
آئین کی حکمرانی‘ نواز شریف سے وابستہ توقعات
جمعرات 15 مئی 2014

محمد ثقلین رضا
(جاری ہے)
ظاہر اً یہ ایک معمولی سی بات ہے لیکن اگر اسے بنظر غائر دیکھاجائے تو اندازہ ہوتاہے یہ فعل دراصل ان لوگوں کی توہین کے مترادف ہے جو ن لیگ کو نظرانداز کرکے آزاد امیدواروں کو کامیاب کراچکے ہیں۔
اس حوالے سے قانون‘ آئین پر عمل درآمد کے شائق رفیق خان نیازی ایڈووکیٹ نے باقاعدہ چیف جسٹس آف پاکستان اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کو باقاعدہ درخواست کی تھی کہ وہ ووٹروں کی اس توہین کا نوٹس لیتے ہوئے قانون پر عمل درآمد کرائیں اوران آزاد امیدواروں کو دوبارہ عوام کی طرف بھیجاجائے کہ وہ دوبارہ ن لیگ کے نشان پر الیکشن لڑیں ‘اس کے بعد عوام ان سے جو سلوک کرے اس کے مطابق فیصلہ کیاجاناچاہیے۔ مگر ہوناکیاتھا جب انتخابات کو سرے سے ہی مشکوک بنادیاگیا․․․․․سوخاموشی بھلیپاکستان جیسے قانون‘ آئین سے ماورا اقدامات رکھنے والے ملک میں گو یہ ایک انہونی سی بات ہے لیکن حقائق کی دنیا کہتی ہے کہ رفیق خان نیازی کا موقف انتہائی مضبوط ہے‘ لیکن انہیں کون سمجھائے کہ ایسا عموماً ان ممالک میں ہوتاہے جہاں اخلاقیات نامی چڑیا موجود ہو ‘ لیکن پاکستان جیسی دھرتی جہاں اخلاقیات کا جنازہ کب کا نکال دیاگیا وہاں ایسے اقدامات کی توقع رکھنا فضول ہی تصور کیاجائیگا۔
کہنے کو پاکستان بھی ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے (چاہے آخری نمبروں پر ہی سہی) جہاں جمہوریت کاراج ہے‘ یہ الگ بات کہ جمہوریت کو کبھی آمریت کی لاٹھی کے سہارے ہانکاجاتاہے تو کہیں جمہوریت نوازوں کے ہاتھوں زخمی زخمی ہونے کے باوجود بمشکل منزل کی طرف لایاجاتاہے۔ یہ افسوسناک کہانی ایک طرف رکھتے ہوئے اگر قانون اورآئین کی حاکمیت کے ضمن میں جاری دعوؤں کاجائزہ لیاجائے تو نہایت ہی افسوسناک پہلوسامنے آتا ہے کہ پاکستان بدقسمتی سے کبھی بھی اس معاملے میں قانون پر عمل کرنیوالے ملکوں میں شامل نہیں ہوسکا ۔ عوام کاتو خیر قصور ہی کیا ‘ جب قانون‘ آئین اشرافیہ کو کھل کھیلنے کا موقع دے گاتو عام آدمی کیلئے قانون بھی موم کی ناک ہی تصور کیاجائیگا کہ جسے طاقتو تو جس طرف چاہے موڑ دے لیکن عوام کیلئے وہ ناک موم کی نہیں ہوتی ۔ بہرحال ایسے بے شمار عوامل جن کا تذکرہ ان صفحات پر ممکن نہیں ‘ بھی موجود ہیں جن سے اشرافیہ کے ہاتھوں قانون کی اڑائی جانیوالی دھجیوں کی واضح نشانیاں ملتی ہے۔
انتخابات سے قبل آئین کے آرٹیکل 62-63کابڑا ہی واویلا رہا‘ ریٹرننگ آفیسروں کی تلوار چلی تو کئی ”خائن “ بھی بن گئے اور”بنظرغائر ایماندار نہیں رہے “ کئی امیدواروں کی ” حب الوطنی “ خطرے میں رہی تو کئی امیدواروں کو ”کرپشن “ کاتحفہ دیکرسیاسی کھیل سے باہر کیاگیا لیکن شاذرونادر ہی ایسے کیس سامنے آئے جن میں یہ ”خائن‘ کرپٹ‘غدار وطن‘ بے ایمان “ الیکشن لڑنے کیلئے نااہل قرار پاتے ‘ حیرت کی بات یہ رہی ہے کہ اتنے بڑے الزامات کے باوجود ان امیدواروں نے نہ صرف الیکشن لڑا بلکہ وہ کامیاب ہوکر پاکستان کے سب سے مقتدر ‘ طاقتور ایوانوں کا حصہ بھی بن چکے ہیں۔ اب اس ضمن میں آئین کی آرٹیکل 62-63پرپوری طرح سے عمل درآمد کے دعویداروں کو یقینا اطمینان نصیب ہوگا کہ لوئر کورٹس میں کم ازکم اس آرٹیکل کا اطلاق ضرور دکھائی دیا۔
بہرحال پاکستان کاذکر کرتے ہوئے اخلاقیات کا ذکر چھڑا‘ عام پاکستانی شہر ی ابھی بھی اخلاقیات کے کچھ نہ کچھ دائرے میں ہے ورنہ اگر اشرافیہ ‘ قانو ن بنانے اورنافذ کرنیوالے احباب کی”کارکردگی “ کودیکھاجائے تو بحیثیت قوم ہمارے ہاتھ شرمندگی کے سوا کچھ نہیں آتا ۔محض رفیق خان نیازی ایڈووکیٹ کے استدلال کو ہی لے لیجئے ‘ اخلاقیات کی اڑتی دھجیوں میں گو کہ لاکھوں ووٹرز کی چیخیں تو سنائی دیتی ہیں لیکن سنے کون؟؟ کیوں سننے والے اورجرم کرنیوالے دونوں ہی اس حمام میں ننگے دکھائی دیتے ہیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
محمد ثقلین رضا کے کالمز
-
سرکاری حج عمرے
جمعہ 31 مئی 2019
-
انصاف، حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹیں
جمعرات 27 دسمبر 2018
-
قبرپرست
جمعہ 31 اگست 2018
-
محنت کش ‘قلم کامزدور
جمعہ 2 مارچ 2018
-
باباجی بھی چلے گئے
اتوار 28 جنوری 2018
-
پاکستانی سیاست کا باورچی خانہ اور سوشل میڈیا
بدھ 1 نومبر 2017
-
استاد کو سلام کے ساتھ احترام بھی چاہئے
ہفتہ 7 اکتوبر 2017
-
سیاستدان برائے فروخت
منگل 22 اگست 2017
محمد ثقلین رضا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.