شہید ناموس رسالتﷺ ۔۔۔مولاناسمیع الحق شہید

منگل 6 نومبر 2018

Muhammad Uzair Asim

محمد عزیر عاصم

جمعہ المبارک کا دن تھا۔ملکی صورت حال ،احتجاج ،اکابر کا مظاہروں اور دھرنوں میں شرکت اور مقتدر اداروں کو دوٹوک پیغام کہ ناموس رسالت ﷺ پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔اس سارے پس منظر میں دل میں ایک انجانا سا خوف تھا کہ سیکورٹی مسائل کی وجہ سے کوئی بڑا نقصان نہ ہوجائے۔نماز جمعہ کے بعد کے مظاہرے خیر و عافیت کے ساتھ گزر گئے ۔ابھی ان مظاہروں کے بعد کی صورت حال پر غور کررہے تھے کہ سرِ شام ایک اندوہناک اور وحشت ناک خبر نے آگھیرا۔

کھانا کھارہے تھے ۔اسی دوران والد صاحب نے ریڈیو آن کیا۔ایک جانکاہ خبر سننے کو ملی کہ معروف عالم دین مولانا سمیع الحق قاتلانہ حملے میں جان کی بازی ہار گئے۔انا للہ وانا الیہ راجعون
شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق  پاکستان کی سیاسی و مذہبی تاریخ کا ایک مکمل باب ہے۔

(جاری ہے)

کم و بیش ساٹھ سال تک وہ نہ صرف قال اللہ و قال رسول ﷺ میں مگن رہے بلکہ سیاسی افق پر بھی اپنے آپ کو زند ہ رکھا۔

ہر دور میں آپ چاہے پارلیمانی سیاست میں رہے ہوں یا نہیں ،آپ کی اہمیت مسلمہ رہی۔آئین پاکستان کی تیاری ،سود کے خلاف سپریم کورٹ کے کیس ،قادیانیوں کے خلاف پارلیمانی جدوجہد اور افغان طالبان کی اعلانیہ اخلاقی مدد ان کی زندگی کا ایک سنہری باب تھا۔میرے خیال میں پاکستان میں افغان طالبان کی سب سے طاقتور آواز مولانا ہی کی تھی۔جو سیکولر اور لادین طبقے کی مخالفت اور فادر آف طالبان کے لقب کے باوجود اپنے مئوقف سے پیچھے نہیں ہٹے۔

میں سمجھتا ہوں کہ یہ ان کی جرات اور شجاعت کی عملی مثال ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اک ایسے وقت میں مولانا کو راستے سے ہٹایا گیا جب ملک شدید بحران میں تھا اورقوم کی فکری و دینی راہنمائی کے لیے مولانا سمیع الحق  کی پہلے سے زیادہ ضرورت تھی۔مولانا سمیع الحق  قران مجید کی آیت لا یخافون لومة لائم کی عملی تفسیر تھے۔آپ گزشتہ ایک عشرے سے موجودہ حکمران جماعت سے ہمدردی رکھتے تھے۔

بلکہ اعلانیہ ان کے اچھے اقدامات کی تعریف اور تحسین بھی کرتے تھے۔گزشتہ الیکشن سے قبل توانتخابی حمایت بھی کرتے رہے ۔مگر سینیٹ الیکشن میں حکمران جماعت کی وعدہ خلافی کے بعد راستے جدا کر لئے تھے۔اس کے باوجود آسیہ مسیح کی رہائی سے قبل تک مولانا گزشتہ حکومت کے مقابلے میں اس حکومت کو بہتر سمجھتے رہے۔مگر جب آسیہ مسیح کے حق میں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تو دیگر علماء کی طرح مولانا بھی کھل کر حکومت اور سپریم کورٹ کی اس بددیانتی پر خوب گرجے اور واضح کیا کہ اگر یہ فیصلہ تبدیل نہ کیا گیا تو حکومت کا بوریا بستر بھی گول کر دیں گے۔

اپنے آخری خطاب میں انہوں نے بہت سی چیزیں واضح کر دی تھیں۔کہ ان کا اگلا لائحہ عمل کیا ہے۔
مولانا سمیع الحق  کی خصوصیت کہ وہ تمام جماعتوں اور مکاتب فکر میں مقبول تھے۔مسلک دیوبند کے وہ سرخیل تو تھے ہی۔۔ساتھ میں دیگر مسالک و مکاتب فکر میں بھی ان کا احترام تھا۔عقیدت اور محبت تھی۔جس کا اندازہ ان کی زندگی میں دفاع افغانستان کونسل،دفاع پاکستان کونسل ،متحدہ دینی محاذ اور متحدہ مجلس عمل (پہلا دور)شامل ہیں ۔

۔جب کی ان کی شہادت کے بعد تمام مکاتب فکر کی طرف سے تعزیتی بیانات ،نماز جنازہ میں شرکت اور اس دکھ اور افسوس کے موقع پر آپ کے خاندان کے ساتھ اظہار یک جہتی شامل ہے۔
شیخ الحدیث مولانا سمیع الحق  کی ایک خصوصیت جو شاید یہ سطور پڑھنے والوں کے علم میں نہ ہو۔۔۔وہ ان کا اعلیٰ پائے کا ادیب ہونا ہے۔اردو ادب کی انہوں نے اپنے مکاتیب ،ماہنامہ الحق کے ذریعے جو خدمت کی ،وہ تاریخ کا ایک روشن باب ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک عالم دین نہ ہوتے،ان کی شناخت ایک مولوی اور مدرسہ کے سربراہ یا کسی دینی جماعت کے قائد کی نہ ہوتی تو آج ان کا شمار اردو ادب کے اکابرین میں ہوتا۔۔اصل میں اردو ادب ہو یا دیگر شعبے ،وہاں دین سے نسبت رکھنے والوں کو وہ حیثیت نہیں دی جاتی ،جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں۔ایسے ہی مولانا شہید کو ادبی حلقوں میں وہ مقام نہیں ملا ،جس کے وہ مستحق تھے۔


مولانا سمیع الحق  کی شہادت ایک بڑا حادثہ ہے۔امت کے تمام طبقات نے اس درد اور دکھ کو محسوس کیا مگر جو نقصان دیوبندی سیاسی جماعتوں ،ناموس رسالت ﷺ پہ کام کرنے والی جماعتوں اور مجاہدین کو ہوا ہے وہ ناقابل تلافی ہے۔پاکستان میں اس وقت تمام بڑے علمائے کرام پریشان ہیں۔یہ وہ نقصان ہے جس میں سب اپنے آپ کو تعزیت کا مستحق سمجھ رہے ہیں۔

میں ان سطور کے ذریعے مولانا انوارالحق،مولانا حامدالحق حقانی اور مولانا سلمان الحق حقانی سمیت اس غم زدہ خاندان کے تمام افراد کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ ہر قدم پر یمیں اپنے ساتھ شریک پائیں گے۔خدمت دین آپ کا اثاثہ ہے۔آپ کے پاس نسلوں کی امانت ہے۔امید ہے آپ اپنی روشن تاریخ کے ذریعے بعد میں بھی اپنے چاہنے والوں کو مایوس نہیں کریں گے۔اللہ کریم شہید ناموس رسالت ﷺ مولانا سمیع الحق  کے درجات بلند فرمائے اور ان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :