
شہید کتاب ادب مافیا کو بے نقاب کرگئی
جمعہ 12 مئی 2017

محمد ثقلین رضا
(جاری ہے)
ہم نے فرزانہ ناز کی شہادت اور ادب مافیاکاذکر کیا ، ایک ادب شناس دوست سے گذشتہ روز با ت ہورہی تھی ان سے معلومات لینے کیلئے پوچھ لیا کہ اکادمی ادبیات اور نیشنل بک فاؤنڈیشن اور ایسے دوسرے اداروں کے قیام کامقصد کیا ہوتاہے؟ کیا یہ ادارے اپنے مقاصد پورے کررہے ہیں، انہوں نے بتایا کہ اکادمی ادبیات مقالہ جات کی تیاری میں ادبی شخصیات کی معاونت کرتی ہے جبکہ نیشنل بک فاؤنڈیشن ادبی کتب کی تیاری میں شعرا، ادبا سے تعاون کرتی ہے۔ اب سوال یہ تھا کہ کیا ان دونوں تنظیموں نے اپناکام صحیح معنوں میں انجام دیا؟ ہمارے سوال پر اس دوست نے کہا کہ میں نے جب سے شعور سنبھالا ہے دونوں تنظیموں کانام سن رہاہوں اوران دونوں پر ہمیشہ سیاسی بنیادوں پر تقرری کی جاتی ہے حالانکہ دونوں تنظیموں کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں مگر حکومتیں من پسندوں کو نوازنے کیلئے یہ کام کرتی چلی آرہی ہیں۔ ماضی میں بھی نہ تو ان تنظیموں کی بدولت ادب سے وابستہ شخصیات کو کوئی فائدہ ہوا ہے اورنہ ہی اب کوئی فائدہ ہوسکا“ ان صاحب سے گفتگو کے بعد مزید جانچ پڑتال اورکھوج کیلئے نکلے تو عجیب انکشافات سامنے آرہے ہیں کہ کہیں زبان وکلچر کے نام پر قائم اداوں میں بھی من مانیاں جاری ہیں تو کہیں فروغ ادب کوبہانہ بناکر ٹٹ پونچیوں کو نوازا جارہا ہے۔ لیکن باعث شرم مقام یہ ہے کہ آج فرزانہ
ناز کی شہادت کو کافی دن بیت گئے نہ تو نیشنل بک فاؤنڈیشن کے روح رواں ڈاکٹرانعام الحق جاوید کی طرف سے کوئی وضاحت سامنے آئی اورنہ ہی انہوں نے ا س کی ضرورت محسوس کی بلکہ بقول شاہدین وہ سٹیج پر کھڑے تھے جب فرزانہ ناز سٹیج سے گریں انہیں جب حادثہ کے ضمن میں بتایاگیا تو وہ چونکتے ہوئے کہنے لگے ”اچھا پہلے بھی پانچ بندے سٹیج سے گرچکے ہیں“ یعنی انہیں معلوم تھا کہ پاک چائنہ فرینڈشپ سنٹر کاسٹیج خونیں حیثیت کاحامل ہے مگر انہوں نے اس کے باوجود اس کا کیونکر انتخاب کیا؟ الزامات در الزامات کی اگر بات کی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے ادارہ کو اپنی تشہیر کے علاوہ کسی دوسرے مقصد کیلئے استعمال تک نہیں کیا ؟ ان کی بدولت کسی بھی شاعر کو آگے بڑھنے یا کتب کی اشاعت میں سہولت میسر نہیں آئی؟ گویا انہوں نے اپنا عہدہ اپنی ذات تک محدود رکھاہوا ہے ۔ ادب شناس، ادب نواز شخصیات سے رابطہ رہتاہے اور شعرا، ادیبوں سے بھی بات چیت ہوتی ہے لیکن خداجانتا ہے کسی نے بھی انہیں اچھے الفاظ سے یاد نہیں کیا ؟ کیوں؟؟؟ یقینا وہ خود بھی جانتے ہونگے۔ اب خاص طورپر فرزانہ ناز کی شہادت کے بعد تو انہیں اپنی پوزیشن کلیئر کرناچاہئے تھی مگر انہوں نے الٹا احمدرضا راجہ جیسے حقیقی تخلیق کاروں کو دھمکانا شرو ع کردیا ہے ،آخرکیوں؟؟ یہ وجہ بھی خود ان کے ذہن میں ہوگی۔
اب اگر بات فرزانہ ناز کے حوالے سے کی جائے تو اس عظیم شہید خاتون کے عظیم باہمت ،تخلیق کار شوہر نے ایک عجیب سی خواہش کا اظہار کیا ہے کہ بے شک انہیں کوئی مالی امدا د نہ دیں ،میں اورمیرے بچے زندگی گزار لیں گے لیکن خدا کیلئے فرزانہ ناز کو ”شہیدکتاب“ کا لقب ضرور دیاجائے ۔ کیونکہ فرزانہ ایک سچی اورسُچی شاعرہ تھی ، اس کے جذبے صادق تھے وہ انہیں صادق جذبوں کوبروئے کار لاکر ہی شاعری کرتی رہی ہے۔ اس نے شاعری کو اپنے مفادات کیلئے استعمال نہیں کیا اور نہ ہی وہ شارٹ کٹ اور چاپلوسی کے ذریعے کسی مقام کی طالب تھی ، ا س کے ذہن میں صرف سوچ تھی تو صرف ”مثبت ادب“ کی ہی تھی اوراس کیلئے انہوں نے اپنی زندگی وقف کررکھی تھی۔
ہماری فرزانہ ناز سے واقفیت نہ تھی لیکن ان کے حالات زندگی سے واقفیت ضرور ملی ہے۔ یقینا ایک ایسے ماحول میں جب ہرسو منڈیاں سجی ہوں خاص طورپر ادب خریدا اوربیچاجارہاہو ایسے میں اگر فرزانہ ناز جیسی باہمت خاتون اگر سچے اورسُچے جذبے کے ساتھ میدان میں موجود رہے تو اس کے جذبے کو ضرور سلام پیش کرنے کودل چاہے گا
صاحبو! بتایاجارہا ہے کہ ایوان صدر سے شہید ہ کیلئے امدادی رقوم کا اعلان ہونے والا ہے، امداد کے ضمن میں کتنی رقم مختص ہوگی اور کتنے عرصہ تک ان کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری حکومت کے سر ہوگی؟ یہ فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے لیکن سوال پیداہوتاہے کہ کیا واقعی حکمران ادبی شعبہ اورادیب، شعرا سے مخلص ہیں، ان معصوم جذبات کے حامل لوگوں کی کچھ زیادہ خواہشیں بھی نہیں ہوتیں، یہ اپنا خون جگر جلاکر قوم کی بیداری ، احساس ذمہ داری پیداکرنے کیلئے زندگی بھر ایک مزدور کی طرح جتے رہتے ہیں، یہ وہ عظیم لوگ ہیں جو کسی کادکھ درد اپنے دل میں محسوس کرکے ذہن سے سوچتے ہیں اورپھر اسے صفحہ قرطاس پر بکھیر دیتے ہیں، مگر جب کسی ظالم سے ٹکرانے کی باری آئے تو ان کا قلم ہتھیار بن جاتاہے اور وہ اس راہ میں ڈٹ کرکھڑے ہوجاتے ہیں، اپنی جان پر ظلم سہہ کر بھی قوم ،لوگوں کی آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ یقینا ایسے عظیم لوگوں کی قدر کرتے ہوئے کم ازکم انکے مقام کو جانچناپہنچانا چاہئے اور خدا را حکومتی سرپرستی میں کام کرنے والے ادبی اداروں پر کم ازکم ایسے لوگ لائے جائیں جو حقیقی معنوں میں ادب کیلئے کچھ کرنے کے خواہش مندہوں ان کا مطمع نظر محض اپنی ذات کی تشہیر نہ ہو اور نہ ہی وہ ملنے والے عہدے کے بل بوتے پر اپنے آپ کو پروان چڑھاتے رہیں۔ باتیں بے شمار ہیں لیکن ایک چھوٹی سی بات کے ساتھ اختتام کرینگے کہ فیس بک اور سماجی رابطوں کے دیگر ذرائع پر ان اداروں پر مسلط شخصیات کے رنگ برنگے روپ اوراپنی شخصیت کو پروان چڑھانے کے رنگ ڈھنگ دیکھ کر کم ازکم ہمارے جیسے چھوٹے شہروں کے تخلیق کار ضرو ر احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں۔باقی رہے نام اللہ کا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
محمد ثقلین رضا کے کالمز
-
سرکاری حج عمرے
جمعہ 31 مئی 2019
-
انصاف، حقوق کی راہ میں حائل رکاوٹیں
جمعرات 27 دسمبر 2018
-
قبرپرست
جمعہ 31 اگست 2018
-
محنت کش ‘قلم کامزدور
جمعہ 2 مارچ 2018
-
باباجی بھی چلے گئے
اتوار 28 جنوری 2018
-
پاکستانی سیاست کا باورچی خانہ اور سوشل میڈیا
بدھ 1 نومبر 2017
-
استاد کو سلام کے ساتھ احترام بھی چاہئے
ہفتہ 7 اکتوبر 2017
-
سیاستدان برائے فروخت
منگل 22 اگست 2017
محمد ثقلین رضا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.