اسسٹنٹ کمشنر کی رعونت اور اساتذہ کی تذلیل

اتوار 14 مئی 2017

Muhammad Saqlain Raza

محمد ثقلین رضا

برسوں بیشتر ہمارے دورطالبعلمی کاواقعہ ہے، ڈویژن بھرمیں انفرادیت کی حامل عظیم درسگاہ گورنمنٹ کالج بھکر کے طالبعلم تھے کالج کے پرنسپل انتہائی شفیق مگر سادہ دل انسان ملک محمدنواز چھینہ تھے غالباً اس وقت وہ انیسویں گریڈ میں تھے اسی دوران کالج کے طلبہ نے کسی معاملے میں احتجاج کیا اورقریب ہی واقع سڑک پر چلے گئے اور پھر تھوڑی دیرکیلئے سڑک بلاک کردی، پرنسپل اوردیگر اساتذہ نے طلبہ کو سمجھابجھاکرواپس بلالیا تاہم اگلے ہی روز سٹی مجسٹریٹ پولیس سمیت کالج میں داخل ہوگئے کہ ہم نے کل احتجاج کرنیوالے طلبہ کو گرفتارکرنا ہے۔

سٹی مجسٹریٹ محبوب نتکانی تھے جن کے حوالے سے مشہور تھا کہ وہ کسی بھی بازار میں داخل ہوجائیں تودکانداروں کی شامت آجاتی ہے ،سینماگھروں سے لیکر عام دکانداروں تک اور قصابوں سے لیکر مرغی کاگوشت بیچنے والوں تک سبھی خوفزدہ تھے۔

(جاری ہے)

خیر اسی شہرت کے گھمنڈ میں وہ کالج داخل ہوئے ان کے ساتھ پولیس اہلکاران بھی تھے، جونہی پرنسپل گورنمنٹ کالج بھکر کو علم ہوا کہ سٹی مجسٹریٹ پولیس سمیت کالج آگیا ہے تو وہ اساتذہ کے جھرمٹ میں دفتر سے باہر آئے اور سٹی مجسٹریٹ سے پوچھا کہ ”’جناب نے زحمت کیوں کی؟؟‘ جواباً سٹی مجسٹریٹ نے رعونت سے کہا کہ میں ان لڑکوں کوگرفتارکرنے آیا ہوں جو کل کے احتجاج میں شامل تھے“ یہ سنتے ہی پرنسپل کا پارہ ہائی ہوگیا اور انہوں نے نہایت دبنگ لہجے میں کہا”جانتے ہو تم کہاں کھڑے ہو، تمہیں تمیز نہیں ہے کہ ایک تعلیمی ادارے میں داخل کیسے ہواجاتاہے ، اگر تمہارے اس غیر انسانی روئیے کے جواب میں ،کالج کے طلبہ کواشارہ کروں تو تم واپس نہیں جاسکو گے پھر سارے ضلع کی پولیس بھی لے آنا مگرکچھ نہیں کرسکو گے “ یہ سنتے ہی سٹی مجسٹریٹ کی اکڑی ہوئی گردن تھوڑی جھک گئی مگر جو کہتے ہیں کہ وہ بیوروکریٹ ہی کیا جو کسی کے سامنے گردن جھکا لے(بعض حوالوں سے کہاجاتاہے کہ یہ حضرات خدا کی بارگاہ میں سجدہ کرتے ہوئے بھی سرکو تھوڑابلند رکھتے ہیں تاکہ انفرادیت باقی رہے)انہوں نے غصے سے ملک نواز چھینہ کی طرف دیکھا اورکہا کہ میں آپ کے خلاف قانون ہاتھ میں لینے اورایک سرکاری افسرکو دھمکی دینے کا مقدمہ درج کراسکتاہوں“ملک نواز چھینہ نے انتہائی پرسکون انداز میں جواب دیا ” جانتے ہو میں گریڈ کے اعتبار سے تم سے بڑا افسرہوں، تم ایک پرچہ کراؤ میں تمہارے خلاف پرچوں کی لائن لگوادوں گا“ یہ سنتے ہی سٹی مجسٹریٹ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا اور پھر پاؤں زمین پرپٹختا پولیس والوں کے ساتھ کالج سے باہر چلاگیا۔

بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ جونہی طلبہ کالج حدود سے باہر نکلیں تو انہیں گرفتار کرلیاجائے مگر سٹی مجسٹریٹ اس کے مضمرات سے آگاہ تھا اس لئے وہ خاموشی سے اپنے دفتر چلا آیا ۔ اگلے روز طلبہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے وہی سٹی مجسٹریٹ اکیلا کار ڈرائیوکرکے کالج پہنچااورپرنسپل سے گذشتہ روز کے روئیے کی معافی مانگتے ہوئے مذاکرات کئے اور پھر ان دونوں کے درمیان طے پایا کہ طلبہ کو سمجھابجھاکر آئندہ کیلئے وارننگ دی جائے۔


برسوں بیشتر بیتے اس واقعہ کے نقش آج تک ذہن میں تازہ ہیں لیکن گذشتہ روز کوٹمومن میں پیش آنیوالے واقعہ نے ایک بار پھر ذہن میں نقش اس واقعہ کو تروتازہ کردیا ، گوکہ اب اس واقعہ کو بیتے برسوں بیت چکے ہیں، ان بیتے برسوں کے دوران اخلاقیات کاجنازہ بھی آہستہ آہستہ کاندھوں پرلادکر لے جایاجاتارہا اور اب تو باقاعدہ اخلاقیات کے جنازے کو گھسیٹاجاتا ہے۔


کوٹمومن کے واقعہ میں ایک خاتون اسسٹنٹ کمشنر جن کا نام بھی غالباعفت النسا ہے انہوں نے پرنسپل کی عدم موجودگی میں پہلے تو کالج ہذا کے ٹیچر اظہر شاہ سے محض اس لئے بدتمیز ی کہ انہوں نے موصوفہ کو کالج کے پرنسپل کی کرسی پر بیٹھنے سے منع کیاتھا ۔ لیکن جیسا کہ ابتدا عرض کرچکے ہیں وہ بیوروکریٹ ہی کیا جس میں رعونت نہ ہو ، موصوفہ غالباًسترہویں گریڈ کی افسر ہیں اور گورنمنٹ کالج کوٹمومن کے پرنسپل انیسویں گریڈ میں ہیں مگراختیارات کے فرق نے اسسٹنٹ کمشنر کو زیادہ پاور فل بنادیا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ موصوفہ نے مذکورہ ٹیچر کوگرفتارکرانے کے علاوہ مقدمہ بھی درج کرایا۔ یہ معاملہ سوشل میڈیا پر ابھرا، ہرطرف سے لعن طعن کے بعد موصوفہ نے ایک وضاحتی بیان جاری کیا کہ ان کے ساتھ بدتمیزی کی گئی، پروفیسر اظہر شاہ نے ان سے بدتمیز ی اور استفسار کیا کہ ” آپ کس حیثیت سے امتحانی سنٹر چیک کرنے آئی ہیں“ پھر حد سے بڑھتی ہوئی بدتمیز ی پر انہوں نے پولیس کو طلب کرلیا بعد میں دیگر اساتذہ کے ساتھ مل کر بھی اظہر شاہ کچہری آئے اورمین گیٹ کو ٹھڈے مارتے اورگالیاں بکتے رہے،عفت النسا کے مطابق ان حضرات نے دھمکی دی کہ باہر نکلو تمہیں مزہ چکھاتے ہیں۔


موصوفہ کے بیان کی آخری سطور ہی جھوٹ کا واضح عکس ہیں کہ کالج کے اساتذہ اول تو ایسے روئیے کا مظاہرہ نہیں کرسکتے اورپھر کچہری پہنچ کردھمکیاں بھی دیتے ،گالیاں نکالتے ہیں اور انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔ واہ واہ کیا موقف ہے، ہوسکتاہے کہ اسسٹنٹ کمشنر اپنا موقف اخبارات ،میڈیا کو ارسال نہ کرتیں تو شاید ان کے حوالے سے نرم گوشہ رکھنے والے اندھیرے میں ہی رہتے ہیں مگران کی پریس ریلیز نے الٹا ان کی رعونت اور جھوٹ کوواضح کردیا ہے۔


مزید کیا کہئے کہ بقول معروف تجزیہ نگار، دانشور رؤف کلاسرہ پنجاب کے یہ زکوٹا جن اپنے آ پکو عام انسانوں سے ماورا مخلوق تصورکرتے ہیں اوران کے باس (شہباز شریف) انہیں باقاعدہ ایسا ہی سبق دیکر مختلف اضلاع کو روانہ کرتے ہیں تاکہ یہ انسانوں کی تذلیل کرسکیں۔ روؤف کلاسرا نے بھکر کے ایک ڈی سی او کے حوالے سے پروگرام میں کہاتھا کہ یہ زکوٹا جن اگر معطل بھی کردئیے جائیں توان کاباس انہیں دویا تین ماہ بعد دوبارہ بحال کرکے پہلے سے بڑے عہدے پر تعینات کردیتاہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :