ابنِ خلدون پر ایک نظر۔ آخری قسط

جمعہ 4 جون 2021

Muhammad Usman Butt

محمد عثمان بٹ

نظریہٴ معاشیات:
ابنِ خلدون کا شمار اُن مسلم مفکرین میں ہوتا ہے جنھیں مغربی معیشت دانوں نے بہت زیادہ اہمیت دی۔ 1957ء میں ریوبن لیوی کی کتاب The Social Structure of Islam کیمبرج یونیورسٹی نے شائع کی جس میں اُس نے ابنِ خلدون کو باباے جدید معاشیات قرار دیا۔ اُنھوں نے معاشیات کے میدان میں کئی تصورات و نظریات پیش کیے جن میں نظریہٴ پیدائش،قدر، دولت اور قیمت کے تعین کا نظریہ، نظریہٴ تقسیمِ دولت اور وسائل، اُجرتوں کا تعین، منافع اور ٹیکس کے تصورات، آبادی اور حکومتی خزانے کی گردش کے تصورات وغیرہ شامل ہیں۔

آدم سمتھ، ڈیوڈ ریکارڈو اور دیگر ماہرینِ معاشیات کے کارنامے تو بہت بعد کی باتیں ہیں۔ابنِ خلدون نے اُن مختلف مراحل پر بھی روشنی ڈالی جن سے ایک معاشرہ اپنی ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے گزرتا ہے۔

(جاری ہے)

ابنِ خلدون کے نزدیک وہ تمام اشیا معاش کہلاتی ہیں جن کے بنا اِنسان کے لیے اپنی زندگی کا برقرار رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ اِس حوالے سے اُنھوں نے چند ایک اصطلاحات کا استعمال کیا ہے جن میں رزق، تمول یا غنی اور کسب شامل ہیں۔

اِنسان اگر معاش سے خود فائدہ اٹھاتا ہے تو یہ رزق کہلاتا ہے۔ اگر اِنسان کے لیے معاش سے زائد دستیاب ہو تو اُسے تمول یا غنی کہتے ہیں جب کہ استعمال یا فائدہ حاصل نہ کرسکنے کی صورت میں اُسے کسب کہا جاتا ہے جو بنیادی طور پر ورثا کے لیے رزق ہوگا ۔ ابنِ خلدون رزق حاصل کرنے کے مندرجہ ذیل چھ مختلف طریقے بیان کرتے ہیں:
1) بادشاہ یا حکومت کا محصول اور خراج کے ذریعے سے رزق طلب کرنا۔

2) شکاریوں کا چرند پرند اور دیگر جانوروں کے شکار سے رزق حاصل کرنا۔ 3) پالتو جانوروں سے دودھ اور حشرات سے ریشم اور شہد وغیرہ کی صورت میں رزق حاصل کرنا۔ 4) کھیتی باڑی کے ذریعے سے سبزیوں اور پھلوں کی صورت میں رزق کا حصول۔ 5) صنعت و حرفت کی بدولت رزق حاصل کرنا۔ 6) تجارت اور ملازمت کے ذریعے رزق حاصل کرنا۔
عام طور پر دیہی علاقوں اور شہری علاقوں میں رزق حاصل کرنے کے ذرائع میں فرق پایا جاتا ہے۔

دیہاتوں میں عموماً زراعت اور شہروں میں بالعموم صنعت و تجارت اور ملازمت کو ذریعہ معاش کے طور پر اپنایا جاتا ہے۔ ابنِ خلدون معاش کے اُن ذرائع کو اختیار کرنے اور اُن سے رزق حاصل کرنے کے سلسلے میں اعلیٰ اخلاقی اقدار پر عمل پیرا ہونے کی بات کرتے ہیں۔ وہ ریاستی جبر اور اُس کی بے جا مداخلت کے خلاف ہیں اور نجی جائیداد کے قائل ہیں۔ اُن کے نزدیک سیاست کا تعلق معاشیات کے ساتھ نہایت گہرا ہوتا ہے اور مضبوط معیشت کے بغیر مضبوط ریاست کا وجود ممکن نہیں۔

ابنِ خلدون حکومت کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ آمدنی اور اخراجات کا متوازن میزانیہ مرتب کرے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ گرانی نہ ہونے دے اور نہ ہی دولت کا ارتکاز چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جائے۔
جہاں تک قیمت یا اُجرت کے تعین کا معاملہ ہے تو ابنِ خلدون اِس ضمن میں محنت کو بنیادی عنصر قرار دیتا ہے۔ اُنھوں نے قیمت کو تین مختلف عناصر کا مجموعہ قرار دیا ہے جن میں اُجرت، منافع اور ٹیکس شامل ہیں۔

کارل مارکس نے تو ابنِ خلدون کے بہت بعد محنت کو اُجرت کا معیار قرار دیا تھا۔ کسی شے کی قدر کا تعین اُن کے نزدیک اُس پر صرف کی جانے والی محنت کے ساتھ براہِ راست تعلق کے نتیجہ میں سامنے آتاہے۔ مالیاتی معیار کے طور پر وہ سونے اور چاندی کے استعمال کی بات کرتے ہیں۔ قیمت کے تعین کے حوالے وہ معتدل قیمت کا ایسا تصور بھی پیش کرتے ہیں جو بیک وقت صارف اور پیداکنندہ دونوں کے لیے قابلِ قبول ہوتی ہے۔

یعنی قیمت کی یہ سطح صارف کو اپنے لیے بوجھ محسوس نہیں ہوتی اور نہ ہی پیدا کنندہ کے لیے کسی نقصان کا باعث بنتی ہے۔ قیمت کی اِسی سطح کو وہ منڈی کی قیمت قرار دیتے ہیں۔ جہاں تک غریب اور مستحق لوگوں کے لیے قیمت کے تعین کا معاملہ ہے تو اُن کے لیے ابنِ خلدون مراعات یافتہ قیمت کی بات کرتے ہیں جو لازمی طور پر منڈی کی سطح سے بہت کم ہوتی ہے۔
 نظریہٴ تضاد:
شہری زندگی اور بدوی زندگی میں خاصا فرق پایا جاتا ہے جس کی طرف ابنِ خلدون نے بھی اشارہ کیا ہے۔

وہ اِن دونوں قسم کی زندگیوں کو ایک دوسرے کے متضاد قرار دیتے ہیں جو اُن کے پیش کردہ نظریہٴ تضاد کی بنیاد ہے۔ رہن سہن، مزاج، رسم و رواج ، تہذیب و ثقافت اور روایات کے اعتبار سے مذکورہ ہر دو قسم کے گروہوں میں بہت زیادہ فرق موجود ہے۔ ابنِ خلدون کے مطابق بدووٴں کی طاقت میں اُس وقت کمی واقع ہونا شروع ہوجاتی ہے جب وہ شہری علاقے فتح کرکے وہاں رہائش اختیار کرلیتے ہیں۔


نظریہٴ مابعد الطبیعیات:
ابنِ خلدون اِس بات کے قائل تھے کہ مابعد الطبیعیات ناممکنات میں سے ہے کیوں کہ اِنسان کا علم ناقص، محدود اور تجرباتی ہے۔ ارتقائی تصورات کی روشنی میں اُن کا خیال ہے کہ اِنسان سے آگے ارتقا کا عمل کسی اعلیٰ تر مخلوق کے موجود ہونے کی صورت میں ممکن ہے جو ہمارے احاطہٴ ادراک سے باہر ہے۔

اُن کے نزدیک ادراک سے استدلال کی جانب قدم عقل کی بدولت ہی بڑھائے جاسکتے ہیں۔ اِسی عقل کے باعث علت و معلول کے رشتوں کی بازیافت ہوتی ہے اور اشیا کو مربوط انداز سے سامنے لایا جاتا ہے۔ اُن کا ماننا تھا کہ حقائق چوں کہ لامحدود ہوتے ہیں اور عقل محدود ہوتی ہے، لہٰذا یہ کیسے ممکن ہے کہ محدود جو ہے، وہ لامحدود کا احاطہ کرنے میں مکمل کامیاب ہو پائے۔

افلاطون اور ارسطو کا سحر جو فلسفے پر طاری تھا، ابنِ خلدون وہ پہلا مسلمان فلسفی تھا جس نے فلسفے کو اُس سحر سے نکالنے کی کامیاب کوشش کی۔یونانی فکر کے برعکس اُنھوں نے فلسفیانہ کاوشوں کو عبث اور لاحاصل قرار دیا۔ وہ فلسفہ اور مذہب کے مابین مطابقت کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ اُن کا ماننا ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ فلسفہ کے تحت پیش کردہ تصورات مستقل بالذات نہیں ہوتے بلکہ اُن میں مختلف زمانوں میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں۔


جدید سائنسی عمرانیات کے بانی ابنِ خلدون کی بنیادی وجہٴ شہرت اُن کے اپنی معروف تاریخ پر لکھے گئے ”مقدمہ ابنِ خلدون“ کی تاریخی، تحقیقی اور تنقیدی اہمیت کا پیش خیمہ ہے۔ مقدمے کی اہمیت کو آرنلڈ، جے ٹائن بی، جارج سارٹن، رابرٹ فلنٹ، ہیرن شا اور ساردکن سمیت کئی نامور مغربی مفکرین نے تسلیم کیا۔ابنِ خلدون کے تحقیقی کارناموں کا تذکرہ نہایت وسیع ہے۔

معاشی حوالے سے بات کرتے ہوئے وہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ذریعہٴ معاش اِنسانوں کو مختلف طبقوں میں بانٹ دیتا ہے۔ علمِ جغرافیہ کے تناظر میں اُنھوں نے سائنسی بنیادوں پر گفتگو کی ہے کہ دنیا کی آبادی سات اقلیموں پر مشتمل ہے اور ہر اقلیم مغرب سے مشرق تک دس حصوں میں منقسم ہے جن میں آبادی کے حالات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اِنسانی کردار کے تغیرو تبدل میں اُن کے نزدیک جغرافیائی، مذہبی اور اقتصادی عوامل کارفرما ہوتے ہیں جن کے اثرات سے مفر ممکن نہیں۔

ابنِ خلدون کا خاصہ یہ ہے کہ اُنھوں نے اپنے مقدمے میں عمرانیات، تاریخ، اجتماعیات، معاشیات، سیاسیات، فلسفہ اور جغرافیہ وغیرہ کے مسائل پر نہایت مدلل انداز سے روشنی ڈالی اور اِسی بدولت اُن کے بعد آنے والے مؤرخین اور فلسفیوں نے اُن کے تحقیقی کام کو بطور سند استعمال کیا۔ابنِ خلدون نے فلسفے پر بہت زیادہ تنقید کی جس کی وجہ سے اُنھیں بحیثیت فلسفی بہت زیادہ اہمیت نہیں دی گئی مگر پھر بھی فلسفے کی تاریخ اُن کا تذکرہ کیے بنا ادھوری رہتی ہے۔ بہرحال فلسفہٴ تاریخ اور عمرانیات کے حوالے سے اُن کا نام اور کام دونوں امر ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :