ابنِ خلدون پر ایک نظر۔ قسط نمبر 1

ہفتہ 29 مئی 2021

Muhammad Usman Butt

محمد عثمان بٹ

سابق امریکی صدر ریگن نے اپنے ایک ٹیلی وژن انٹرویو میں علامہ ابنِ خلدون کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”میں امریکہ کا صدر صرف آج اِسی وجہ سے ہوں کہ میں نے ابنِ خلدون کے فلسفے سے بھرپور استفادہ کیا اور اُس کے فلسفے سے متاثر ہو کر اُس کو اپنی زندگی پر لاگو کیا اِس لیے وہ میری پسندیدہ ترین شخصیت ہے۔“ریگن کی اِس بات سے صرف ایک اشارہ اُس پہلو کی جانب کرنا مقصود ہے کہ ہم مشرق والے اپنے مشاہیر سے شاید اُس انداز سے استفادہ نہیں کرپاتے جس قدر مغرب کرتا ہے۔

مگر ماضی کے کارناموں سے استفادہ اگر حال سے ربط قائم کیے بنا محض نظریاتی سطح پرصرف کھوکھلے نعروں کی بدولت قائم کیا جائے اور اُس کا واسطہ عملی پہلو سے دور تک کا نہ ہو تو اِیسے نعرے اپنے اندر ہی دفن رہ جاتے ہیں اور تاریخ کے اگلے موڑ پر محض مذاق بن کر سامنے آتے ہیں۔

(جاری ہے)

بہرحال بات کسی اور طرف چلی جائے، اِس سے پہلے ہی میں واپس ابنِ خلدون کی جانب لوٹ آتا ہوں۔

ابوزیدعبدالرحمٰن ابنِ خلدون چودھویں صدی عیسویں کے معروف مسلمان محقق،مؤرخ،فلسفی اور ماہرِعمرانیات، معاشیات اور سیاسیات تھے جو 27مئی 1332ء (یکم رمضان المبارک 732ھ) کو قروان، تیونس میں پیدا ہوئے۔ اُنھوں نے اپنے والد محمدا بنِ خلدون سے ابتدائی تعلیم اور پھر فقہ و علمِ حدیث کی تعلیم حاصل کی۔ اُن کی تاریخ کا مکمل نام” العبر و دیوان المبتداء والخبر فی ایام العرب و العجم والبربر و من عاصر ھم من ذوی السلطان الاکبر“ تھا۔

جدید تاریخ اور عمرانیات کا یہ بانی 17 مارچ 1406ء (25 رمضان المبارک 808ھ)کو اِس دنیا سے رخصت ہوا اور قاہرہ،مصر کے صوفیا قبرستان میں دفن ہوا۔
 اُن کے خاندان کے کئی افراد مختلف بادشاہوں کے درباروں سے اچھے عہدوں سے وابستہ رہے۔ ابنِ خلدون نے 1352ء میں اپنی پہلی درباری ملازمت کا آغاز محبوس سلطان ابو اسحٰق کے منشی مہر بردار کی حیثیت سے کیا اور اُن کی یہ تقرری اُس وقت کے تیونس حکمران ابو محمد کے حکم سے ہوئی۔

ابنِ خلدون سیر و سیاحت کے دوران کئی بادشاہوں کے درباروں سے منسلک رہے۔ وہ جامعہ الازہر مصر میں درس و تدریس سے منسلک رہے اور اِس کے علاوہ مالکی مسلک کے قاضی بھی تعینات رہے۔اُنھوں نے اپنی آخری ملازمت مصر میں بطور قاضی القضاہ کی حیثیت سے انجام دی جس کے بعد اُنھوں نے اپنے آپ کو مکمل طور پر تالیف و تدریس سے وابستہ کر لیا۔ ابنِ خلدون کا سب سے اہم تحقیقی کارنامہ عربی زبان میں”تاریخ ابنِ خلدون“کی تصنیف و تالیف ہے جس کا بارہ جلدوں میں اُردو ترجمہ نفیس اکیڈمی کراچی نے شائع کیا۔

اِس تاریخ کا مقدمہ اِس قدر معروف ہوا کہ یہ علیحدہ کتابی شکل میں”مقدمہ ابنِ خلدون“ کے نام سے سامنے آیا اور اِس کا اُردو ترجمہ بھی نفیس اکیڈمی کراچی نے شائع کیا۔ یہاں ابنِ خلدون کے تحقیقی کارناموں کا جائزہ ”تاریخ ابنِ خلدون“ کے عمومی تناظر اور”مقدمہ ابنِ خلدون“ کے خصوصی تناظر میں پیش کیا جائے گا۔
”تاریخ ابنِ خلدون“ جلداول کا موضوع تاریخ قبل از اسلام سے شروع ہوتاہے جس میں تاریخ الانبیاء کے تناظر میں مختلف حالات و انساب بیان کیے گئے ہیں۔

پہلے حصے میں ابنِ خلدون نے آغاز سے حضرت عیسیٰ کے بعد چھٹی صدی عیسویں کے حالات و واقعات استناد کے ساتھ پیش کیے ہیں۔ دوسرے حصے میں اُنھوں نے حضرت عیسیٰ  سے لے کر حضرت محمد کی ولادت تک چھ سو سال کے حالات و واقعات اور افکار و عقائد کی تفصیل بیان کی ہے۔ دوسری جلد کے پہلے حصے میں حضرت محمد اور خلفائے راشدین کے ادوار کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے 40ھ تک مسلمانوں کے کارنامے، واقعات اور حالات کو پیش کیا گیا ہے۔

دوسرے حصے کا موضوع خلافتِ معاویہ و آلِ مروان ہے جس میں 41ھ میں ہونے والی حضرت حسن کی صلح اور حضرت امیرِ معاویہ کی خلافتِ عامہ سے لے کر 132ھ تک کے مسلم دورِ حکمرانی کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔ تیسری اور چوتھی جلد کا موضوع خلافتِ بنو عباس ہے جس میں خلافتِ عباسیہ کے بانی المنصور السفاح سے لے کر مسلم سلطنت کے نئے دارالخلافہ بغداد کی تعمیر، پھر ابو مسلم خراسانی کی سرکشی، ہارون الرشید کے بیٹوں امین الرشید اور مامون الرشید کی کشمش سے ہوتے ہوئے مکتفی بااللہ تک کے ادوار کے حالات و واقعات کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔


 پانچویں جلد کا موضوع امیرانِ اندلس اور خلفائے مصر ہے جس میں عبدالرحمٰن الداخل سے لے کر اندلس کے زوال کی تفصیل، مشرقی خلافت کے اندر فرقہ وارانہ معاملات کا احوال، ترکوں کی یلغار اور فاطمیوں کے عروج و زوال کی تاریخ بیان کی گئی ہے۔ چھٹی جلد میں غزنوی اور غوری سلاطین کو موضوع بنایا گیا ہے جس میں سلطان محمود غزنوی اور سلطان شہاب الدین غوری کی فتوحات کا احوال و منظر نامہ پیش کیا گیا ہے۔

ساتویں جلد کا موضوع سلجوقی و خوارزم شاہی سلاطین اور فتن? تاتار ہے جس میں سلجوقی اور خوارزم شاہی خاندانوں کے حالات، خانہ جنگی، عیسائیوں کے ساتھ مقابلہ، ترکوں کی یورش، چنگیز خان کا خروج، تاتاریوں کا فتنہ اور سلطنتِ اسلامیہ کی بربادی کا عبرت ناک احوال پیش کیا گیا ہے۔ آٹھویں جلد میں خاندانِ زنگی و ایوبی سلاطین اور تاتاریوں کے زوال کے حالات و واقعات بیان کیے گئے ہیں۔


نویں جلد کا موضوع سلاطین ممالیک بحریہ کی مفصل تاریخ (648ھ تا 778ھ) ہے جس میں ممالیک بحریہ کی مصر و شام پر متحدہ سلطنت کا احوال، مصر میں اسلامی خلافت کا دوبارہ قیام، تاتاریوں کی شکست، صلیبی جنگوں کا خاتمہ اور سقوطِ بغداد کے بعد دوبارہ مسلمانوں کا عروج جیسے حالات و واقعات کی تفصیل پیش کی گئی ہے۔ دسویں جلد اُسی دور کی اُن مغل سلطنتوں کا احوال بیان کرتی ہے جو مسلمان ہو گئی تھیں جنھوں نے ایران، ترکستان، عراق اور بلادالروم میں جداگانہ سلطنتیں قائم کی تھیں۔

گیارھویں جلد میں 350ھ سے لے کر 800ھ تک دنیائے عرب میں پائے جانے والے مختلف قبائل اور اُن کی حکومتوں کو موضوع بنایا گیا ہے جس میں شمالی افریقہ کے بربر قبائل اور اُن کے حکمرانوں کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ بارھویں اور آخری جلد میں ابنِ خلدون نے اہلِ عرب کے ایسے قبائل کے سربراہوں اور اُن کی حکومتوں کے حالات بیان کیے گئے ہیں جنھیں دیگر مؤرخین نے اپنی تاریخی کتب میں بہت کم جگہ دی ہے۔


ابنِ خلدون نے اپنی تاریخ کا نہایت جامع اور مبسوط مقدمہ 1377ء میں تحریر کیا جس کا اُردو ترجمہ”مقدمہ ابنِ خلدون“ کے نام سے دو جلدوں میں نفیس اکیڈمی، کراچی نے شائع کیا۔ اِس مقدمے نے اِس قدر مقبولیت حاصل کی کہ یہ خود باضابطہ ایک کتاب کی شکل اختیار کر گیا۔ ابنِ خلدون اپنے اِس تحقیقی کارنامے میں علمِ عمرانیات کی بنیاد رکھتے ہیں۔ اُن کے عمرانیات پر کیے گئے اولین کام کو خلدونیات کے نام سے بھی یاد کیاجاتا ہے۔

اُنھوں نے اِس مقدمے میں عمرانیات، معاشیات، سیاسیات، فلسفہ، تاریخ، تعلیم و تدریس، جغرافیہ، سائنس اور آبادی سے متعلق مباحث پر مدلل انداز سے گفتگو کی ہے۔ ابنِ خلدون کا اہم کارنامہ یہ ہے کہ اُنھوں نے تاریخ کو سائنسی بنیادوں پر نہ صرف استوار کیا بلکہ اُسے آزاد سائنس کی حیثیت عطا کی۔ تاریخ بطور سائنس ماضی کے واقعات کو نہ صرف محفوظ کرتی ہے بلکہ سچ اور جھوٹ کو جانچنے کے لیے اُصول بھی فراہم کرتی ہے۔

وہ اِنسانی سماج کا مختلف ادوار میں اِس انداز سے مطالعہ و تجزیہ کرتے ہیں کہ قبائلی اور خانہ بدوشی زندگی سے ہوتے ہوئے متمدن سماج کا احاطہ کرتے ہیں۔ وہ مختلف اقوام کے عروج و زوال کا اِس طرح نقشہ کھنچتے ہیں اُن کی ترقی اور تنزلی کے اسباب نمایاں ہو جاتے ہیں۔”مقدمہ ابنِ خلدون“ کو خصوصی طور پر مدنظر رکھتے ہوئے یہاں اُن کے مختلف تحقیقی کارناموں اورمخصوص نظریات کا مختصر جائزہ پیش کیا جائے گا۔(جاری ہے)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :