پنجاب حکومت کے مخالفین کی بے بسی

اتوار 6 اکتوبر 2019

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

 پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اپنے انتخابی منشور کے وعدوں کو وفا کرنے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے مگر دوسری جانب سابقہ حکومت کے حامی بیورو کر یٹس اور گنتی کے چند میڈیا پرسن دن رات اِس حکومت کو ناکام بنانے کے لیے مسلسل جھوٹ کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب کی وزات اعلیٰ کے لیے جنوبی پنجاب کی پسماندہ ترین تحصیل تونسہ شریف سے ایک شریف النفس اور بزدار قبیلہ کے سردار عثمان خان بزدار کو اپنا وسیم اکرم پلس قرار دیا تو اپوزیشن کے پاس مخالفت کی کوئی دلیل نہ تھی۔

چونکہ سیاسی مخالفت سیاست کا لازمی جزو ہے اِس لیے مخالفت کرنے کے لیے ایک شریف سردار کی سادگی کو وجہ تنقید بنا ڈالا۔
 ایک سال تک بیورو کریسی ، میڈیا اور اپوزیشن نے وزیر اعلیٰ کے خلاف الزام تراشیوں کی مہم چلائی مگر سردار عثمان خان بزدار، اُن کے بھائیوں اور قریبی احباب کے خلاف کوئی مالی اور اخلاقی سکینڈل ثابت نہ کر سکے۔

(جاری ہے)

وہی مخالفین اب تھک ہار کر پنجاب حکومت کی کارکردگی کو دیکھ کر شرمندہ نظر آرہے ہیں ۔

گذشتہ ایک ماہ سے میڈیا پر وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان اب یکے بعد دیگر ے دبنگ انداز میں انٹرویو بھی دے رہے ہیں اور عوام کے سامنے حکومت کو درپیش مسائل اور مشکلات کی آگاہی کے ہمراہ حکومت کی کارکردگی بھی بیان کر رہے ہیں۔
اپوزیشن کی جانب سے تحصیل تونسہ شریف میں ہونے والے ترقیاتی کاموں پر مسلسل الزام تراشیاں کی گئی ہیں اور جھوٹی افواہوں کے ذریعے وزیر اعلیٰ سردارعثمان خان کے بھائیوں اور رشتہ داروں کو ہدفِ تنقید بنایا گیا ہے۔

خا ص طور پر ایک بزرگ شخصیت طور خان بزدارکو میڈیا نے افسانوی باتوں پر بغیر ثبوتوں کے تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور اُن کی بے جاکردار کشی کی ہے۔ قابل افسوس تو یہ امرہے کہ معززین کی کردار کشی تو بآسانی کی جا رہی ہے مگر کوئی ایک فرد بھی کرپشن کے ٹھوس شوائد کے ساتھ کسی قانونی فورم پر آج تک کوئی سکینڈل لے کر نہیں گیا۔ آخر کیوں؟ اگر اِن لوگوں کے خلاف کرپشن کے ثبوت موجود نہیں تھے تو پھر پگڑیاں کیوں اُچھالی گئی ہیں؟۔

کیا صحافت اور سیاست کے اقدار اِس قدر گر چکے ہیں کہ فقط مخالفت میں شرفا کی پگڑیاں اُچھا لنا بھی اب معیوب نہیں سمجھتا۔ اسلامی معاشرے میں اخلاقی اقدار کی پستی اِس قدر بھی دیکھنا پڑے گی کبھی سوچا نہ تھا۔
 مخالفین بے شک سیاسی مخالفت کریں مگر بغیر ثبوتوں کے شرفا کی پگڑیاں نہ اُچھالیں ۔ حکومتی اداروں کا بھی اب فرض بنتا ہے کہ سوشل میڈیا سمیت دیگر صحافتی فورم پر شرفا کی عزتوں کی حفاظت کا مستقل بنیادوں پر لائحہ عمل بنائے۔

وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کے خلاف میڈیا مہم چلانے میں مقامی نام نہاد میڈیا پرسن ، شکست خوردہ قبائلی سرداروں سمیت پی ٹی آئی کے ورکر حتی کہ منتخب نمائندگان بھی شامل ہیں۔حکومتی منتخب نمائندگان جو وزیر اعلیٰ سردار عثمان خان کے بظاہر دوست ہیں، وہی لوگ در حقیقت بُری طرح حسد کا شکا رہیں اور مسلسل کوشاں ہیں کہ ضلع ڈیرہ غازی خان میں سرکاری محکمہ جات میں گڈ گورننس قائم نہ ہو اورعوام کو کوئی ریلیف نہ ملے تاکہ ضلع ڈیرہ غازیخان کی بد امنی اور انتظامی بد نظمی کو وزیر اعظم عمران خان کے سامنے وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف بطور مخالفت استعمال کیا جا سکے۔

گذشتہ دونوں ڈاکٹروں اور صحافیوں کے درمیان میڈیا کوریج پر تنازعہ پیدا ہوا تو سیاسی افراد اور چند سرکاری افسران نے اِس تنازعہ کو پس پردہ خوب سپورٹ کیا اور ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ غازی خان میں جاری ڈاکٹروں کی ہڑتال کو وزیراعلیٰ پنجاب کو بدنام کرنے کے لیے خوب استعمال کیا۔ اِس تنازعہ میں میڈیا کے سنجیدہ افراد نے اِس سیاسی شطرنج کے کھیل کو سمجھتے ہوئے فوری طورپر تنازعہ کو ختم کیا تو سردار عثمان خان کے خلاف متحرک لابی کو سخت پریشانی لاحق ہوئی ۔

اِس صلح کو خراب کرنے کی خاطر مخالفین نے آخری وقت تک شر انگیزی کا بیج بویا مگر کمشنر ڈیرہ غازی خان مد ثر ریاض ملک کی فہم جوئی نے اِس تنازعہ کو فوری پر ختم کرایا تاکہ سردار عثمان خان بزدار کے مخالفین کو پنجاب حکومت کو بدنام کرنے کا موقعہ میسر نہ آسکے۔
نامور صحافی جو اِس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزدار کے خلاف ہرروز الیکٹرانک میڈیاپر مخالفت کر رہے ہیں اُن کی معلومات کا ذریعہ مقامی نام نہاد ان پڑھ چند میڈیا سے وابستہ کالی بھیڑیں ہیں ۔

افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ملکی سطح کے نامور صحافی اُن ناقص معلومات پر ایک طرف سردار عثمان خان بزدار کی کر دار کشی کر رہے ہیں تو دوسری طرف اپنا معیار صحافت گرا رہے ہیں۔ بے شک سکینڈل کی نیوز بریک کی جائیں مگر کم از کم نیوزبریک کے لیے ٹھوس شوائد تو موجود ہوں ۔ 2019میں بھی ماضی کی طرح سُنی سنائی باتوں و معلومات پر مبنی صحافت کی جارہی ہے۔

نہ تحقیق نہ ثبوت ، بس فقط مخالفت میں پگڑیاں اچھالنا ہی سیاست اور صحافت بن کر رہ گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کے مخالفین اِس وقت تحصیل تونسہ شریف اور کوہ سلیمان میں جاری ترقیاتی کاموں کو تنقید کا ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ خا ص طور پر مواصلات کے شعبہ میں جاری زیر تعمیر سٹرکوں میں کرپشن کا جھوٹ سرعام بولاجا رہا ہے۔

قارئین کو آگاہی ہو کہ اِ س وقت19محکمہ جات کے کل 102سکیموں پر ترقیاتی کام ہو رہا ہے۔ جن کی کل منظوری Allocationفنڈ برائے سال 2019-20 فقط 9091.954ملین روپے ہے۔ اِن سکیموں میں سب سے زیادہ محکمہ شاہرات پنجاب اور این ایچ اے کے چھوٹے چھوٹے پروجیکٹس ہیں۔
  کوہ سلیمان کے لوگ آج بھی پتھر کے زمانے کی زندگی بسر رہے ہیں۔ اُن کے لیے سنگل روڈ کی تعمیر بھی بہت بڑی نعمت ہے۔

سٹرکوں کی تعمیر پر اِس مالی سال2019-20میں فقط 307ملین روپے خر چ ہو رہے ہیں ۔ جوکہ لاہور کی رنگ روڈ کی مالیت کا فقط 0.026فیصد بھی بنتا ہے۔ 307ملین روپے میں کتنی کرپشن ہو سکتی ہے۔؟ عقل سے سوچیں تو گریبان میں سوائے شرمندگی کے اور کچھ نظر نہیں آتا۔ ضلع ڈیرہ غازی خان میں جاری ترقیاتی کاموں کی جانچ پٹرتال کے لیے مسلسل انسپکشن ٹیمیں لاہور سے سکیموں کا وزٹ کر رہی ہیں اگر کرپشن ہوتی تو اب تک منظر عام پر آچکی ہوتی۔

نیز موجودہ کمشنر ڈیرہ غاز ی خان مد ثر ریاض ملک دن رات بھر پور انداز میں پورے ضلع کے انتظامی معاملات کو سنبھالنے میں کوشاں ہیں۔ اُن کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے والے کوئی اور نہیں پی ٹی آئی کے اپنے افراد ہیں۔ جو وزیر اعلی پنجاب کو ضلع کے حالات کے بارے میں میں سب اچھا کی رپورٹ پیش کرکے اُن کے ساتھ دشمنی کر رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان کو ہر ماہ کم از کم ایک دن کے لیے خود ڈیرہ غازی خان کا وزٹ کر نا چاہیے اور اپنی آنکھوں سے شہر کی حالت زار پر ایکشن لینا چاہیے۔ورنہ بہتری مشکل ہے۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :