ڈاکٹر عطش درانی۔اُردو اطلاعیات کا بنیاد گزار

منگل 18 مئی 2021

Muhammad Usman Butt

محمد عثمان بٹ

پاکستان میں اُردو کے تکنیکی دور کے آغاز میں ۱۹۹۸ء سے ۲۰۰۸ء تک کا عرصہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے جس میں مقتدرہ قومی زبان، اسلام آباد نے اُردو کو کمپیوٹر کی بنیادی زبان بنانے میں نہایت اہم کردار اد کیا۔ اُردو اطلاعیات جیسی خوب صورت عمارت کی بنیادیں قائم کرنے میں مقتدرہ کے ساتھ جس شخصیت نے نمایاں اور بنیادی کردار ادا کیا وہ ڈاکٹر عطش درانی ہیں جنھوں نے اُردو اطلاعیات کے میدان میں منصوبہ بندی سے اپنے ثمرات نہ صرف مختلف جامعات پر نقش کیے بلکہ یونی کوڈ، آئی ایس او، مائیکرو سافٹ اور موبائل کمپنیوں پر بھی اثرات مرتب کیے۔

یہی وہ دور تھا جب مرکزِ فضیلت برائے اُردو اطلاعیات کی بنیاد رکھی گئی اور ڈاکٹر عطش درانی اِس کے پراجیکٹ ڈائریکٹرمقرر ہوئے۔

(جاری ہے)

مقتدرہ نے اُردو اطلاعیات کے ضمن میں ہونے والے کام کو عطش درانی کی مدد سے دو جلدوں میں مرتب کروایا۔ پہلی جلد مکمل طور پردرانی صاحب کے کام پر مشتمل ہے جبکہ دوسری جلدمیں دیگر اساتذہ و طلبہ اور ماہرین کا کام شامل ہے۔

یہ دونوں جلدیں 2008ء میں شائع ہوئیں۔
اُردو اطلاعیات کے بنیاد گزار عطش درانی 22جنوری1952ء کو ساہیوال میں پیدا ہوئے اور اُن کا اصل نام عطاء اللہ خان ہے۔وہ اُردو کے نامور محقق، نقاد، ماہرِ تعلیم اور ماہرِ لسانیات تھے۔ اُنھوں نے اُردو اور انگریزی زبانوں میں اڑھائی سو سے زائد کتابیں تحریر و مرتب کی ہیں۔اُردو زبان و ادب کے حوالے سے اُن کی خدمات کے باعث حکومت پاکستان نے اُنھیں23 مارچ 2011ء کو تمغہٴ امتیاز اور23 مارچ2016ء کو ستارہٴ امتیاز جیسے اعزازات سے نوازا۔

عطش درانی کا نام پاکستان میں نصاب سازی اور درسی کتب کو تیار کرنے کے حوالے سے نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔اِس ضمن میں اُنھوں نے کئی قومی اور بین الاقوامی اداروں کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی،اسلام آباد، ہائیر ایجوکیشن کمیشن، پاکستان اور کریکولم ونگ، وفاقی وزارت تعلیم،حکومت پاکستان جیسے قومی اداروں اور ADB،GIZ/GTZ،JICA،ESRA،UNESCOاور USAIDجیسے بین الاقوامی اداروں کے ساتھ منسلک رہے۔

اُن کی دل چسپی کے خاص شعبوں میں اُردو زبان و ادب، لسانیات، تعلیم، خواندگی، نصاب سازی، درسی کتب کی تیاری، اُردو اطلاعیات، تحقیق، لغت نویسی، اصطلاحات سازی، علم الکتاب، مجمع العلوم، مطالعہ اقبال، مطالعہ پاکستان، تاریخ اور فلسفہ شامل ہیں۔وہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں پاکستانی زبانوں کے پروفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے ۔

اُنھوں نے ادارہ فروغِ قومی زبان اسلام آبادکے شعبہ سنٹر آف ایکسی لینس فار اُردو انفارمیٹکس میں بطور پروجیکٹ ڈائریکٹربھی خدمات سرانجام دیں اور اِسی ادارہ کے بیورو آف ٹرانسلیشنز،ڈکشنریز اور ٹرمینالوجیز کے سربراہ کی حیثیت سے بھی کام کیا۔وہ نیشنل بک فاوٴنڈیشن اسلام آباد کے ماہنامہ ”کتاب“ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر بھی رہے۔وہ مائیکروسوفٹ لوکل لینگویج پروگرام فار اُردو لینگویج کے پہلے انچارج بھی رہے۔

وہ نیشنل بک فاوٴنڈیشن میں بطور ایڈوائزر ٹیکسٹ بک ڈیویلپمنٹ بھی کام کرتے رہے اور نیشنل کریکولم کونسل،وفاقی وزارتِ تعلیم،اسلام آباد کے ممبر بھی رہے۔علاوہ ازیں وہ کیبنٹ کمیٹی آن دی امپلی منٹیشن آف اُردو، وزارتِ اطلاعات،اسلام آباد کے چئیرمین بھی رہے۔وہ INKSOFT Incاسلام آباد جو کہ پاکستان کی پہلی سوفٹ وئیر لوکلائزیشن کمپنی ہے،کے چئیرمین بھی رہے۔

اُنھوں نے 30نومبر 2018ء کو وفات پائی۔
ڈاکٹر عطش درانی کے کام پر مشتمل ”اُردو اطلاعیات “ کی پہلی جلد میں دس مضامین اُردو زبان میں اور دس مضامین ہی انگریزی زبان میں شامل ہیں۔ اُردو زبان میں تحریر کردہ مضامین کے نمایاں مباحث میں اُردو اطلاعیات: اُردو کا مستقبل، اُردو صوتیے، نئی املا اور کمپیوٹر تختیاں، اُردو صوتیے اور ضابطہ تختی، کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کے لیے قابلِ رجوع نقلِ حرفی، اُردو اطلاعیات اور فرہنگ، کمپیوٹر کے لیے اُردو الفاظ سازی (بنیادی مسائل)، اُردو میں ابلاغ اور جدید اطلاعیات، اُردو میں کمپیوٹر کا تدریسی اطلاق، جدید تدوینِ متن اور اُردو اطلاعیات، اور اُردو اطلاعیات کی نصابی شمولیت شامل ہیں۔

دوسری طرف انگریزی تحریروں کے نمایاں مباحث میں Institute for Urdu Informatics, Linguistics, IT and Literature, Linguistic Aspect of Urdu Informatics Standardization, Localization and Computing Lingual Issues and Solutions, Localization as a means to acieve Digital Inclusion, Scope of Localized Microsoft Products in Pakistan, Localization Issues and Problems, Localization and Translation Challenges, Center of Excellence for Urdu Informatics, Ghost Characters: Atomization-Combination Theory شامل ہیں۔تعلیمی، تدریسی، لسانی اور تحقیقی و تدوینی حوالے سے کمپیوٹر کا استعمال ناگزیر ہو چکا ہے۔

اِس بات کی اہمیت آج سے سترہ سال قبل عطش درانی نے اپنے ایک مضمون ”اُردو اطلاعیات: اُردو کا مستقبل“ میں کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور اِس سے متعلقہ سافٹ وئیرز ،پر خاطر خواہ روشنی ڈالی اور اِس ضمن میں اُردو اطلاعیات کی ناگزیر ضرورت پر زور دیا ہے۔ اِس مقصد کے حصول کے لیے اُنھوں نے کمپیوٹر کی تین تکنیکوں کے وجود میں لانے کی طرف خاطر خواہ توجہ دلائی ہے:
1) سب سے پہلے اُردو کے مشینی قواعد یعنی ایسی گرامر جو شاخ داری کے عمل سے گزار کر الگ الگ ضابطے یا کوڈ نمبر وجود میں لانے کا سبب بنے۔

اِن کے مقابلے اور سیاق و سباق کے حوالے سے انگریزی گرامر کے کوڈ وضع ہوں گے اور کچھ ایسے طریقوں سے انگریزی۔اُردو۔انگریزی ترجمے کا سافٹ وئیر وجود میں آئے گا۔
2) اُردو ویب سائٹ: انٹر نیٹ /سرچ انجن/ای ایڈریس وغیرہ ایسے امور ہیں جن میں براہ راست اُردو زبان کے ماہر کی مداخلت درکار ہے۔
3) اُردو کی ترجمہ مشین: یہ سافٹ وئیر ابھی قواعد کے علاوہ ماہر زبان کی اور بھی مہارتوں کا طلب گار ہے؛ جیسے تعبیر، مفہوم اور سیاق الفاظ کے تکنیکی پہلو، معیاری ذخیرہٴ الفاظ، طوالت الفاظ، کلیدی الفاظ، عمل تقلب، صرف و نحو کے بلاک وغیرہ۔

(اُردو اطلاعیات، 2008ء، ص 12-13)
درانی صاحب نے اُردو زبان میں انجام دیے جانے والے چھ تحقیقی امور کی طرف توجہ دلائی جن کی مدد سے اُردو اطلاعیات کے ضمن میں درپیش مسائل کا حل ممکن ہے۔ اِن میں حروف سے متعلق، الفاظ سے متعلق، جملے سے متعلق، تحریر سے متعلق، تدریسِ اُردو، اور اعلیٰ تحقیق: اُردو سے متعلق جیسے تحقیقی امور شامل ہیں۔اُردو اطلاعیات کے نصاب کے حوالے سے اُنھوں نے اُردو مشینی دور میں، اُردو لفظ کار کے امور، اُردو حرف کار کے امور، اُردو سافٹ وئیر کے امور، اور مشینی ترجمے کے امور جیسے موضوعات و مباحث کو جامعات میں ایم اے اُردو کے طالب علموں کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔

اُنھوں نے اُردو کے نساب میں درس و تدریس کے حوالے سے پرائمری، ثانوی، اعلیٰ ثانوی، اور گریجویٹ و پوسٹ گریجویٹ سطح پر جو اقدامات کیے جا سکتے ہیں اُن کی طرف اشارہ کیا ہے۔ پرائمری سطح پر معیاری قاعدے کی تشکیل، کمپیوٹر لٹریسی کا آغازاور کمپیوٹر کے ذریعے قاعدے اور ابتدائی کتابوں کی تدریس جیسے اقدامات نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ ثانوی سطح پر اُردو ای میل، انٹر نیٹ اور ویب سائٹ کا استعمال انشا پردازی کے حوالے سے ضروری ہے اور مختلف محضروں کا تجزیہ ، کیمبرج کے محضری تجزیے کی طرز پر کیا جائے۔

اعلیٰ ثانوی سطح پر اُردو ادبیاتی ذخیروں کے لیے کمپیوٹر انٹر نیٹ کے استعمال کو ممکن بنایا جائے۔ گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطح پر اُردو کمپیوٹر کی عملی تربیت نہ صرف لازمی شامل کی جائے بلکہ اشاریہ سازی اور کتابیات کے ساتھ ساتھ تکنیکی لسانی امور کو بھی مناسب جگہ دی جائے۔ ڈاکٹر عطش درانی کا یہ خاصا ہے کہ اُنھوں نے اُردو نصاب سازی اور درس و تدریس میں کمپیوٹر کے استعمال کو نہ صرف سمجھا بلکہ اِسے اپنے مضامین میں خصوصی جگہ بھی دی اور اُردو والوں کو کمپیوٹر کے استعمال کی طرف توجہ بھی دلائی۔


 عطش درانی کی مرتب کردہ ”اُردو اطلاعیات (جلد دوم)“ میں کل بتیس مضامین اور دس رپورٹیں شامل ہیں۔ اِس کتاب کو بنیادی طور پر آٹھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں اُردو اطلاعیات (ایک نیا میدان)، مقامیت کاری، تحقیق و ترقی، ویب/کوائفیہ، مشینی ترجمہ، فانٹ/او سی آر، معیار بندی، اور رپورٹیں شامل ہیں۔ اُردو اطلاعیات (ایک نیا میدان) کے تناظر میں اُردو اطلاعیات، شعبہٴ اُردو اطلاعیات کا قیام، اُردو اطلاعیات ڈویژن: اغراض و مقاصد، اور پاکستان میں اطلاعاتی ٹیکنالوجی، تحفظات اور آئندہ کا لائحہ عمل جیسے مباحث کا احاطہ کیا گیا ہے۔

اِس حصے کے مضمون نگاروں میں قرة العین، باقر ایچ نسیم، امداد حسین چودھری، اور پروفیسر امان اللہ خان شامل ہیں۔ مقامیت کاری کے ضمن میں مائیکروسافٹ ونڈوز میں اُردو، اور مائیکرو سافٹ اُردو آفس 2003ء کا ٹیوٹوریل جیسے موضوعات زیرِ بحث لائے گئے ہیں اور مضمون نگاروں میں محمد اسد زمان اور محمد اکبر سجاد شامل ہیں۔ تحقیق و ترقی کے تناظر میں اُردو کمپیوٹر: تحقیق و ترقی، کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا جائزہ، اُردو کمپیوٹر ہی بہتر ہے، اور اُردو کمپیوٹر کی ایجاد: چند ابتدائی کوششیں جیسے جدیدموضوعات پر بحث ملتی ہے اور مضمون نگاروں میں طاہر مفتی، محمد منیر لون، سرفراز شاہداور محمد اسلام نشتر شامل ہیں۔

ویب/کوائفیہ کے حوالے سے بی بی سی ویب سائٹ اور اُردو، پہلے اُردو لائبریری کمپیوٹر نظام ”کتب نویس “کے موجدین سے ایک گفتگو، ویب دار انقلابی اُردو ماڈیول، کمپیوٹر سی ڈی پر اُردو کی پہلی کتاب، اُردو ای میل اور انٹر نیٹ، اور اُردو کوئف گھر : ایک تعارف جیسے عنوانات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور مضمون نگاروں میں نوازش علی کلّو، حسن یاسر کاظمی، محمد نعمان، حافظ صفوان محمد چوہان اور قرة العین شامل ہیں۔


 مشینی ترجمہ کے ضمن میں اُردو مشینی مترجم کے موجد تفسیر احمد سے گفتگو کی گئی ہے جو علیم احمد کی پیش کش ہے۔ فانٹ/او سی آر کے حوالے سے اُردو کے جزویاتی سافٹ وئیر کی تشکیل، اُردو ٹائپ مشین کا عہد بہ عہد ارتقا، اُردو ماہر: ایک تعارف، کمپیوٹر نظامِ طباعت: ایک اجمالی جائزہ، ”سرخاب“: نظامِ طباعت، ”شاہ کار“: اُردو پبلشنگ سسٹم، ”صدف“: ڈیٹا بیس، ”نوری نستعلیق“، اخباری کتابت اور ”شیراز نستعلیق“، نستعلیق نظامی اُردو کتابت بذریعہ کمپیوٹر، انعام علوی کمپیوٹرز، اور پاک نستعلیق ابتدائی اجرائی نوٹ جیسے موضوعات کا جائزہ پیش کیا گیا ہے اور مضمون نگاروں میں محمد اکبر سجاد، انعام الحق جاوید، عارف حسام، علی وجدان، الطاف قمر، طارق عزیز، بشارت علی سید اور شاہ جہان علی شامل ہیں۔

معیار بندی کے تناظر میں اُردو کمپیوٹر کاری معیارات، اُردو ضابطہ تختی 2001ء، اُردو ضابطہ صفحہ کی معیار بندی: لوح بہ لوح احوال، اور اُردو رہنمائے جہاں کی اُردو تختی: داخلی اظہار پر روشنی ڈالی گئی ہے اور مضمون نگاروں میں سرمد حسین، محمد اسلم الوری، محمد افضل اور طارق حمید شامل ہیں۔ رپورٹوں کے زمرے میں اُردو معیار بندی کمیٹیوں کی کارکردگی، اُردو سافٹ وئیر کی معیار بندی (روداد)، اُردو کمپیوٹر سیمینار 1999ء، پہلا اُردو سافٹ وئیر مقابلہ، آئی ٹی سی این ایشیا کی نمائش 2001ء، مقتدرہ قومی زبان: اُردو اطلاعیات کی کارکردگی، اُردو سافٹ وئیر مقابلے، نمائشیں اور ورکشاپیں، اُردو نگری کا کمپیوٹر، روداد ورکشاپ:1، اُردو قواعد برائے کمپیوٹر کاری، اور روداد ورکشاپ: 2، اُردو اطلاعیات: آج اور کل جیسے موضوعات پر رپورٹیں شامل ہیں اور اِن کو تحریر کرنے والوں میں محمد اکبر سجاد، عرفان احمد، امداد حسین چودھری اور ظہور احمد اعوان شامل ہیں۔


اُردو اطلاعیات کا میدان آج اِس بات کا متقاضی ہے کہ اُردوکے استعمال کوکمپیوٹر کی جدید ٹیکنالوجی سے مکمل طور پر ہم آہنگ کیا جائے تاکہ اِس سے نہ صرف تعلیم کے شعبہ میں جدت لائی جاسکے بلکہ آج کی اِس عالمگیر دنیا میں تمام کاروبارِ زندگی بھی اُردو میں ممکن ہو سکیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :