ڈاکٹر خالد حسن قادری: Rough Notes on Urduکے تناظر میں

جمعرات 27 مئی 2021

Muhammad Usman Butt

محمد عثمان بٹ

خالد حسن قادری نے اُردو زبان کی پیدائش اور آغاز سے متعلق 2002ء میں ایک تصور پیش کیا جو پہلی دفعہ ”المعارف“ لاہور میں ''Rough Notes on Urdu''کے عنوان سے انگریزی زبان میں شائع ہوا۔ اُن کا یہی مضمون ”اخبارِ اُردو“، اسلام آباد کے شمارہ مارچ 2002ء میں شائع ہوا۔ اُن کے اِس مضمون کا اُردو ترجمہ ”اُردو کا آغاز اور مولد“کے عنوان سے عمر حمید ہاشمی نے کیا اور یہ پہلی دفعہ جون2003ء میں شعبہٴ تصنیف و تالیف و ترجمہ، جامعہ کراچی کے تحقیقی رسالہ ”جریدہ“شمارہ 21 (لسانیات نمبر) میں شائع ہوا۔

بعدازاں یہی اُردو ترجمہ ”اخبارِ اُردو“، اسلام آباد کے شمارہ ستمبر2003ء میں بھی شائع ہوا۔ اِس ترجمہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ خود خالد حسن قادری کا نظرِ ثانی شدہ ہے۔ یہی اُردو ترجمہ شدہ مضمون اُن کی مرتبہ لغت ”لفظیات“ میں بھی شامل ہے جو 2005ء میں شائع ہوئی۔

(جاری ہے)

چودہ صفحات پر مشتمل اُن کا یہ مختصر مضمون اُردو زبان کے آغاز کے حوالے سے ایک نئے تصور کو جنم دیتا ہے جس کی گونج اِس سے قبل عین الحق فریدکوٹی، ڈاکٹر سہیل بخاری اور شبیر علی کاظمی کے اُردو زبان کے تناظر میں پیش کردہ تصورات میں سنائی دیتی ہے۔

مگر خالد حسن قادری اپنے مضمون میں ماقبل تاریخ کے معاملات کو بھی شامل کرتے ہیں جسے اِس سے قبل کسی ماہر نے اپنے نظریے میں خصوصی طور سے پیش نہیں کیا۔
خالد حسن قادری،”داستانِ تاریخِ اُردو“ کے مصنف مولانا حامد حسن قادری کے صاحب زادے ہیں۔وہ اُردو کو آریائی زبان تسلیم نہیں کرتے اِس لیے اُن تمام نظریات کا رد کرتے ہیں جن کے مطابق اُردو ایک آریائی زبان ہے۔

وہ اُردو کو غیر آریائی زبان تصور کرتے ہیں جس کے لیے وہ ماقبل تاریخ کے دور سے اپنے تحقیقی مطالعہ کا آغاز کرتے ہیں۔ اِس ضمن میں اُنھوں نے اپنی بحث کا آغاز تین سوالات سے کیا ہے کہ ”آریائی قوم نے جب ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو اُس وقت ہندوستان کا لسانی نقشہ کیا تھا؟کیا وہ لوگ جو شمالی ہند کے اِس وسیع ، زرخیز اور تہذیب یافتہ علاقے میں رہتے تھے اور حملہ آور آریائی کے ساتھ جن کا واسطہ پڑا کیا وہ گویائی سے محروم تھے یا اُن کی کوئی زبان ہی نہ تھی؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر وہ کون سی زبان یا زبانیں تھیں جنھیں وہ استعمال کرتے تھے“؟آریائی لوگ جب ہندوستان میں داخل ہوئے تو وہاں پہلے سے غیر آریائی زبانیں موجود تھیں جس کی بدولت سنسکرت اور اُن مقامی غیر آریائی زبانوں میں میل جول ہوا۔

خالد حسن قادری آریائی لوگوں کی ہندوستان آمد کے وقت شمالی ہندوستان میں بولی جانے والی زبانوں کو دراوڑی الاصل خیال کرتے ہیں۔ مگر اِس ضمن میں اُنھوں نے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اوراُن کا یہ خیال محض تاریخی قیاس آرائی پر مبنی ہے۔ اُن کے خیال میں ماقبل تاریخ کے دور میں سنسکرت کم و بیش ایک ہزار سال تک محض اپنی تقریری حالت کی بدولت آگے منتقل ہوتی رہی اِسی باعث آغاز کے کئی وید تحریری شکل میں محفوظ نہ ہوسکے۔


آریاوٴں کی ہندوستان آمد کے حوالے سے تاریخ میں دو طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں۔ ایک گروہ کا خیال ہے کہ آریاوٴں نے ہندوستان داخل ہونے کے بعدمقامی آبادی کا قتلِ عام کیا اور اُن کا خاتمہ کر دیا جس سے مقامی زبانوں کے اثرات کا سنسکرت میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ آریائی لوگوں نے مقامی آبادی کا قتلِ عام تو کیا مگر اُنھوں نے تمام مقامی لوگوں کا خاتمہ نہیں کیا۔

جب مقامی آباد ی کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا تو لامحالہ طور پر مقامی زبانوں کے اثرات سنسکرت پر اور سنسکرت کے اثرات مقامی زبانوں پر ہونے ہی تھے۔ قادری صاحب کا تعلق دوسرے گروہ سے ہے۔ خالد حسن قادری کے نزدیک ”تمام علاقوں کی زبانیں سنسکرت سے متاثر تھیں اور چوں کہ ہر علاقہ کی ایک الگ زبان تھی، اِس لیے قدرتی طور پر کئی مختلف ’پراکرتیں‘ وجود میں آگئیں“۔

دراوڑی زبانوں کے گروہ کی شکل میں وہ اپ بھرنسا (اپ بھرنش) کو دیکھتے ہیں جسے اُنھوں نے سنسکرت سے علیحدہ گروہ میں شامل کیا ہے۔
آریاوٴں سے پہلے ہندوستان میں دراوڑ آباد تھے ۔ خالد حسن قادری کے خیال میں دراوڑی بھی ہندوستان میں حملہ آور کی حیثیت سے داخل ہوئے اور اُن سے پہلے ”منڈا“ قبائل آبادتھے۔ اُردو کی بنیاد کے لیے اُنھوں نے قدیم سندھ کی زبانوں کو اپنی بحث کا موضوع بنایا۔

اُن کا خیال ہے کہ اِن زبانوں پر آریاوٴں سے قبل دراوڑی اور اُس سے قبل منڈا گروہ کی زبانوں کے اثرات ملتے ہیں۔اُن کا استدلال کمزور ضرور ہے مگر دوسروں کو اِس نقطہ پر سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ منڈا گروہ تک پہنچ کر رُکے نہیں بلکہ اِس سے بھی قبل کے دور میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور منڈا قبائل کی نسل کو آسٹریلیائی باشندوں سے اخذ کرتے ہیں ۔

اُن باشندوں کی آمد کو وہ درہٴ خیبر کے ذریعے ہندوستان میں تعبیر کرتے ہیں۔ وہ سندھ کی زبانوں میں منڈا گروہ کی زبانوں کے لسانی اثرات بنا کسی ثبوت کے فراہم کرتے ہیں۔ تاریخی اعتبار سے اُنھوں نے منڈا قبائل کے وجود کو اولین حیثیت دی ہے جس کے لیے وہ موجودہ بھارت کے کچھ علاقوں ( آمڑی، نال، روپڑ، راجستھان اور کاٹھیا واڑ)کی کھدائی کے آثار کی مثال پیش کرتے ہیں ۔

منڈا قبائل کے بعد وہ دراوڑی قوم کو دوسرے نمبر پر رکھتے ہیں جس کے لیے اُنھوں نے موجودہ پاکستان کے کچھ علاقوں ( موئن جو دڑو اور ہڑپہ)کی کھدائی کے آثار کو بطور مثال پیش کیا ہے۔
خالد حسن قادری نے اُردو زبان کے حوالے سے اُن تمام نظریات کوباطل قرار دیا ہے جو اُردو کو آریائی زبان قرار دیتے ہیں۔اُن کے خیال میں اُردو اور ہندی کا تعلق آریائی زبانوں کے ساتھ نہیں ہے اور نہ ہی یہ دونوں زبانیں سنسکرت سے نکلی ہیں۔

اُردو اور ہندی قواعد اُن کے خیال میں پراکرتوں کے اثرات کے باعث نمایاں ہوئی جبکہ پراکرتوں نے سنسکرت سے ایسا کوئی اثر نہیں لیا۔ قبل از تاریخ کے ادوار میں وہ منڈا قبائل سے قبل بنی اسرائیل کے قبائل کا تذکرہ کرتے ہوئے افغانستان، ایران، بلوچستان اور قدیم سندھ کے علاقوں کی طرف اپنی قیاس آرائی کا رخ موڑ لیتے ہیں۔ وہ قدیم سندھ کی زبانوں میں دراوڑی اور منڈا گروہ کی زبانوں کا رنگ تلاش کرتے ہیں اور اِس تناظر میں اُنھوں نے موہن جو دڑو، ہڑپہ، نال، اور آمڑی تہذیبوں کو اہم قرار دیا ہے۔


بنی اسرائیل کے مذکورہ گم شدہ قبائل کو خالد حسن قادری نے موئن جو دڑو اور ہڑپہ کی گم شدہ تہذیب کے ساتھ ملا کر ایک اور قیاس آرائی کی ہے۔ اِس تعلق کی بنیاد پر اُنھوں نے مذکورہ تہذیبوں کی ابھی تک نہ سمجھ میں آنے والی زبان کو ’سامی الاصل‘ قرار دے کر اُسے’ قدیم عربی ‘کا نام دے دیا ہے۔ اُن کے خیال میں اُردو قواعد نے اپنی بنیادی ساخت پراکرت سے وضع کی، بالکل اُسی طرح دیگر ہندوستانی زبانوں نے بھی اپنی اپنی قواعد اپنی علاقائی پراکرت کی بدولت وضع کی۔

پراکرتیں عمومی اعتبار سے سنسکرت سے متاثر نہیں مگر پراکرت کی اعلی ترین شکل نے سنسکرت سے اثر قبول کیا اور اِس پراکرت کا اُردو اور ہندی سے کوئی تعلق نہیں۔ اُردو اور ہندی کا تعلق وہ اپ بھرنسا (اپ بھرنش) سے قائم کرتے ہیں اور پھر اُن کے نزدیک ”اُردو شورسینی اپ بھرنسا نے رفتہ رفتہ برج بھاشا کا نام اختیار کیا۔ دیگر اپ بھرنساوٴں مثلاً ’کئیکیا‘ (ہریانوی) اور پشاچی (سندھی، پنجابی اور دیگر) نے بھی اُردو پر اثر ڈالا اور یہی اثرات ہیں جنھیں تلاش کرنا ہمارا مقصد ہونا چاہیے“۔

اُنھوں نے لسانی استدلال سے زیادہ تاریخی استدلال سے کام لیا ہے جس میں قیاس آرائی سے اپنے نظریے کی عمارت بلند کی ہے۔ اُنھوں نے عین الحق فرید کوٹی، ڈاکٹر سہیل بخاری اور سید شبیر علی کاظمی کے اُردو کے حوالے سے لسانی تصورات کو قبل از تاریخی ادوار تک پھیلا کر ایک نئے انداز میں پیش کیا ہے جسے جدید سائنسی بنیادوں پر ثابت کرنا نہایت مشکل ہے۔اُن کے پیش کردہ تصور کے برعکس بہرحال اُردو ایک جدید ہند آریائی زبان ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :