیں۔ جس سے ان کے تمام پاپ دھل جاتے ہیں۔ کٹاس جھیل جسے ہولی واٹر لیک بھی کہتے ہیں، ہم اس سے ہوتے ہوئے ستگھرا پیلس کی طرف نکل گئے، یہ پیلس بارہ مندروں پر مشتمل ہے، جسے یونانیوں نے تعمیر کروایا۔ ہم جب ستگھرا پہنچے تو انہیں دیکھ کر افسوس ہوا۔ یہ پیلس جو کئی تہذیبوں کی تاریخ کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔

یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ یہ منہدوم ہونے کے قریب ہے۔ جس کی حفاظت کےلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ یہ ستگھرا پیلس یونانیوں، آریوں، دراڑوں، ہندوؤں، کوروؤں اور پانڈوؤں کی تاریخ ہے۔ یہ وہ مقام ہے، جہاں پر ہندوؤں کے چار وید رگ، یجر، سام اور اتھر وید لکھے گئے۔ مہا بھارت بھی یہاں پر مرتب کی گئی تھی۔ کٹاس کے مندروں کو پہلے ستگھرا کے مندر کہتے تھے۔

ستگھرا پیلس کی یاترا کے بعد ہم نیچے جھیل کی جانب آ گئے۔ جھیل سے جنوب کی جانب سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بائیں طرف شیش ناگ دیوتا کے مندر ہیں۔ ان مندروں کے اوپر شیش ناگ کے سر کی طرح کے نقش و نگار ہیں، جس وجہ سے انہیں شیش ناگ دیوتا کے مندر کہتے ہیں۔ شیش ناگ کے مندروں کا طائرانہ جائزہ لینے کے بعد ہم مشرق کی طرف شیو لنگ مندر کی جانب چل دیے۔ ہندوؤں کے مطابق یہاں پر شیو کی لنگ ہے، جو زمین سے نکلتی ہے۔

یہ مندر ہندوؤں کےلئے بہت متبرک ہے۔ شیو لنگ مندر سے مغرب کی جانب سادھو کا مکان ہے۔ جس میں سادھو عبادت کیا کرتے تھے۔ یہی پر سنت اور پروہت بھی رہا کرتے تھے۔ جہاں پر وہ گیان اور وجدان کی کیفیت میں اپنے من کو شانتی دیا کرتے تھے۔ سادھو کا مکان کوٹہڑہ پہاڑی کے عقب میں واقع ہے۔ یہ وہ پہاڑی ہے، جہاں پر شہاب الدین غوری کی فوج نے اپنے خیمے نصب کیے تھے۔

اور علاقے میں اسلام کی تبلیغ کےلئے اسی جگہ کو اپنا مسکن بنایا تھا۔
ہم نے دور سے کوٹہڑہ پہاڑی کا نظارہ کیا۔ اور ہم کٹاس کے بقیہ حصوں لکشمی دیوی کا مندر، رام چندر جی کا مندر، وشنو دیوتا کا بت، اشوک کا سٹوپا اور شمشان گھاٹ دیکھنے کےلئے واپس آ گئے۔
ہمیں کٹاس راج تیرتھ میں کافی وقت ہو گیا تھا۔ ہم تھک چکے تھے۔ ہم تھوڑی دیر کےلئے آرام کرنا چاہتے تھے۔

ہم تالاب سے ملحقہ سڑھیوں پر بیٹھ گئے۔ موسم سہانا تھا۔ دور دور سے بادل چلے آ رہے تھے، جو کٹاس جھیل کے نیلے پانیوں کے اوپر سایہ کر رہے تھے۔ میں ان سیڑھیوں پر بیٹھا بادلوں کو دیکھ رہا تھا۔ اور اپنے سامنے تالاب کے پانیوں کی جانب نظریں جمائے، وقت کی تیزی رفتاری اور تبدیلی پر غور کر رہا تھا۔ وقت کس قدر تیزی سے گزر جاتا ہے۔ یہ جگہ جو کبھی علم و ادب کا محو و مرکز ہوا کرتی تھی۔

سکندر اعظم، کارٹکیا، شہاب الدین غوری، ظہیر الدین بابر، البیرونی اور ان جیسے کئی ذہین و فطین دماغ یہاں پر آئے۔ کچھ نے یہیں سے اپنی علمی پیاس بجھائی تو کچھ یہاں سے جنگ و جدل کے گر سیکھ کر گئے۔ وہ جگہ جو مختلف مذاہبِ کی آماجگاہ تھی۔ سادھوؤں اور بھکشوؤں کا تعلیمی مرکز تھی۔ جہاں پر جوگی تپسیا کرتے، نروان حاصل کرتے تھے۔ جہاں پر مہا بھارت اور چاروں وید لکھے گئے، جو نے آنے والے ہر دور میں علم و ادب پر اپنے آثار مرتب کرتے رہے۔

وہ متبرک مقام، وہ تعلیمی مرکز، تپسیا کی جگہ اور مقدس کتابوں کی آماجگاہ آج کھنڈر بنی ہوئی ہے۔ یہ آج ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ وقت نے ہر چیز کو الٹ پلٹ کر کے رکھ دیا ہے۔ اب عمارتیں ویرانہ بنی ہوئی ہیں، ایسا ویرانہ جنھیں دیکھ کر ڈر لگتا ہے۔ یہ فن تعمیر کا اعلیٰ نمونہ معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ جسے تباہ کرنے میں موسمی حالات کے ساتھ ساتھ انسانی افعال و اعمال کا بھی حصہ ہے۔

پانچ ہزار سال سے موجود ان عمارتوں کو محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ تہذیبوں کے آرٹ اور کلچر کے نمونے بہت نایاب اور قیمتی ہیں۔ پاکستان جو کئی تہذیبوں کا مسکن رہا ہے۔ جسے اللہ تعالیٰ نے کئی اہم مقامات عطاء کیے ہیں۔ اور یہی مقامات پاکستان کی پہچان ہیں۔ ہمیں تاریخی اور ثقافتی ورثہ کو محفوظ رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایسے مقامات ہیں، جہاں سے سیاحت کو فروغ دے کر کافی زرمبادلہ کمایا جا سکتا ہے۔

یہ مذہبی سیاحت کےلئے اہم مقامات ہیں۔ یہاں پر ہر سال یاتریوں کی وسیع تعداد وزٹ کرتی ہے۔ اور اپنا مذہبی فریضہ سر انجام دیتی ہے۔ دوسروں کے مذاہب کا ادب و احترام ہم پر لازم ہے، اور اس سلسلے میں ہمارا دین بھی ہمیں تلقین کرتا ہے۔ کٹاس راج میں ہمیں کافی دیر ہو گئی تھی۔ میرے ساتھ امیر حمزہ، محمد اویس، محمد صابر اور محمد ثوبان شریکِ سفر تھے۔ ہم سب یونیورسٹی کی چھیٹوں گزرانے سیاحت پر نکلے تھے۔ اب ہمیں اپنے اگلے پوائنٹ پر جانا تھا۔ کٹاس راج سے نکلتے ہوئے، میرے ذہن میں کٹاس کی ساری تاریخ دوڑانے لگی، جو کبھی عروج کی بلندیوں تک تھی۔ اور آج یہ اجڑے دیار کا منظر پیش کر رہی تھی۔ ہر عروج کو زوال ہے۔ رہے نام اللہ کا۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :