ڈاکٹر غلام مصطفی خاں۔ایک عظیم استاد، محقق اور ماہرِ لسانیات

ہفتہ 22 مئی 2021

Muhammad Usman Butt

محمد عثمان بٹ

پاکستان میں طالب علم سکول کی سطح پر اُردو کی درسی کتاب میں ”نظریہ پاکستان “ کے عنوان سے ایک سبق پڑھتے ہیں جس میں نظریہ پاکستان کی بنیاد کو موٴثر انداز سے پیش کیا گیا ہے۔ اِس سبق کے مصنف اُردو کے عظیم استاد، محقق، نقاد،مدون، اقبال شناس،مورخ، ماہرِ تعلیم،لغت نویس اور ماہرِلسانیات غلام مصطفی خاں 23 ستمبر1912ء کو جبل پور، ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔

اُن کا تعلق روحانی سلسلہ نقشبندیہ سے تھا۔اُنھوں نے پرائمری کا امتحان پرائمری سکول، کھٹک محلہ، جبل پور سے1923ء میں پاس کیا۔ 1929ء میں اُنھوں نے میٹرک کا امتحان مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے پاس کیا اور وہیں سے 1931ء میں ایف اے،1933ء میں بی اے اور1935ء میں ایم اے فارسی کے امتحانات پاس کیے۔ 1936ء میں اُنھوں نے ایم اے اُردو اور ایل ایل بی کے امتحانات پاس کیے۔

(جاری ہے)

اُنھوں نے 1947ء میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اوراُن کے تحقیقی مقالے کا عنوان فارسی شاعر ”سید حسن غزنوی“ تھا۔ ”فارسی پر اُردو کا اثر“، ”حالی کا ذہنی ارتقا“اور ”علمی نقوش“ جیسے بلند پایہ مقالات تحریر کرنے پر اُنھیں ناگ پور یونیورسٹی نے 1959ء میں ڈی لٹ کی سند عطا کی ۔اُن کے نمایاں اساتذہ میں ضیاء الدین الہٰ آبادی، ضیا احمد بدایونی، مولانا احسن مارہروی، مولانا سلیمان اشرف، ڈاکٹر عبدالستار صدیقی، نواب صدر یار جنگ اور مولانا حبیب الرحمن شروانی جیسی بلند پایہ شخصیات شامل ہیں۔


اُنھوں نے اپنی ملازمت کا آغاز کنگ ایڈورڈ کالج، امراوٴتی، برار سے اُردو کے استاد کی حیثیت سے 1937ء میں کیا۔ چند سال وہاں درس و تدریس سے منسلک رہنے کے بعد اُنھیں ناگ پور یونیورسٹی میں صدر شعبہٴ اُردو کی حیثیت سے تعینات کردیا گیا۔قیامِ پاکستان کے بعد5 نومبر 1947ء کو وہ بمبئی سے کراچی پہنچے اور دو ماہ کے مختصر قیام کے بعد ہندوستان واپس چلے گئے۔

22 جنوری 1948ء کو وہ مستقل طور پر پاکستان ہجرت کر آئے اور کراچی منتقل ہوئے۔ 1948ء سے 1950ء تک دو سال کا عرصہ اُنھوں نے اسلامیہ سائنس کالج، کراچی میں اُردو کے استاد کی حیثیت سے گزارا۔ 1950ء میں وہ بابائے اُردو کے قائم کردہ اُردو کالج ، کراچی میں صدر شعبہٴ اُردو کی حیثیت سے تعینات ہوئے جہاں اُنھوں نے چھ سال تک خدمات سرانجام دیں۔ 1956ء میں اُنھوں نے جامعہ کراچی میں چند ماہ ایم اے اُردو کی کلاسز کو پڑھایا۔

اِسی سال اُنھوں نے سندھ یونیورسٹی، حیدرآباد میں صدر شعبہٴ اُردو کی حیثیت سے تدریسی و انتظامی خدمات سرانجام دینا شروع کیں جہاں اُنھوں نے بیس سال تک خدمات سرانجام دیں۔ 1972ء میں ساٹھ برس کی عمر میں اُنھیں ریٹائرمنٹ کی بجائے اُن کی مدت ملازمت میں چار سال کی توسیع کر دی گئی۔ 1976ء میں وہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعد اُنھیں پروفیسر ایمریطس کے مرتبہ پر فائز کردیا گیا۔

اُن کی علمی و ادبی خدمات کے باعث اُنھیں نقوش ایوارڈ، اقبال ایوارڈ، نشانِ سپاس اور ستارہٴ امتیاز جیسے اعزازات سے نوازا گیا۔اُنھوں نے 25 ستمبر 2005ء کو حیدرآباد میں وفات پائی۔
اُن کی نمایاں تصانیف میں ”سید حسن غزنوی“ (1947ء)، ”فارسی پر اُردو کا اثر“ (1952ء)، ”حالی کا ذہنی ارتقا“ (1956ء)، ”علمی نقوش“ (1957ء)، ”ادبی جائزے (مجموعہٴ مضامین)“(1959ء)، ”سندھی اُردو لغت“ (1959ء)، ”اُردو سندھی لغت“ (1960ء)، ”تحریر و تقریر (تنقیدی مضامین کا مجموعہ)“ (1962ء)، ”تحقیقی جائزے (تحقیقی مضامین کا مجموعہ)“ (1968ء)، ”جامع القواعد(حصہ نحو)“ (1972ء)، ”نداے سحر (ریڈیائی تقریریں)“ (1972ء)، ”اقبال اور قرآن“ (1977ء)، ”معارف اقبال“ (1978ء)، ”ہمارا علم و ادب“ (1985ء)، ”ثقافتی اُردو“ (1989ء)، ” ہفت محفل(سات مضامین)“ (1992ء)، ”میرا علی گڑھ“ (1994ء)، ”بھولی ہوئی کہانیاں“ (1995ء) اور ”مکاتیبِ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں (حصہ اول اور دوم)“ (1997ء) شامل ہیں۔

اُن کے نمایاں شاگردوں میں ابن انشا، ڈاکٹر جمیل جالبی،ڈاکٹر ابواللیث صدیقی،ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، ڈاکٹر سید معین الرحمن ، ڈاکٹر وفا راشدی، ڈاکٹر مسرور احمد زئی اور ڈاکٹر معین الدین عقیل جیسے قد آور نام شامل ہیں۔
ڈاکٹر غلام مصطفی خاں نے اُردو اور فارسی کے لسانی روابط پر روشنی ڈالی اور ایسے فارسی الفاظ کے ذخیرے کی طرف توجہ دلائی جو اُردو سے فارسی زبان میں منتقل ہوئے۔

اُردو کو وہ آریائی زبان قرار دیتے ہیں اور اُردو قواعد کی بنیاد اُن کے نزدیک بھاشا اور ہندی پر استوار ہے۔ اُنھوں نے آریائی زبانوں کے الفاظ کا سامی زبانوں کے الفاظ کے ساتھ موازنہ بھی پیش کیا ہے اور اُن کا خیال ہے کہ آریائی زبانوں میں الفاظ کی تعداد سامی زبانوں میں الفاظ کی تعداد سے چھ گنا زیادہ ہے۔ تجوید اور قرآت کے فن سے شناسائی کو وہ ایک ماہرِ لسانیات کے لیے نہایت ضروری خیال کرتے ہیں۔

اُن کے نزدیک کسی زبان کے مطالعہ کے لیے اہلِ زبان کی تہذیب و ثقافت ، جغرافیائی حدوداور ماحول نہایت اہمیت کے حامل ہیں جو اُس زبان کی تشکیل ، نشوونما اور ترقی کے لیے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔اپنے ایک مختصر مگر نہایت جامع مضمون ”ہمارا تلفظ (جائزہ)“میں اُنھوں نے اُردو کے درست تلفظ کو رائج کرنے کی طرف بھرپور توجہ دلائی ہے۔”سندھی اُردو لغت“ اور” اُردو سندھی لغت“کی تیاری میں اُردو حصہ ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کو تفویض ہوا جبکہ سندھی حصہ ڈاکٹر نبی بخش خاں بلوچ نے معاون کی حیثیت سے مکمل کیا۔

”سندھی اُردو لغت“ میں تئیس ہزار چھ سو پینتیس (23635)الفاظ شامل ہیں جبکہ ”اُردو سندھی لغت“ میں انیس ہزار چھ سو ساٹھ (19660)الفاظ شامل ہیں۔ اُردو ڈکشنری بورڈ (اُردو لغت بورڈ) کی لغت کے مسودے کی تیاری میں بھی ڈاکٹر غلام مصطفی خاں نے نمایاں کردار ادا کیا۔
 ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے اپنے استادڈاکٹر غلام مصطفی خاں کے نظرِ ثانی شدہ مسودوں کی تین خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔

پہلی خصوصیت یہ کہ وہ شعوری طور پر ہر قسم کے اطناب سے بچتے ہیں اور اپنے اظہارِ خیال میں حد درجہ اختصار سے کام لیتے ہیں۔ کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ باتیں کہہ دینا اور کم سے کم جگہ میں زیادہ زیادہ سے زیادہ باتیں لکھ دینا اُنھی کا خاصہ ہے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ہندی، انگریزی، عربی اور فارسی کے عالم ہونے کے باوصف اُن کی تحریروں میں کہیں کوئی ادعا یا نمائشِ علم کا شائبہ نظر نہیں آتا۔

نہ تو اپنی کسی بات کو منوانے کی کوشش ہوتی ہے نہ اپنی کسی رائے یا مشورے کو قبول کر لینے پر اصرار ہوتا ہے۔ وہ اپنی کسی رائے کو آخری رائے نہیں سمجھتے بلکہ خوش دلی کے ساتھ ترمیم و تنسیخ کی اجازت دے دیتے ہیں۔ تیسری نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ وہ جس بات کو غلط یا خام و ناقص جانتے ہیں اُسے قلم زد کر کے آگے نہیں برھ جاتے بلکہ اُس کی صحیح صورت اور متبادل بھی فراہم کر دیتے ہیں۔

اپنے ایک مضمون ”اُردو پر عام اعتراضات“ کے تناظر میں بات کرتے ہوئے ڈاکٹر غلام مصطفی خاں نے اُردو پر لگائے جانے والے مختلف اعتراضات کو نہ صرف بیان کیا ہے بلکہ اُن میں سے ہر ایک کا دلائل سے مناسب جواب بھی پیش کیا ہے جو اُن کی ذہانت اور علمِ زبان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ”جامع القواعد (حصہ نحو)“ کے نمایاں مباحث میں جملے کی ساخت، مسند الیہ ہونے والے کلمات، مسند، مفعولی اور تکمیلی کلمات، صفت، حروف اور اُن کا استعمال، عطف، املا ور علاماتِ وقف، اور مستثنیاتِ نحو شامل ہیں۔

اُنھوں نے نہ صرف اُردو زبان بلکہ عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں بھی کتابیں تحریر کیں اور اُن کی تصانیف و تالیفات کی تعداد سو سے زائد ہے ۔ اُردو کے طالب علموں کو ڈاکٹر غلام مصطفی خاں کے تحقیقی، ادبی اور لسانی سرمائے سے فیض یاب ہونے اور اُن کے کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :