ڈاکٹر فرمان فتح پوری۔ایک ہمہ جہت نقاد

منگل 11 مئی 2021

Muhammad Usman Butt

محمد عثمان بٹ

اُردو زبان و ادب کی ایک ایسی شخصیت جس کا تخلیقی، ادبی، تحقیقی، تنقیدی اور لسانی سفر پچاس سال سے طویل عرصے پر محیط رہا اور اُن سے فیض یاب ہونے والوں کی ایک کثیر تعداد ہے۔ میں بات کر رہا ہوں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی جن کا اصل نام سید دلدار علی ہے۔شاعری پر تحقیق و تنقید کا معاملہ ہو یا پھر نثری تنقید میں پنجہ آزمائی، شخصیات کی بات ہو یا پھر لسانیات کی، اُن کا قلم کہیں رکا نہیں بلکہ رواں دواں رہا۔

اِسی لیے میں اُنھیں ایک ہمہ جہت نقاد کہتا ہوں۔ وہ 26 جنوری 1926ء کو فتح پور ،اتر پردیش، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔اُنھوں نے مدرسہ اسلامیہ، فتح پور سے 1941ء میں میٹرک اور1948ء میں الٰہ آباد بورڈ سے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔آگرہ یونیورسٹی سے 1950ء میں بی اے کا امتحان پاس کیا ۔

(جاری ہے)

پھر اُسی سال پاکستان چلے آئے اور کراچی منتقل ہو گئے۔1953ء میں اُنھوں نے سندھ مسلم لا کالج ،کراچی سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا اور1955ء میں گورنمنٹ ٹیچر ٹریننگ کالج، کراچی سے بی ٹی کا امتحان پاس کیا۔

1958ء میں اُنھوں نے جامعہ کراچی سے ایم اے اُردو کا امتحان پاس کیا اور1964ء میں جامعہ کراچی سے ہی ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔”اُردو کی منظوم داستانیں “اُن کی پی ایچ ڈی کے مقالے کا عنوان تھا۔اُنھوں نے1972ء میں ”اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری “کے عنوان سے ایک کتاب لکھی جس پر جامعہ کراچی نے اُنھیں1974ء میں ڈی لٹ لی ڈگری عطا کی۔

1962ء سے اپنی وفات تک وہ ماہ نامہ ”نگار “ کے مدیر رہے۔اُن کی علمی و ادبی خدمات کے باعث اُنھیں حکومت پاکستان کی جانب سے 1985ء میں ستارہٴ امتیاز سے نوازا گیا۔اُنھوں نے 3 1اگست 2013ء کو وفات پائی اور قبرستان جامعہ کراچی میں دفن ہوئے۔
اُن کی تصنیف و مرتب کردہ کتب کی فہرست نہایت طویل ہے جن میں ”اُردو رباعی ( فنی و تاریخی ارتقا)“(1962ء)، ”تدریس اُردو“ (1962ء)، ”تحقیق و تنقید“(1969ء)،”مولانا جوہر:حیات و کارنامے“ (1969ء)، ”غالب شاعر امروز فردا“(1970ء)، ”اُردو کی منظوم داستانیں“ (1970ء)، ”اُردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری“ (1972ء)، ”دریاے عشق اور بحرالمحبت کا تقابلی مطالعہ“ (1972ء)، ”نواب مرزا شوق کی مثنویاں“ (1972ء)، ”زبان اور اُردو زبان“ (1974ء)،”اُردو کی نعتیہ شاعری“ (1974ء)، ”نیا اور پرانا ادب“ (1974ء)، ”میر انیس:حیات اور شاعری“ (1976ء)، ”ہندی اُردو تنازع“ (1976ء)، ” قائد اعظم اور تحریک پاکستان“ (1976ء)،” اُردو املا اور رسم الخط“ (1977ء)، ”اقبال سب کے لیے“ (1977ء)،”مولانا حسرت موہانی:شخصیت اور فن“ (1977ء)، ”قمر زمانی بیگم“ (1979 ء)، ”اُردو افسانہ اور افسانہ نگار“ (1982ء)،”دید و باز دید“ (1983ء)، ”فنِ تاریخ گوئی اور اس کی روایت“ (1984ء)،” تاویل و تعبیر“(1984ء)، ”نیاز فتح پوری: شخصیت اور فن“ (1986ء)، ”اُردو کا افسانوی ادب“ (1988ء)، ”اُردو کی ظریفانہ شاعری اور اُس کے نمائندے“ (1988ء)، ”نیا ز فتح پوری دیدہٴ و شنیدہ“ (1989ء)،”اُردو نثر کا فنی ارتقا (مرتبہ)“ (1989ء)، ”اُردو شاعری کا فنی ارتقا (مرتبہ)“ (1990ء)، ”اُردو املا اور قواعد“ (1990ء)، ”اُردو شاعری اور پاکستانی معاشرہ“ (1990ء)،”اُردو، قومی یکجہتی اور پاکستان“ (1992ء)، ”اُردو کی بہتر مثنویاں“ (1993ء)، ”ادبیات و شخصیات“ (1993ء)، ”تمنا کا دوسرا قدم اور غالب“ (1995ء)، ”ادب اور ادب کی افادیت“ (1996ء)، ”ادا جعفری: شخصیت اور فن“ (1998ء)، ”میر کو سمجھنے کے لیے“ (1999ء)، ”ادب اور ادبیات“ (2001ء)،”تعبیراتِ غالب“ (2002ء)، ”عملی تنقیدیں“ (2003ء)، ”اُردو غزل، نعت اور مثنوی“ (2004ء)، ”تنقیدی شذرات و مقالات“ (2005ء)، ”صرف شاعرات“ (2009ء)، ” نصف الملاقات“ (2013ء)اور ”جوش ملیح آبادی اور فراق گورکھپوری“ (2013ء)نمایاں حیثیت کی حامل ہیں۔


”اُردو رباعی(فنی و تاریخی ارتقا)“ کے تناظر میں ڈاکٹر فرمان نے رباعی کے فنی لوازم اور خصوصیات، رباعی کی ایجاد کا مسئلہ اور وزن کے مباحث، فارسی رباعی کا آغاز و ارتقا، اُردو رباعی کی ابتدا و ارتقا، اُردو رباعی شمالی ہند میں اور شعرائے متقدمین، اُردو رباعی کا ایک اہم دور، اُردو رباعی کا جدید دور، اُردو رباعی پہلی جنگِ عظیم کے بعد، اور اُردو رباعی کے امکانات جیسے موضوعات پر بات کی ہے۔

لسانیات اور ادبی تحقیق و تنقید فرمان صاحب کی دل چسپی کے نمایاں شعبے ہیں۔”تدریسِ اُردو “ بنیادی طور پراُنھوں نے ثانوی اور ابتدائی مدارس کے زیرِ تربیت اساتذہ کے لیے لکھیجس کے نمایاں مباحث میں زبان اور اُردو زبان، اُردو کی جائے پیدائش کا قضیہ، رسم الخط اور اُردو رسم الخط ، اُردوذریعہٴ تعلیم کی حیثیت سے، پاکستان میں اُردو کی اہمیت، تدریسِ اُردو کے عناصر اربعہ، اُردو تدریس کا مقصد و معیار، زبان دانی اور تدریس اُردو کے بعض دوسرے پہلو، نثر و نظم کے متعلق اشاراتِ سبق کے نمونے،اور اشارات سبق کے چند نمونے شامل ہیں۔

اِسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ”تحقیق و تنقید“ کی صورت میں سامنے آئی جس میں لسانیات کے تناظر میں دو مضامین اہمیت کے حامل ہیں۔پہلا مضمون زبان اور رسم الخط سے متعلق اور دوسرا مضمون علاقائی زبانیں اور اُردو ادب کے عنوان سے ہے۔اِس کے دیگر نمایاں مباحث میں غالب کے کلام میں استفہام، درد کی شخصیت،تصوف اور شاعری، فارسی کی پہلی شاعرہ ’رابعہ‘، آزاد کی تمثیل نگاری وغیرہ شامل ہیں۔

”غالب شاعر امروز فردا“ میں ڈاکٹر فرمان نے غالب کے اولین تعارف نگار، غالب کا نفسیاتی مطالعہ،غالب اور اقبال، نسخہ ٴ حمیدیہ،غالب اور گنجینہ معنی کا طلسم، اور غالب کے مقطعے وغیرہ جیسے مضامین باندھے ہیں۔ ”دریاے عشق اور بحرالمحبت کا تقابلی مطالعہ“ میں اُنھوں نے میر تقی میر کی مثنوی ”دریاے عشق“ اور مصحفی کی مثنوی ”بحرالمحبت“ کے محاسن و معائب کو واضح کرتے ہوئے تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔

مصحفی نے اپنی اِس مثنوی میں میر کی ”دریاے عشق“ کو دوبارہ نظم کیا ہے۔
ڈاکٹر فرمان فتح پوری رسم الخط کوجسم کے لباس سے بڑھ کر جلد کا درجہ دیتے ہیں جس کا اظہار اُنھوں نے اپنی تصنیف ”اُردو املا اور رسم الخط (اصول و مسائل )“ میں کیا۔ انگریزوں کی سرپرستی میں اُردو زبان کو مسلمانوں کی زبان قرار دے کر لسانی تفرقی بازی پھیلائی گئی۔اِس معاملے کی بنیاد فورٹ ولیم کالج کے قیام کے ساتھ ہی رکھ دی گئی تھی۔

اِسی کالج کی زیرِ نگرانی شایع ہونے والی للولا ل جی کتاب ”پریم ساگر“(1809ء)اِس کی واضح مثال ہے،جس میں چن چن کر عربی و فارسی کی جگہ سنسکرت کے الفاظ شامل کیے گئے۔اِس معاملے کی انتہا بنارس میں ہوئی جب وہاں کے ہندووٴں نے 1867ء میں حکومت کو درخواست کی کہ وہ اُردو کی بجائے ہندی کو سرکاری زبان کا درجہ دیں اور یہیں سے یہ معاملہ سنگینی اختیار کر گیا۔

اِس سارے معاملے میں کہیں بھی کسی لسانی پہلو کو زیرِ بحث لا نے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی گئی بلکہ محض سیاسی وجوہات کی بنیاد پر یہ کھیل کھیلا گیا۔یہی وہ عرصہ تھا جب اُردو اور ہندی کے مابین دیواریں تعمیر کی جانے لگیں، نفرت اور لسانی تفرقہ پھیلایا گیا اور مذہب کو زبان کے بیچ لا کھڑا کیا گیاجس سے اُردو ہندی تنازع نے جنم لیا۔ ”ہندی اُردو تنازع“ میں فرمان صاحب نے اُردو اور ہندی کے مابین تنازع کو ہندو مسلم سیاست کی روشنی میں نہایت جامع انداز میں پیش کیا ہے۔

اِس کے نمایاں مباحث میں پاکستان، مسلم قومیت اور اُردو، اُردو اور ہندی کا تاریخی جائزہ، ہندی اُردو تنازع کا پس منظر، ہندی اُردو تنازع کا آغاز اور قومی نظریے کی پہلی نمود (1857ء تا 1870ء)، ہندی اُردو تنازع اور مسلم قومیت کی تشکیل و تعمیر (1870ء تا 1906ء)، ہندی اُردو تنازع، افق سیاست پر (1906ء تا 1936ء)،ناگری، رومن اور اُردو رسم الخط کا قضیہ،اور ہند اُردو تنازع کے آخری دس سال (1937ء تا 1947ء) شامل ہیں۔ مختصر یہ کہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی اُردو کے حوالے سے خدمات پر کئی ایک طرح سے کام کیے گئے ہیں مگر پھر بھی ضرورت ہے کہ اُن کی ادبی و لسانی خدمات کے مخفی گوشوں کو سامنے لایا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :