
بیچ دو
منگل 17 فروری 2015

محمد ثقلین رضا
(جاری ہے)
دلچسپ بات یہ ہے یہ خریدنے ،بیچنے والے ہراشتہار میں نئے ہوتے ہیں اور پھران کے کسٹمر بھی الگ لگ۔
یہ اشتہار دیکھنے بعد ابتداً تو ہنسی آتی رہی لیکن جب پاکستان کے حالات دیکھے تو واقعی لگا کہ یہاں بھی بیچنے خریدنے کا سلسلہ جاری ہے ،ظاہر ہے کہ ایک بیچے گا دوسرا خریدے گا ۔
صاحبو! محکمہ ریلوے کسی زمانے میں منافع بخش نہ سہی لیکن اپنے وسائل اور اثاثوں کی وجہ سے اہمیت کاحامل رہا ہے لیکن صاحبان اقتدار کی غفلت ، سیاسی ،آمرانہ مداخلت ، من پسند تقرریوں، غلط فیصلوں کی وجہ سے آج اسے اس نہج پر پہنچادیاگیا ہے کہ اب انجن تک نہیں ملتے۔ ہمارے ایک دیرینہ تعلق دار جو محکمہ ریلوے کے اہم ترین شعبہ سے وابستہ رہے ۔بتاتے ہیں کہ کچھ ہی عرصہ قبل ریلوے انجنوں کے ریڈی ایٹر چوری کا معاملہ درپیش رہا۔ یہ ریڈی ایٹر لاکھو ں مالیتی تھے ان صاحب کو اس معاملے کا انکوائری آفیسر مقرر کیاگیا تھا وہ جب ڈیزل ورکشاپ راولپنڈی پہنچے (اس مقام پر ریلوے انجنوں کی مرمت کی جاتی ہے ) انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ایک ریڈی ایٹر کتنے وزن کاہوتاہے ۔خیر انہو ں نے وہاں کام کرنے والے ملازمین سے استفسار کیا کہ کیا کوئی ایک آدمی یا آٹھ دس آدمی ایک ریڈی ایٹر کو اٹھاسکتے ہیں ۔ جواب ملا کہ ریڈ ی ایٹرکو اٹھانے یاشفٹ کرنے کیلئے کرین استعمال کی جاتی ہے او راسے بڑے ٹرالروں میں لے جایاجاتاہے۔ انکوائری افسر نے سوال کیا کہ کرین کے ذریعے ایک ریڈی ایٹر اٹھاکر ٹرالر میں رکھنے کے مراحل کا کیا آس پاس کام کرنے والوں کو پتہ نہیں چلتا کیا؟؟ جواب ملا کیوں نہیں ،کیونکہ یہ مرحلہ کافی وقت لیتاہے “ چونکہ اس ورکشاپ سے ایک دو نہیں کئی ایک ریڈی ایٹر چوری ہوئے تھے اس لئے وہ صاحب انکوائری کرتے کرتے اصل جڑ تک پہنچنے ہی والے تھے کہ اسی دوران محکمہ کی ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ بھی شروع ہونے والی تھی۔ اس وقت کی ریلوے یونین کے عہدیداران نے انکوائری افسر کے خلاف ہڑتال ، احتجاج شروع کردی۔ معاملہ جب اس اعلیٰ سطحی میٹنگ میں لایاگیا تو اُس وقت کے ریلوے چیئرمین نے انکوائری افسر کو تضحیک آمیز انداز میں معاملے سے پیچھے ہٹنے اور انکوائری نہ کرنے کاحکم دیا۔ یہاں یہ بتاناضروری خیال کرتے ہیں کہ ایک ریڈی ایٹر کم ازکم چالیس سے پچاس لاکھ روپے یاشاید اس سے بھی زیادہ مالیت کا ہے۔ بہرحال یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے ۔ اس شتر بے مہار محکمہ کے ساتھ جو کچھ ہوتا رہا اس کی کچھ شہادتیں آج کے وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق بھی دیتے نظرآتے ہیں۔ حالانکہ انہیں فل اینڈ فری ہینڈدیاجائے تو ماضی کے کئی ”کھابے“ کھل جائیں گے۔
اب آتے ہیں پی آئی اے کی طرف ، اس بدنام ترین محکمے کو بیچنے یانجکاری کی تیاریاں جاری ہیں۔ لیکن اگر ماضی کے حالات دیکھے جائیں تو طیاروں کی خریداری سے لیکر من پسند لوگوں کی بھرتی تک ،قاعدے قوانین کی دھجیاں اڑانے سے لیکر پائلٹوں ،ائر ہوسٹسز کی کارستانیوں تک ،سبھی کچھ پاکستان کی بدنامی کیلئے ناکافی ہے۔ پھر یہ کہ ائرہوسٹسوں یا پائلٹوں کی بیرون ممالک میں ہونیوالی غیر قانونی سرگرمیوں کی بابت کیا چھپا رہ گیا ہے۔ با ت یہاں تک محدود نہیں ، آج پی آئی اے اس نہج پر پہنچاہوا ہے کہ اس کے پاس اب بین الاقوامی معیار کے طیارے موجود نہیں، مسافروں کو سہولت تو درکنار ،ذلیل کرنے کیلئے کئی طرح بہانے تراشے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ آج سے نہیں بہت عرصہ سے جاری ہے۔
صاحبو! یہ سارے قصے فسانے اپنی جگہ ، لیکن ایک سوال بہرحال جواب طلب ہے کہ آخر مسلم لیگ ن کے دور میں ہی کیوں نجکاری کی بات کی جاتی ہے ۔زیادہ دور نہیں لے جاتے ،1988کے دور آمریت ختم ہونے کے بعد سے 2015تک مسلم لیگ ن پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ق کو حکومت کرنے کا موقع ملا لیکن موخرالذکر دونوں پارٹیوں کے ادوار میں کسی بھی محکمے کی نجکاری کی بات نہیں ہوئی لیکن مسلم لیگ ن کو انفرادیت حاصل ہے کہ خسارے کو پورا کرنے کیلئے ”بیچ دو “ کی پالیسی اختیار کی جاتی ہے۔ حیران کن امر یہ بھی ہے کہ اس پالیسی میں یہ تک نہیں دیکھاجاتا کہ جتنی مالیت میں وہ پورے کاپورا محکمہ ،شعبہ بیچاجاتا ہے اس سے کئی سو گناززیادہ مالیت اس کے اثاثو ں کی ہوتی ہے۔ اب کہاجارہا ہے کہ پی آئی اے کوکوڑیوں کے بھاؤ نجکاری کی بھٹی میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس حوالے سے بیرون ملک ایک وی آئی پی ہوٹل (جس کی ملکیت پی آئی اے کے پاس ہے) کو بھی اسی بھاؤ میں بلکہ محکمہ سمیت بیچنے کی تیاری جاری ہے۔ دیکھنایہ ہے کہ کیا واقعی ”بیچ دو“ کی پالیسی سے ملک کی ڈوبتی معیشت کو سنبھالادیاجاسکتاہے؟ اگر تو واقعی ایسی ہی بات ہے تو یہ نادر نسخہ امریکہ یا یورپ نہیں بلکہ بھارت ، سری لنکا یا کسی دوسرے ترقی پذیر ملک میں کیوں نہیں آزمایاجاتا؟؟
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد ثقلین رضا کے کالمز
-
سرکاری حج عمرے
جمعہ 31 مئی 2019
-
انصاف، حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹیں
جمعرات 27 دسمبر 2018
-
قبرپرست
جمعہ 31 اگست 2018
-
محنت کش ‘قلم کامزدور
جمعہ 2 مارچ 2018
-
باباجی بھی چلے گئے
اتوار 28 جنوری 2018
-
پاکستانی سیاست کا باورچی خانہ اور سوشل میڈیا
بدھ 1 نومبر 2017
-
استاد کو سلام کے ساتھ احترام بھی چاہئے
ہفتہ 7 اکتوبر 2017
-
سیاستدان برائے فروخت
منگل 22 اگست 2017
محمد ثقلین رضا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.