اُردو کا معیار اُردو ہی ہے

پیر 19 اپریل 2021

Muhammad Usman Butt

محمد عثمان بٹ

ہمارے ہاں یہ روایت چل پڑی ہے کہ اُردو بول چال میں جب تک بے جا اور غیر ضروری طور پر انگریزی کے الفاظ استعمال نہ کرلیے جائیں، ہم خود ہی مطمئن نہیں ہوپاتے۔ ایسا کرتے ہوئے شایدہم اپنا نام نہادلسانی معیار بڑھا رہے ہوتے ہیں مگر یہ لسانی سے زیادہ طبقاتی تفریق کا معیار ہے۔عالمگیریت کا لسانی جبر تو ایک حقیقت ہے ہی مگر ہم اپنے ذہن کا کیا کریں جو خود ہی اپنی تحقیقی ،علمی اور سائنسی سرگرمیوں کے اعتبار سے ترقی یافتہ دنیا سے بہت پیچھے ہے۔

جہاں تک اُردو کی بات ہے تو اس میں انجذاب کی بے بہا صلاحیت موجود ہے جو دنیاکی کسی اور زبان میں اس طرح موجود نہیں جو اُردو کا خاصہ ہے۔ اُردو کی اس خاصیت نے اس کا دامن بہت وسیع کردیا ہے۔ عربی، فارسی،ہندی،انگریزی اور دیگرکئی زبانوں کے بہت سے الفاظ اُردو کا حصہ ہیں مگر اس سے یہ مراد نہیں کہ ہمیں اُردو سیکھنے کے لیے لامحالہ طور پرپہلے اُن سب زبانوں کو سیکھنا ہو گا۔

(جاری ہے)

ڈاکٹر عبدالستار صدیقی نے کیا خوب صورت بات کہی تھی کہ اُردو کا معیار اُردو ہی ہے۔بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ جب عربی،فارسی،ہندی،پراکرت،سنسکرت،انگریزی غرض دنیا بھر کی زبانوں پر عبور ہو تب کہیں اُردو بولنا آئے۔ ایسی اُردو سے ہم باز آئے۔وہ ایک استاد،محقق، نقاد، ماہرِ غالبیات اور ماہرِ لسانیات تھے جو 26 دسمبر1885ء کو سندیلہ، ضلع ہردوئی، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔

اُن کے والد کا نام مولوی عبدالغفار تھا۔ میٹرک تک کی تعلیم اُنھوں نے حیدر آباد (دکن) سے حاصل کی۔محمڈن اینگلو اورینٹل کالج علی گڑھ سے بی اے کا امتحان 1907ء میں پا س کیاجس کے بعدتعلیمی حوالے سے کچھ سال کا وقفہ آیا اور پھر1912ء میں اُنھوں نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے ایم اے عربی کا امتحان نمایاں حیثیت سے پاس کیا۔حکومت ہند کی جانب سے اُنھیں وظیفہ کی بنا پر یورپ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بھیجا گیا جہاں اُنھوں نے اسٹراسبر گ یونیورسٹی جرمنی میں داخلہ لیا۔

وہاں اُنھیں Prof. Enno Littmann, Prof. Theodor Noldeke, Prof. Hogen Prof. Ralph Mitloehner, Prof. F.C. Andreas, Prof. Oldenberg اورProf. Morris Bach جیسے نامور مستشرقین سے استفادہ کرنے کا موقع ملا۔صدیقی صاحب نے جرمنی میں عربی، سریانی، فارسی،ترکی، عبرانی، سنسکرت،لاطینی، جرمن،یونانی ،فرانسیسی اور انگریزی زبانوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ کی تاریخ پر بھی کام کیا۔1919ء میں اُنھوں نے Prof. Enno Littmannکی زیرِ نگرانی گوٹنجن یونیورسٹی (Gottingen University)جرمنی سے ڈی فل کی سند حاصل کی اور ہندوستان واپس آگئے۔

اُن کے ڈاکٹریٹ کے مقالے کا عنوان ”کلا سیکی عربی میں فارسی کے مستعار (دخیل ) الفاظ“ تھا جو اُنھوں نے جرمنی زبان میں تحریر کیا۔تاریخی اور تقابلی لسانیات کے شعبے اُن کی دل چسپی کے خاص میدان تھے اور اِس میں دخیل الفاظ سے متعلق بحث اُن کا پسندیدہ ترین مو ضوع رہا ہے جس پر اُنھوں نے سب سے زیادہ لکھا ہے۔ 1920ء میں چند ماہ اُنھوں نے علی گڑھ کالج میں لیکچرار کی حیثیت سے کام کیا اور اُسی سال کے آخر میں عثمانیہ کالج حیدرآباد میں بطور پرنسپل تعینات ہوگئے جہاں وہ 1924ء تک خدمات سرانجام دیتے رہے۔

پھر عرصہ چار سال اُنھوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی کے شعبہ عربی و علوم اسلامیہ کے صدر کی حیثیت سے 1928ء تک خدمات سرانجام دیں۔1928ء سے1946ء تک اُنھوں نے الٰہ آباد یونیورسٹی میں بطور صدر شعبہ عربی و فارسی کام کیا اور وہیں سے ریٹائر ہوئے جس کے بعد پروفیسر ایمریطس مقرر ہوئے۔ وہ Linguistic Society of Indiaکے اساسی رکن ہونے کے ساتھ ساتھ اورینٹل کانفرنس اور انجمن ترقی اُردو کے تا حیات رکن بھی تھے۔

اُن کی علمی، ادبی ، تحقیقی اور لسانی خدمات کے باعث اُنھیں1961ء میں صدارتی ایوارڈ سے نوازا گیا۔1899ء سے اُنھوں نے اپنے تحریری سفر کا آغاز کیاجس کا اختتام اُن کی وفات28 جولائی 1972ء پرالٰہ آباد میں ہوا۔
عبدالستار صدیقی کے مقالات پرمشتمل صرف ایک جلد ”مقالاتِ صدیقی (جلد اول)“ کے نام سے منظر عام پر آئی جسے اُن کے بیٹے مسلم صدیقی نے مرتب کیا اور اُسے اتر پردیش اُردو اکادمی، الہٰ آبادنے1983ء میں شائع کیا۔

مسلم صدیقی اِس کتاب کی دوسری جلد بھی مرتب کرنا چاہتے تھے مگر اُن کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ اِس مقصدکے حصول میں کامیاب نہ ہو سکے۔ عبدالستار صدیقی کے باقی مضامین و مقالات میں سے جو اُنھیں میسر آ سکے، کو ساجد صدیق نظامی نے”مقالاتِ عبدالستار صدیقی (جلد دوم)“ کے نام سے کتابی صورت میں مرتب کیا جسے 2015ء میں مجلس ترقی ادب، لاہور نے شائع کیا۔

صدیقی صاحب کے مضامین و مقالات کی ایک خطیر تعداد ابھی تک غیر مدون شکل میں مختلف رسائل و جرائد میں بکھری پڑی ہے جس کے بارے میں ڈاکٹر تحسین فراقی کا کہنا تھا کہ ہمیں یقین ہے کہ مرحوم (عبدالستار صدیقی) کے چند مقالات اب بھی موجود ہیں جو تدوین کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ ایسے مقالات کا حصول آسان نہیں۔ کوشش جاری ہے۔ ہمدست ہونے پر اِن پر مشتمل تیسری جلد بھی اشاعت کی روشنی دیکھ لے گی۔

جلد دوم میں کل گیارہ مقالات اور ایک خط اُردو زبان میں ہے جبکہ ایک مقالہ انگریزی زبان میں شامل کیا گیا ہے۔ دوسری جلد کے زیادہ تر مقالات غالب# کے حوالے سے تحریر کیے گئے ہیں جن میں دہلی سوسائٹی اور مرزا غالب، کچھ بکھرے ہوئے اوراق، کچھ اور بکھرے اوراق، غالب کے خطوں کے لفافے، تبصرہ مکاتیب غالب مرتبہ امتیاز علی عرشی، اور المبین پر تعقب و تبصرہ جیسے مقالات شامل ہیں۔

دیگر مقالات میں ہندوستان کے پرانے اخبارات (فارسی اور اُردو)، شاہ جہاں کی ایک منبّت تصویر، اور کچھ غیر لفظ اُردو میں جیسے متفرق موضوعات شامل ہیں۔ شخصیات کے ضمن میں اُنھوں نے حافظ محمود شیرانی اور ڈاکٹر اشپر نگر پر تحقیقی مقالے تحریر کیے ہیں۔ خط کے ضمن میں غالب کے حوالے سے اُن کا ایک خط اِس جلد کا حصہ بنایا گیا ہے۔ انگریزی زبان میں Ibn-e-Duraid and his Treatment of Loan Wordsکے عنوا ن سے اُن کا تحقیقی مقالہ شامل ہے۔


صدیقی صاحب کے مقالات پر مشتمل پہلی جلد پاکستان میں دست یاب نہیں تھی اور اِس کی دست یابی کو یہاں ممکن بنانے کے لیے مجلس ترقی ادب، لاہور نے اتر پردیش اُردو اکادمی، الہٰ آباد کے شکریے کے ساتھ اِس جلد کو پاکستان میں پہلی بار2017ء میں شائع کیا۔عبدالستار صدیقی کے مقالات کی پہلی جلد میں اُن کے 1910ء سے 1961ء تک کے مقالات کو اکٹھا کیا گیا ہے۔

اِس جلد میں اُن کے پندرہ مقالات شامل ہیں جن کا تعلق لسانی مسائل و مباحث کے ساتھ ہے۔ اِن مقالات میں اُردو املا، تماہی کی ترکیب، ”ہندستان“ بغیر واوٴ کے صحیح ہے، ذال معجمہ فارسی میں، ”جز “ اور” جزو“کی بحث، تہنیداور بعض پرانے لفظوں کی نئی تحقیق، ”بغداد“ کی وجہِ تسمیہ، ”افسوس“ (لفظ کا ایک بھولا ہوا مفہوم)، معرّب لفظوں میں حرفِ ”ق“ کی حیثیت، لفظِ سُغد کی تحقیق، اُردوصرف۔

نحو کی ضرورت، اُردو میں ضمائرِ مفعولی کی کچھ تحقیق، احوالِ اسم، ولی کی زبان، ”وضعِ اصطلاحات، اور معائبِ سخن کلامِ حافظ کے آئینے میں ”اصلاحِ سخن“ کا تبصرہ جیسے بلند پایہ لسانی مباحث شامل ہیں۔کتاب کے آخر میں اُن کا 1926ء کا تحریر کردہ ایک خط بھی پیش کیاگیا ہے۔ڈاکٹر عبدالستار صدیقی کا اُردو املا پر کیا گیا کام نہایت اہمیت کا حامل ہے اُنھوں نے 1944ء میں انجمن ترقی اُردو کو اُردو املا کے حوالے سے تجاویز بھی پیش کی تھیں۔

افسوس کی بات ہے کہ اہلِ اُردو نے اُنھیں وہ مقام نہیں دیا جس کے وہ اہل تھے۔اُن کے تحقیقی کارناموں بالخصوص اُردو لسانیات کے تناظر میں کیے گئے کام کو آج بھی سامنے لانے کی ضرورت ہے جو مختلف جرائد میں بکھرا پڑا ہے۔ اُردو کے سکالرز کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :