بھائی لوگ اور لاٹھی گولی کی سرکار

جمعرات 2 اپریل 2015

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

لاٹھی اور گولی کی سرکارکوعموماً ”قابل اعتراض “تصورکیاجاتاہے،یاران وطن یوں بھی اس طرز حکومت کے عینی شاہدین میں شامل ہیں کہ یہاں ہرآٹھ دس سالہ ”جمہوری مرچ مصالحہ“ کے بعد بارہ پندرہ سال کیلئے ”فوجی شب دیگ“ چڑھ دی جاتی ہے۔ اس شب دیگ میں ابتداً تو بھاری بھرکم بوٹوں کاراج ہوتا اورپھر جونہی ”جمہوری چاٹ مصالحوں“ کی آمیزش کی جاتی تو پھر شب دیگ کا اختتام بھی قریب ہوتاہے۔

اب یہ سوال اٹھتاہے کہ آخر جمہوری مصالحوں سے آمرانہ شب دیگ تیارہوتو پھرکیاذائقہ ہوتاہے، جواب سیدھا سادھا سا ہے کہ ”آدھا تیتر آدھا بٹیر“ ۔خیر گولی لاٹھی کاذکر چل رہاتھا مگر آج کل جونہی گولی لاٹھی کا نام ذہن میں آتاتو فوراً سے پہلے ہی کھنکناتی آواز میں نیم بے سراگانا اورپھر ایک ہی نام ذہن میں آجاتا ہے ”بھائی لوگ“ ۔

(جاری ہے)

اللہ بھلاکرے انڈین فلموں کے تماش بینوں کا، ان لوگوں نے پہلی دفعہ جب ”بھائی لوگ “ نام سے متعارف کرایا تو ابتداً بڑی ہی حیرت ہوئی کہ بھائی تو اچھا خاصا معتبر نام ہے اوراس پھر اس میں بڑی ہی محبت ،شفقت پائی جاتی ہے مگر فلموں میں عموماًلٹھ ،بندوق بردار اور دھینگامشتی کرنیوالے کو ”بھائی “ کہا،سنا پکارا جاتا ہے ، اب آکے موجودہ نسل نے بھی جان لیا کہ بھائی ہونا الگ بات ہے اور بھائی لوگ ہونا الگ بات۔

خیر جونہی بھائی کالفظ منہ سے نکلتا ہے تو لوگ فوراً ہی سمجھ جاتے ہیں کہ کس نامی گرامی شخصیت کا ذکر ہورہاہے۔ اب بندہ اتنامشہورہوتو آخر ایک نک نیم بھی ہونا چاہےئے جو پہچان بن جائے۔ سو بھائی خوش نصیب ہیں کہ وہ تمام پاکستانیوں کے ”بھائی “ ہیں۔ چاہے وہ بزرگ اماں جی ہوں یا بابا جی ، نوجوان لڑکی ہو یا پھر نوجوان منڈے کھنڈے ،سبھی ”بھائی“ ایک ہی شخصیت کو کہتے ہیں۔

اب بھلا بتائیے کہ اتنی شہرت کبھی کسی کونصیب ہوئی ہے بھلا
صاحبو!کئی عشروں سے تذکرہ چھڑا ہے کہ گولی لاٹھی اوربھائی لوگ کا ذکر عموماً کراچی میں ہی کیوں ہوتاہے، پھر حلقہ بندیوں کے بعد تو قتل وغارت بھی عام ہوگئی، پھر سوال اٹھتا ہے کہ حلقہ بندیاں تو عموماً انتخابات کیلئے ہوتی ہیں، جواب بھی سیدھا سا ہے یہاں انتخابات کی بات نہیں بلکہ ”قتل وغار ت “ کیلئے حلقہ کا تعین کیاجاتاہے۔

یعنی جو زیادہ قتل وغارت کریگا وہی جیت جائیگا۔ اب تک تو ”بھائی لوگ “ کامیاب تھے مگر اب جو سنگین سنگین الزامات سامنے آرہے ہیں وہ بذات خود خطرناک ہی ہیں اورہمارا دعویٰ ہے کہ کوئی بھی کمزور دل آدمی ایسی ”ہارر فلمیں“ برداشت نہیں کرسکتا۔ یوں بھی کراچی کے ”کمزور دل “ افراد کاماننا ہے کہ کوئی بھی عام آدمی (جس کاذہنی توازن بھی نارمل ہی ہو)بھائی کی تقریر نہیں سن سکتا ۔

سوال اٹھا کہ ایسا کیوں ہے ،کیا سر تال زیادہ ہوجاتی ہے یا پھر آواز کی گھن گرج کا اثر زیادہ ہوتا ہے۔ جواب آیا کہ ”بھائی جتنے رنگ ایک تقریر میں بدلتے ہیں وہ پورا پاکستان ایک سال میں نہیں بدل پاتا “ جواب دینے والے نے ہاتھ نچاتے ہوئے کہا کہ ”لے دسو“ کوئی بیک وقت سلطان راہی، مصطفی قریشی، ریشماں، نور جہاں اور مولانا بن سکتا ہے ؟ بندہ ایسے سوال پر سوائے بیوقوفانہ انداز میں ہنسنے کے کیاجواب دے سکتا ہے، سوال کرنے والے نے خود ہی جواب دیدیا” بھائی یہ کام کئی سالوں سے کررہے ہیں“اب کملے لوکی ،خواہ مخواہ بھائی کی جنس کاتعین کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ گولی لاٹھی بظاہراً جنس مونث سے تعلق رکھتی ہیں لیکن تاثیراً مذکر سے ان کاتعلق ہے ۔

ایسے ہی بھائی لفظ ظاہراً پیار محبت کی علامت ہے مگر تاثیراً․․․․․جواب کیلئے خالی جگہ چھوڑدی کہ(اب جس کے جی میں آئے وہ خالی جگہ پرکردے)
صاحبو!بھائی لوگوں کی سیاست کے انداز سے متعلق کچھ لکھنا یوں بھی فضول ہے کہ یہ عقدہ تو دنیا بھر پر کھل چکاہے، اب کراچی سے لیکر لندن کی گلیوں تک ہرسو بھائی کاذکر خیر ہورہاہے، کبھی پکڑن پکڑی تو کبھی ”چھپن چھپائی“ یعنی چوہے بلی کا کھیل جاری ہے، اسی لئے تو بھائی روتی منہ بسورتی آواز میں چلااٹھے” یار میں تو پہلے ہی لندن میں پھنساہواہوں میری جان کیوں عذاب بناتے ہو“ بھائی کے علم میں شاید آگیاہوگا کہ اب ”چھپن چھپائی اور پکڑن پکڑائی کاکھیل کراچی کی گلیوں میں جاری ہے، یعنی جو سامنے آیا فوراً ” چوہے دان “ میں پھنس گیا۔

شنید تو یہی ہے کہ کل کے شیر آج گلی گلی میں لگے ”چوہے دانوں“سے چھپتے چھپاتے پھررہے ہیں۔ رہی سہی کسر نبیل گبول کے بیانات سے پوری ہورہی ہے۔
موجودہ صورتحال کو دیکھ کرلگتا ہے کہ اب بھائی لوگ قسم کی سیاست اپنے انجام کو پہنچنے والی ہے، خدا خیرکرے ، اگر یہ کام نیتا ً ،ارادتاً پرخلوص انداز میں جاری رہا تو پھر اس لطیفہ کے مصداق ہی رنگ لائیگا ۔

شیر کی شادی میں چوہا بڑے ہی جوش وخروش سے ناچ رہا تھا، شیروں کو یہ بات بری لگی ،فوراً چوہے کی گردن سے پکڑکرپوچھا گیا ،تم چوہے ہوکر شیرکی بارات میں کیوں ناچ رہے ہو“ چوہامسکین سی شکل بناکر بولا ” شادی سے پہلے میں بھی چوہاتھا“ یعنی بھائی آنیوالے کل یہی کہتے دکھائی دینگے ”ہاں ہاں میں کل شیر تھا مگرآج․․․․․․“ آج اور کل کی تخصیص کرنیوالے جانتے ہونگے کہ گذرا ہوا ہرلمحہ سہانا لگتا تو کبھی سوہان روح بھی ۔ ہوسکتا ہے کہ گزرے ہوئے پل بھائی لوگوں کو ”سہانے “ مگر پوری ایمانداری سے یہ بات لکھ رہے ہیں کہ آنیوالے کل وہی ”سہانے لمحات “ سوہان روح بن سکتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :