ابنِ خلدون پر ایک نظر۔ قسط نمبر 2

پیر 31 مئی 2021

Muhammad Usman Butt

محمد عثمان بٹ

ابنِ خلدون کے مقدمے اور اُن کی تاریخ میں کئی ایک تصورات و نظریات ملتے ہیں جن میں نظریہٴ تاریخ، نظریہٴ عمرانیات، نظریہٴ ریاست، نظریہٴ عصبیت، نظریہٴ سیاست، نظریہٴ تعلیم، نظریہٴ خلافت، نظریہٴ ماحول، تصورِ جغرافیہ، تصورِ قانون، تصورِ علوم، نظریہٴ معاشیات اور نظریہٴ تضاد وغیرہ نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔
نظریہٴ تاریخ:
مؤرخین عموماً حالات و واقعات کو اپنے مخصوص انداز سے پیش کرتے ہیں جس کے لیے وہ واقعات نگاری سے بھرپورکام لیتے ہیں مگر ابنِ خلدون کے نزدیک مؤرخ کا فرض ہے کہ وہ تاریخ کے واقعات بیان کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی غیر جانبدارانہ تحقیق کی بدولت اُن تمام عناصر اور اسباب کو بھی نمایاں کرے جو مختلف اقوام کے عروج و زوال کا باعث بنتے ہیں۔

(جاری ہے)

اُنھوں نے تاریخ نویسی کے فن میں فلسفہٴ تاریخ کو باضابطہ جگہ دی جس کے وہ بانی ہیں۔ سائنسی طریقہ کار کا استعمال عمل میں لاتے ہوئے حالات و واقعات کے پس منظر میں چھپے منطقی ربط کو سامنے لانے میں ابنِ خلدون کی تاریخ اور مقدمے کا کردار نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اُن کے نزدیک ماضی، حال اور مستقبل ایک ہی سلسلے کی مختلف کڑیاں ہیں۔ اگر ماضی اور حال پر نظر ٹھیک ہو تو مستقبل کے بارے میں مناسب پیش گوئی کرنا ممکن ہوتا ہے۔

وہ کسی ایک واقعے کو محض اُس کی انفرادی حیثیت میں دیکھنے کی بجائے علت و معلول (Cause & Effect)کے ایک طویل سلسلے میں پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
نظریہٴ عمرانیات:
ابنِ خلدون وہ پہلا مفکر تھا جس نے عمرانیات پر باضابطہ اور مستقل حیثیت سے اپنی تاریخ اور مقدمے میں بحث کی۔ اِس سے قبل یونانیوں کے ہاں عمرانیات کے چند بکھرے ہوئے امور کی طرف محض اشارہ ملتا تھا۔

عمرانیات کو مستقل مضمون قرار دیے بغیر ابنِ خلدون نے اِنسانی سماج کی بتدریج ترقی کے امور پر بحث و تمحیص کی۔ سماج میں ہونے والی تبدیلیاں اِسی بتدریج ترقی کا نتیجہ ہوتی ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے اُنھوں نے اِنسانی زندگی کے دو بنیادی سماجی اُصولوں کو واضح کیا جو عمرانیات کے بنیادی اُصول قرار دیے جا سکتے ہیں:
1) اِنسانی زندگی کا پہلا اُصول آپس میں مل جل کر رہنے کی صورت میں سامنے آتا ہے جس کی وجہ سے اُسے معاشرتی حیوان (Social Animal)بھی کہا جاتا ہے۔

اِس کی بنیادی وجہ ابنِ خلدون کے نزدیک وہ تمام اِنسانی ضروریات ہیں جنھیں پورا کرنے کے لیے اُسے دوسروں کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بصورت دیگر اِنسان کی زندگی مشکلات سے دوچار رہتی ہے۔
2) دوسرا اُصول اِنسان کی دفاعی ضروریات کی حیثیت سے سامنے آتا ہے۔ اِس ضمن میں اِنسان کو اجتماع کی اشد ضرورت درپیش رہتی ہے جسے ابنِ خلدون ”عمران“ کا نام دیتے ہیں۔

وہ اجتماع کو اِنسان کی عمرانی زندگی کی روح قرار دیتے ہیں۔
اجتماعی زندگی کے تناظر میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے ابنِ خلدون اِس کی تین ارتقائی صورتوں کا ذکر کرتے ہیں۔ 1) خانہ بدوشی۔ 2) قبائلی زندگی۔ 3) شہری زندگی۔
ابنِ خلدون نے طاقت ور اقوام کے زوال کے تین اسباب بیان کیے ہیں۔ 1) ضعف اشراف۔ 2) سپاہ کا تشدد۔ 3) عیش پسندی۔
نظریہٴ ریاست:
ریاست اور فرد کے مابین مماثلت قائم کرتے ہوئے ابنِ خلدون ریاست کے بچپن، جوانی اور بڑھاپے جیسے ارتقائی مراحل کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

ابنِ خلدون کے نزدیک حکومت اُسی قبیلے میں رہتی ہے جو سب سے زیادہ طاقت ور ہوتا ہے۔وہ ریاست کے قیام اور عروج و زوال کو ارتقائی حوالے سے بیان کرتے ہیں۔ ابنِ خلدون کا نظریہٴ ریاست بنیادی طور پر اُس کے نظریہٴ ارتقا کے ساتھ جڑا ہے یعنی ریاست عروج و زوال کے قانون کے تحت جب اپنا عروج حاصل کر لیتی ہے تو پھر وہ زوال کی طرف چل پڑتی ہے یا کوئی اور ریاست اُس پر حاکم بن جاتی ہے۔

یعنی وہ ریاست کے عروج و زوال کے چکر کو ارتقائی تناظر میں بیان کرتے ہیں۔ ریاست کے معاملات ایک مخصوص رفتار سے وقوع پذیر ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کسی بھی ریاست کو اپنے وسائل سے فائدہ اُٹھانے میں وقت درکار ہوتا ہے۔مقاصد کے اعتبار سے اُنھوں نے ریاست کی تین مختلف اقسام بیان کی ہیں۔ 1) ملوکیت پر مبنی عقلی ریاست۔ 2) مثالی یا تخیلات پر مبنی مدنی ریاست۔

3) دینی یا خلافت پر مبنی ریاست۔
ابنِ خلدون کے ریاستوں اور بڑے معاشروں کے تناظر میں تصورات پر بات کرتے ہوئے ہالینڈ کے معروف مستشرق دی بوئر (De Boer)خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ریاستوں اور بڑی سماجوں کی وہی حالت ہوتی ہے جو منفرد خاندانوں کی ہے۔ اُن کی تاریخ تین سے لے کر چھ نسلوں تک کے زمانہ حیات میں ختم ہو جاتی ہے۔ پہلی نسل خاندانی عظمت کی بنیاد کو استوار کرتی ہے۔

دوسری اور کبھی تیسری وغیرہ اُسے برقرار رکھتی ہے۔ آخری اُسے مسمار کر دیتی ہے۔ یہ ایک دائرہ ہے جس میں ہر تمدن گردش کرتا ہے۔
نظریہٴ عصبیت:
ابنِ خلدون ریاست کی توسیع کو قومی عصبیت کا نتیجہ گردانتے ہیں جو ایک زبردست قوت کے طور پر سامنے آتی ہے۔ یہاں سے استعماریت کے مختلف رجحانات نمایاں ہوتے ہیں جن کی بنیاد پر ابنِ خلدون کے ناقدین اُن کے تصوارت کو میکاولی کی بیان کردہ استعماریت کے ساتھ مماثلت قائم کرکے پیش کرتے ہیں جو فکری اعتبار سے قطعاً درست نہیں۔

میکاولی اپنی تحریروں میں صریحاً جبر اور دھوکے سے دوسرے ممالک پر قابض ہونے کا مشورہ دیتا نظر آتا ہے جبکہ ابنِ خلدون کے ہاں استعماریت کا یہ تصور کہیں نہیں ملتا۔
نظریہٴ سیاست:
ابنِ خلدون بنیادی طور پر اپنے تصورات میں جمہوری افکار کے قائل نظر آتے ہیں مگر اُن کے دور میں ملوکیت قائم ہونے کے باعث اُن کے مقدمے میں جمہوری اقدار کے حوالے سے کوئی واضح تصور نہیں پایا جاتا۔

ابنِ خلدون کے نظریہٴ سیاست کو واضح کرنے کے لیے مندرجہ ذیل چار شرائط پیش کی جاسکتی ہیں جو اُنھوں نے سربراہِ مملکت یا خلیفہ کے لیے لازمی قرار دیں:
1) سربراہِ مملکت کے لیے ضروری ہے کہ وہ صاحبِ علم و نظر ہو تاکہ مسائل کو نہ صرف کماحقہ سمجھ سکے بلکہ اجتہاد بھی کر سکے۔
2) وہ عادل اور انصاف پسند ہو یعنی بے جا سختی یا بے جا رعایت پر کاربند نہ ہو۔

اُصول و ضوابط پر عمل پیرا ہو اور دوسروں سے بھی اُن کی پابندی کروائے۔
3) وہ صاحبِ اقتدار و اختیار ہو تاکہ ریاست کا سیاسی و انتظامی نظم و نسق قائم رکھ سکے یہاں تک کہ اگر جنگ کا موقع آ جائے تو وہ خود شریک ہو سکے۔
4) اُس میں جسمانی و ذہنی اعتبار سے کوئی نقص موجود نہ ہو یعنی وہ جسمانی و ذہنی طور پر صحت مند ہو تاکہ وہ اپنے فرائض بہترین انداز سے ادا کر سکے۔


شہروں کی حالت میں ترتیب پیدا کرنے کا نام ابنِ خلدون کے نزدیک سیاست ہے۔ یہ ترتیب،’سماج کو کیسا ہونا چاہیے‘، کی بنیاد پر مسلسل کوشش کے نتیجے میں قائم ہوتی ہے۔ اِس ضمن میں اُنھوں نے تہذیب و ثقافت کے مختلف عناصر کو خصوصی اہمیت دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابنِ خلدون نے اخلاقی اُصولوں کو سیاسیات میں باضابطہ جگہ دی ہے۔(جاری ہے)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :