کورونا وائرس فنڈز میں کرپشن کی گونجیں

منگل 1 ستمبر 2020

Muhammad Sikandar Haider

محمد سکندر حیدر

کرونا وائرس کی وبا پوری دُنیا کے لیے تاحال ایک ایسا معمہ ہے جس نے پہلی مرتبہ مادیت اور سائنسی علوم پر ناز کرنے والے انسان کو بے بس کر کے رکھ دیا ہے۔ کائنات کو تسخیر کرنے والے تمام دعوے اور ٹیکنالوجی کا غرور پل بھر میں خاک ہو کر رہ گیا ہے۔ بہت سے روحانی اور دُنیاﺅی رُموز جن سے حضرت انسان آشنا نہ تھا البتہ وہ آشنائی ضرور مل گئی ہے۔


موت کو در پر کھڑا دیکھ کر بہت سے انسانوں کی زندگیوں میں مثبت تبدیلی بھی آئی ہے مگر صد افسوس کثرت اب بھی خواب غفلت والوں کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب دُنیا بھر سے رپورٹس منظر عام پر آرہی ہیں کہ تقریباً ہر ملک میں اُس کے محکمہ صحت کے اہلکاروں نے اِس وباءمیں بھی اربوں روپے کی کرپشن کی ہے۔ کرونا وائرس کے نام پر کرپشن کی داستانیں کوئی انہونی نہیں ہیں کیونکہ مردہ ضمیر حضرت انسان تو مردہ لوگوں کا کفن بھی چوری کر لیتا ہے۔

(جاری ہے)


اِس کرونا وبا سے قبل بھی محکمہ صحت دُنیا بھر میں کرپشن کا آسان ترین شعبہ کہلاتا تھا۔ یونائیٹڈ نیشن ڈویلپمنٹ پروگرام (UNDP)کی رپورٹ کے مطابق دُنیا بھر میں سالانہ 455ارب ڈالر کی کرپشن ہیلتھ سیکٹر میں ہوتی ہے۔ جبکہ OECDکے مطابق دُنیا بھر میں ہیلتھ سیکٹر میں ادویات اور دیگر آلات وغیرہ کی خریداری میں 2کھرب ڈالر کی کرپشن ہوتی ہے۔ یہ رقوم کئی ممالک کے سالانہ بجٹوں سے بھی کئی گنا زیادہ ہیں۔

اِس قدر کرپشن کا مطلب انسانوں کے بنیادی حق علاج ومعالجہ پر بھاری ڈاکہ ہے۔
الجریزہ نیوز میں ایک نیوز سٹوری جولائی 2020میں شائع ہوئی جس میں پاکستانی حکومت پر 130ملین ڈالر کی کرونا وائرس کے علاج میں کریشن کا الزام لگایا گیا مگر پاکستانی حکومت نے اِس کی سخت تردید کی ۔ دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی کرونا وائرس کے علاج و معالجہ کے طریقہ کار وغیرہ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اِس پر سال 2020کا پہلا SMC01/2020سوموٹو نوٹس لیا۔

اِس کیس کی ابتدائی سماعت دو معزز جسٹس صاحبان نے کی ۔ پھر اس پرپانچ رُکنی بنچ تشکیل دیا گیا۔ اِس کیس میں قرنطینہ ویڈیوز میں مریضوں کی حالت زار، این ڈی ایم اے کی رپورٹ پر عدم اطمینان اور ہفتہ اتوار مارکیٹس کی بندش وغیرہ سمیت اخراجات برائے علاج ومعالجہ کو زیر سماعت لایا گیا۔اِس کیس کے بھی کئی دلچسپ پہلو میڈیا میں رپورٹ ہو چکے ہیں۔

المختصر اِس کیس کا خلاصہ حسب سابق روایتی ہی رہا۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل بنگلہ دیش کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرافتخار الزمان کی جون 2020کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش میں کرونا وائرس وبا ءکے علاج و معالجہ کی آڑ میں خوب مال بنایا گیا۔ حفاظتی چشمے جن کی مارکیٹ میں قیمت ایک ہزار ٹکہ( بنگلہ دیشی کرنسی) تھی وہ چشمے 5000ٹکہ میں خریدے گئے۔ بعین ہی 2000ٹکہ والی پی پی ای کٹ4700ٹکہ، 500ٹکہ والا بوٹ 1500ٹکے میں خرید کیا گیا۔

55کروڑ ٹکے کے پانچ عدد کمپیوٹر سوفٹ ویر خرید ے گئے۔ 10.5کروڑ ٹکہ سے چار عدد ویب سائٹس بنائی گئیں۔ 130آڈیو کلپ پر 11.5کروڑ ٹکہ خرچ کیا گیا۔ 10جون 2020تک ملک بھر میں کرونا وائرس کے نام پر کرپشن کے 218واقعات میڈیا میں رپورٹ ہوئے۔ جن میں سے 459870کلوگرام چاول، 30855کلوگرام چینی اور 8000لیٹرز سویا بین آئل اینٹی کرپشن کی ٹیموں نے مختلف متعلقہ لوگوں سے برآمد کروایا۔

اِس کرپشن میں بنگلہ دیشن کے محکمہ لوکل گورنمنٹ کے 89اہلکار ، ایک ضلع کونسل( Parishad)کا ممبر، ایک ضلعی وائس چیر مین ، چار مونسپل کونسلر، 29یو پی چیرمین اور 54یو پی ممبران کرپشن پر معطل ہوئے۔ جبکہ مجموعی طور پر اِس کرپشن میں 30فیصد منتخب عوامی نمائندے، 24فیصد مقامی سیاسی لیڈر، 17فیصد ڈیلرز حضرات اور 14فیصد بزنس کیمونٹی کے افراد شامل تھے۔

بنگلہ دیشی کرپشن کی یہ کہانی ہر ملک میں کرونا وائرس کے فنڈز میں خرد برُد میں کسی نہ کسی روپ میں لازمی موجود ہے۔
ٹریڈنگ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا کرپشن میں درجہ بندی نمبر 120/180ہے۔ اِس درجہ بندی کے لحاظ سے پاکستان میں کرونا وائرس فنڈز میں کس قدر کرپشن کی گئی ہوگی اِس کا اندازہ لگانا بھی کوئی محال نہیں ہے۔ بس کبوتر کی بند آنکھیں کھولنی ہوںگی۔


پاکستان میں چھوٹا سا کرپشن کا عکس فقط اتنا سا کافی ہے کہ سرکل آفیسر اینٹی کرپشن ملتان نے ایک سورس رپورٹ کی بناپر جنوبی پنجاب کے سب سے بڑے شفا خانے نشتر ہسپتال ملتان کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ ڈاکٹر شاہد بخاری کے خلاف کرونا وائرس فنڈز میں 2کروڑ روپے کی خرد برُد اور  400فیصد زائد نرخوں پر اشیا ءکی خریداری کی انکوئری شروع کر دی ہے۔ نشتر میڈیکل کالج کے افسران اِس وقت ڈاکٹر شاہد بخاری کے خلاف جاری انکوئری کو روکوانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہے ہیں اور اِس کوشش کا ایک مظاہرہ رپورٹ بھی ہوا ہے کہ کرونا مینجمنٹ اجلاس جو کہ صوبائی وزیر توانائی ڈاکٹر اختر ملک اور ڈپٹی کمشنر ملتان عامر خٹک کی موجودگی میں سرکٹ ہاﺅس میں جاری تھا اُس اجلاس میں نشتر میڈیکل کالج کے افسران ہمراہ ایم ایس تشریف لائے اور خلاف ایجنڈا اجلاس اُس میں کہنے لگے کہ ایم ایس نشتر ہسپتال ملتان نے کرونا فنڈز میں کوئی گھپلا نہیں کیا اور اُن کا دامن صاف ہے۔

لہذا اِن کے خلاف ہونے والی انکوئریاں بند کی جائیں۔ نشتر ہسپتال کی طرح کریشن کی ایسی متعدد خبریں اور واقعات پورے پاکستان میں رپورٹ ہوئے میں ہیں جنہیں قابل احتساب بنایا جاسکتا ہے۔
اگر کرونا قدرتی آفت ہے تو پھر احتساب انسانیت کی بقا کے لیے بہت ضروری ہے اور اگر کرونا بھی مصنوعی آفت ہے تو پھر یہاں تو پہلے ہی ہر شے مصنوعی ہے حتی کہ احتساب بھی ۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :