ابنِ خلدون پر ایک نظر۔ قسط نمبر 3

بدھ 2 جون 2021

Muhammad Usman Butt

محمد عثمان بٹ

ابنِ خلدون ایسے اُصولوں کا تعین اور اُن کی اصلاح کا تصور بھی پیش کرتے ہیں جن کی بنیاد پر معاشرے کے افراد کو ایسی سمت میں کھپایا جاسکے جس سے نہ صرف اپنی نسلوں کی افزائش ہو سکے بلکہ اُن کا تحفظ بھی ممکن ہو سکے۔ اِنسان، معاشرہ، ثقافت اور تاریخ آپس میں ایک چوکور قائم کرتے ہوئے قابلِ فہم حقائق کی سماجی صفات کو نمایاں کرتے ہیں جہاں سے سیاسی اور اخلاقی اُصولوں کو احسن انداز سے مرتب کیا جاتا ہے۔

سیاسی اور انتظامی نظم و نسق، ریاست کی مضبوطی کے لیے اولین شرط کی حیثیت رکھتا ہے جس کی روشنی میں افراد کو امن و امان کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی مکمل آزادی ہو۔
نظریہٴ تعلیم:
ابنِ خلدون تعلیم کے عمل کو فطرتِ انسانی کا سرچشمہ قرار دیتے ہوئے تعلیم کے حصول کو ہر فرد کے فطری تقاضے کے طور پر بیان کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

وہ علمِ معرفت کو بنیادی اور اصل علم سمجھتے ہیں جو حقیقتوں کو آشکار کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے۔

اِس ضمن میں وہ مادی یا دنیاوی علوم کے ساتھ ساتھ وجدان و الہام کی اعلیٰ صورتوں کی تلاش کے قائل بھی دکھائی دیتے ہیں جسے وہ عموماً چھٹی حس قرار دیتے ہیں۔ علوم کے حصول کے لیے وہ ظاہری حواس اور باطنی حواس پر مشتمل دو مختلف ذرائع کی بات کرتے ہیں۔ اُنھوں نے علوم کے تمام شعبوں کو مندرجہ ذیل دو حصوں میں تقسیم کیا ہے:
1) طبعی علوم: ایسے علوم جن کی بنیاد فکر پر قائم ہوتی ہے یعنی اِنسان اپنی ذہنی و فکری صلاحیتیں استعمال کر کے اِن میں مہارت حاصل کرتا ہے جیسا کہ فلسفہ، منطق، طب، طبیعیات، الٰہیات (سحرو طلسم، اصرارالحروف) اور تحالیم (موسیقی، ہئیت) وغیرہ۔


2) نقلی علوم: ایسے علوم جو کسی واضح ذریعے سے اِنسان تک پہنچتے ہیں جن کی بنیاد خصوصی طور پر نقل و روایت کے ساتھ جڑی ہوتی ہے جیسا کہ قرآت، تفسیر، حدیث، فقہ، لغت، آداب، تصوف اور تعبیر وغیرہ۔
ڈاکٹر عبدالخالق ابنِ خلدون کے نظریہٴ تعلیم کے حوالے سے خیال ظاہر کرتے ہیں کہ ابنِ خلدون کا خیال تھا کہ ایک عالم کو جب تک کسی علم کی بنیادوں اور اُس کے قواعد کا پورا پورا احاطہ حاصل نہ ہوجائے اور اُس کے جملہ مسائل سے واقفیت حاصل کر کے وہ اُصول سے فروع نکالنے کا ملکہ پیدا نہ کر لے اُسے اُس علم کا ماہر شمار نہیں کیا جا سکتا۔


ابنِ خلدون کے نزدیک بہترین طریقہٴ تدریس وہ ہے جس کے ذریعے مختلف علوم کو آہستہ آہستہ درجہ بدرجہ طلبا میں منتقل کیا جاتا ہے اور تعلیم و تدریس کے دوران وقفے طویل ہونے کی جائے مناسب ہونے ضروری ہیں تاکہ تعلیم کا تسلسل قائم رکھا جاسکے۔
نظریہٴ خلافت:
اِنسانی معاشروں کے لیے آئین اور قانون ی موجودگی اور اُن کی عمل داری نہایت ضروری ہے۔

ابنِ خلدون کے خیال میں یہ قوانین اگر سیاسی اکابرین وضع کریں تو اِسے عقلی سیاست کہتے ہیں جب کہ یہی قوانین اگر اللہ تعالیٰ کی وحی کی روشنی میں ترتیب دیے جائیں تو اُسے شریعت یا دینی سیاست کہتے ہیں۔ اُس کے نزدیک دین، احکامِ شریعت کے متوازی سیاست بھی سکھاتا ہے۔ خلافت، ابنِ خلدون کے نزدیک انبیاء کرام  کی جاں نشینی کا نام ہے۔ خلافت و امامت اور سیاست و شریعت کی وضاحت کے سلسلے میں اُنھوں نے مندرجہ ذیل تین مختلف حکومتی اقسام کا ذکر کیا ہے:
1) طبعی حکومت: عوام کو اغراض و مقاصد کے تقاضوں پر ابھارنا۔


2) سیاسی حکومت: عقلی نقطہٴ نظر سے دنیاوی فائدے حاصل کرنا اور نقصانات سے بچنے کی ترغیب دینا۔
3) خلافت: شرعی نقطہٴ نظر سے دینی اور دنیاوی فلاح و بہبود کی جانب رہنمائی کرنا۔
دین کی حفاظت اور دنیا کی سیاست کے لیے صاحبِ شریعت کی جاں نشینی بنیادی طورپر ابنِ خلدون کے نزدیک خلافت اور امامت ہے۔ اُنھوں نے منصبِ امامت کی چار شرائط درج کی ہیں جن میں علم، عدالت، کفایت اور سلامتی حواس و اعضاشامل ہیں۔

ابنِ خلدون کے ہاں مثالی ریاست حضرت محمدﷺ اور خلفائے راشدین کے ادوار کی ریاست ہے ۔ اُنھوں نے خلافت سے ملوکیت کی جانب سفر کی تعبیر سیاسی مصلحت کی بنیاد پر کی ہے۔ بہرحال قرونِ اولیٰ کے مثالی دور کو سامنے رکھتے ہوئے اُنھوں نے بادشاہوں کو اخلاقی اقدار کے فروغ کی جانب توجہ دلائی ہے۔
نظریہٴ ماحول:
جسمانی اور ذہنی ترقی کے لیے ماحول کا کردار خاصا اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

ابنِ خلدون کے مطابق آب و ہوا اور موسم کے اعتبار سے معتدل علاقے، شدید موسمی علاقوں کی نسبت زیادہ آباد ہوتے ہیں۔ ایسے معتدل علاقے قدرتی وسائل سے لبریز ہوتے ہیں اور اُنھی علاقوں پیغمبر مبعوث ہوئے۔ ابنِ خلدون نے اپنے پیش کردہ نظریہٴ ماحول کی مدد سے دنیا کے مختلف ریاستوں کے مابین ماحولیاتی بنیاد پر فرق کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔
تصورِ جغرافیہ:
 ابنِ خلدون کے ہاں جغرافیے کا جو تصور ملتا ہے وہ سائنسی بنیادوں پر استوار ہے۔

اُن کے خیال میں زمین کا نصف حصہ کھلا ہوا ہے اور پانی نے زمین کو چاروں طرف سے گھیرا ہوا ہے۔ زمین کا ویران حصہ اُس کے آباد حصے سے زیادہ ہے۔ دنیا کی آبادی سات اقالیم (براعظموں) میں منقسم ہے اور ہر اقلیم کے دس دس حصے ہیں جن میں آبادی کے حالات ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ جغرافیائی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو شمال میں انتہائی سردی اور جنوب میں انتہائی گرمی ہوتی ہے۔

مشرق کے مغرب کی جانب درمیانی حصہ معتدل ہے جہاں رہنے والے لوگ بھی عموماً معتدل مزاج ہوتے ہیں۔ گرم اقلیموں کے باشندے ابنِ خلدون کے نزدیک نیم وحشی ہوتے ہیں۔
تصورِ قانون:
اِنسانی معاشرے کے لیے لازم ہے کہ وہ کسی نہ کسی قانون کا پابند ہو اور یہ قانون وقت کا حاکم ہی نافذ کرتا ہے۔ ابنِ خلدون کے مطابق یہ قانون شرعی بھی ہوسکتا ہے اور اِنسانوں کا بنایا ہوا بھی ہوسکتا ہے۔

شرعی قانون دین اور دنیا سے وابستہ ہوتا ہے جس کا بنیادی تعلق آخرت کی فلاح سے ہوتا ہے۔ دوسری طرف مادی فلاح کے حصول کی غرض سے عقلی سیاست کے زیرِ انتطام اِنسان قانون سازی کرتے ہیں جس کا محور دنیاوی فلاح و بہبود کا عنصر ہے۔ ابنِ خلدون نے حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور جعفری فقہوں پر مبنی پانچ مکاتبِ فکر کا ذکر کیا ہے جو قانون سازی کے لیے بنیاد بنائے جاتے ہیں۔


تصورِ علوم:
ابنِ خلدون کے ہاں تمدن اور علوم کا سیکھنا طبعی ہے۔ وہ علم کو ایک صفت قرار دیتے ہیں۔ وہ حصولِ علم کے حوالے سے سفر کو اہمیت دیتے ہیں۔ مختلف علوم میں اُنھوں نے علمِ کلام، علمِ تصوف، علمِ تعبیر الرویا، علمِ ہئیت، علمِ منطق، علمِ طبیعیات، علمِ طب، علمِ کیمیا، علمِ اعداد، علمِ ہندسہ اور الجبراوغیرہ پر بات کی ہے۔ابنِ خلدون نے توہم پرستی اور غیر فطری واقعات کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور سائنسی طریقہ کار کو اپنے مقدمے کے ذریعے رواج دیا ہے۔ (جاری ہے)۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :