"سنکیانگ نامہ" ۔۔۔ادب کے اس پار

ہفتہ 19 جنوری 2019

Muhammad Uzair Asim

محمد عزیر عاصم

ڈاکٹر شفیق انجم پاکستانی جامعات کے شعبہ اردو کا ایک اہم نام ہیں۔اس وقت نیشنل یونی ورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز اسلام آباد میں اپنی تدریسی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔(میری خوش قسمتی کہ میں ان کا ایک شاگرد ہوں اور وہ میرے استاد خاص ۔۔۔جن اساتذہ سے خاص محبت کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے ۔۔مروجہ اصطلاح میں جن کے لیے بیسٹ ٹیچر کا نام مخصوص ہے۔

۔میرے لیے سب کچھ ڈاکٹر صاحب ہی ہیں)گزشتہ سال اپنی تدریسی مصروفیات ہی کے سلسلے میں چین گئے۔وہاں سے واپسی پہ "سنکیانگ نامہ"لکھا۔اس کو سفرنامہ بھی کہا جاسکتا ہے اور رپورتاژ بھی۔یہ نہ صرف چین کی ترقی ،معاشی خوش حالی ،تعمیرات کی کہانی ہی نہیں بلکہ یہ چین میں بسنے والے ایغور مسلمانوں کی دردناک اور المناک داستان بھی ہے۔

(جاری ہے)

کتاب نہیں ایک دستاویز ہے جس نے دنیا کے نقشے پہ مہذب ملکوں نے نام سے شہرت پانے والے ممالک کی اندرونی کتھا بیان کی ہے۔

گلوبل ویلج کے اس دور میں بھی جن مظلوم مسلمانوں پہ ہونے والے انسانیت سوز مظالم کی داستانیں لکھنے سننے کو نہیں ملتیں ۔سنکیانگ نامہ نے ان مظلوموں کا مقدمہ لڑا ہے۔ابتدائی صفحات پہ مصنف کا گہرا افسانوی اسلوب قاری کو اپنے حصار میں لئے چین کی معاشی ترقی اور تعمیرات میں مہارت کی آگاہی دیتا ہے۔قاری سوچنے پہ مجبور ہوجاتا ہے کہ ایسی رفتار اور مہارت ہمارے کیوں نہیں ۔

۔۔سنکیانگ چین کا جغرافیائی لحاظ سے ایک اہم اور تاریخی شہر ہے۔جس کی بنیادوں میں لاالہ الااللہ پڑھنے والوں کا خون شامل ہے۔جہاں مسلمانوں کے عروج کی داستان رقم ہے۔چین کی آزادی کے بعد اس سنکیانگ میں دنیا کی آنکھوں سے اوجھل ،منظم اور مستقل طور پر مسلمانوں کی نسل کشی کا عمل جاری ہے۔جن ممالک کو اس تناظر میں آواز اٹھانے کی ضرورت تھی وہ دوستی کے نام پر لب سیے بیٹھے ہیں۔

وہ سنکیانگ جہاں کبھی مسلمان طاقت اور عروج کی نشانی تھے۔آج نماز پڑھنے کو ترستے ہیں۔وہ ایغور جنہوں نے غلامی کی اس جدید شکل کے بارے میں سوچا بھی نہیں ہوگا ،آج مجبور اور محکوم بن چکے ہیں۔یہ کتاب ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ ہمارے پڑوس میں ،ہمارے ہم مذہب کس قدر افسوسناک زندگی گزار رہے ہیں اور ہمیں معلوم ہی نہیں ہے۔کیا یہ المیہ نہیں ہے؟
سنکیانگ نامہ ان مجبوروں ،مقہوروں اور بدنصیبوں کا مقدمہ لڑنے کی پہلی توانا کوشش ہے۔

اس کتاب کا اختتامی حصہ درد اور آنسوؤں کے بغیر پڑھنا ناممکن ہے۔مصنف لکھتے ہیں کہ سنکیانگ ایک جنگی ریاست اور شہر کا روپ دھارے خوف کی علامت بن چکا ہے۔ہر مسجد کے سامنے ٹینک،فوجی کانوائے،آنے جانے والوں کی جامع تلاشی،ناموں کا اندراج ،پردیوسیوں اور مسافروں کو پاسپورت پہ مسجد میں داخلے کی اجازت ،گھروں میں قرآن مجید کا نسخہ رکھنے پہ پابندی،جائے نماز اور تسبیح کی ممانعت ،مسلم نوجوانوں کی ریکی،تعاقب اور جاسوسی،سرکاری ملازم سے جرح غرض جدید دور میں غلاموں کی سی زندگی گزارنے کی بدقسمت قوم اگر اس دھرتی پہ کوئی ہے تو وہ ایغور مسلمان ہیں۔

وہ سنکیانگ میں رہنے والا نوجوان ہے۔کیوں کہ اس کی آزادی کے لیے کوئی مسلم ملک بولنے کو تیار نہیں۔۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کو مسلمان ممالک میں اکا دکا واقعات تو نظر آتے ہیں مگر سنکیانگ کے مجبوروں کی کوئی خبر نہیں۔اقوام متحدہ کو اس ضمن میں خاموشی کا دورہ پڑا ہوا ہے۔۔
سنکیانگ نامہ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جو ایغور مسلمان بیرون ملک جاتا ہے تو اس آزادی اور بے فکری میں وہ واپسی کے تمام دروازے بند کر دیتا ہے۔

اسے گھٹن اور حبس زدہ سنکیانگ میں واپسی سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔۔باہر جانے کا رجحان وہاں سب سے زیادہ ہے۔طلباء ایسے مضامین پڑھنے کو ترجیع دیتے ہیں ۔جن میں مستقبل میں ملک سے باہر جانے میں آسانی ہو۔۔مساجد میں نوجوان یا سرکاری ملازم کے داخلے کا مطلب یہ ہے کہ اپنے پیچھے ایجنسیاں لگا دی جائیں ۔۔۔نتیجہ یہ ہے کہ مساجد میں چند بوڑھے ہی نظر آتے ہیں۔

لوگ چھپ کر گھروں میں ہی نماز پڑھنے کو ترجیع دیتے ہیں۔۔سنکیانگ نامہ کے مطالعے ہی سے یہ افسوس ناک پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ وہاں کے مسلمانب خصوصا ً نوجوان پاکستان سے شدید شاکی ہیں۔۔انہیں مان تھا،،امید تھی کہ پاکستان ان مظالم پہ بولے گا۔۔آواز اٹھائے گا۔۔مگر پاکستان کو احساس ہی نہیں۔۔ہمسائے ہونے کے ناطے ہی پاکستان ان کے حق میں ایک آواز اٹھا دیتا تو یہ شکوے نہ ہوتے۔

۔اس کا افسوسناک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ لوگ اب ہندوستان سے زیاد ہ محبت کرتے ہیں۔جو پاکستان کے لیے ایک منفی پہلو ہے۔
سنکیانگ نامہ نے چین کے چہرے پہ پڑا نقاب نوچ لیا ہے۔وہ چین جو انسانی اور مذاہب کی آزادی کا علمبردار ہے ۔۔وہاں ایسے مظالم آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں اور ثابت کرتے ہیں کہ دنیا کے تمام مسلمان عالم کفر کے سامنے کھتکتے ہیں ۔

چاہے وہ ان کے اپنے ممالک ہی میں کیوں نہ بس رہے ہوں ۔۔
مصنف نے سنکیانگ کے بے بسوں اور مجبورو ں کا مقدمہ لڑا ہے اور تن تنہا آواز اٹھائی ہے۔۔۔پاکستان کے ارباب اقتدار،اہل ادب اور اہل مذہب کو جگانے کی کوشش کی ہے۔۔میری ڈاکٹر شفیق انجم سے تفصیلی ملاقات ہوئی ۔۔۔ان کا لہجہ بتاتا ہے کہ ہ مسلمانوں کی حالت اور ہماری بے بسی اور لاپراہی پہ کڑھ رہے ہیں۔

۔ان کا ارادہ ہے کہ وہ اس مسئلے کو ہر فورم پہ اٹھائیں گے ۔۔۔کیون کہ چین ہمارا دوست ہے اور دوستی کے تناظر میں اتنا حق تو رکھتے ہیں کہ خامیوں کی طرف آگاہ کریں۔۔۔ادب کے ا س پار رہ کر بھی مصنف ادب سے لاتعلق نہیں رہا۔۔ظلم کے یہ ضابطے مسلمانوں کے مقدر میں لکھ دینے کو مصنف نے حقارت سے دیکھا اور اپنے ضمیر کی آواز کو معاشرے کی بند سماعتوں سے ٹکرانے کی مضبوط کوشش کی ہے۔

ارباب اقتدار اور اہل ادب کو سنکیانگ کے اس مسئلے پہ دوستی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آواز اٹھانی ہوگی۔اہل سنکیانگ کے دل جیتنے کا یہ نادر نسخہ ہے۔۔ہر ایک فرد کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔۔اور نہیں تو سوشل میڈیا ہی پہ چین کو جگانے اور مہذب ممالک کے اصول اپنانے کی دعوت دینی چاہیے۔۔ڈاکٹر شفیق انجم مبارک باد کے مستحق ہیں ۔

۔انہوں نے اپنا فرض ادا کر کے کلہاڑ ا ہمارے کندھوں پہ رکھ دیا ہے کہ ا ب آگے بڑھو اور جواب دو۔۔یہ بت کس نے توڑے ہیں۔۔ہم نے تو فوراً آزاد کشمیر کے اس خوبصورت نوجوان کا نام لے دینا ہے ۔۔کیوں کہ اسلوب سب سے بڑی پہچان ہے۔ادب اور فن سے دلچپی رکھنے والوں کو یہ سفرنامہ حرز جان بناناہوگا اور مصنف کے حق میں دعائے خیر بھی کرنا ہوگی ۔۔میری ڈاکٹر شفیق انجم سے چین خصوصاً سنکیانگ کے حالات پہ تفصیلی ملاقات ہوئی،ان کا درد ،بے قراری اور کڑھن دیکھی تواندازہ ہوا کہ معاشرہ ابھی اتنا بانجھ نہیں ہوا۔

۔دوسروں کی تکالیف محسوس کرنے والے اور ان کے غم کو اپنا غم سمجھنے والے موجود ہیں۔ڈاکٹر صاحب ارباب ادب سے تو مکمل طور پر مایوس ہیں۔۔اہل صحافت سے انہیں کوئی امید نہیں۔۔میرے جیسے ایک عام آدمی اور اہل مذہب سے ان کو امید ہے کہ وہ سنکیانگ کے بے بس اور مجبوروں کے حق میں آواز اٹھائیں گے ۔۔وہ چین کو پاکستان کا گہر ادوست قرار دیتے ہوئے اس کتاب میں موجود شکایات کو گلے شکوے قرار دیتے ہیں کہ اپنوں میں یہ حق تو ہوتا ہے کہ گلہ شکوہ کیا جائے۔۔۔دل میں بات رہ جائے تو نفرت بڑھتی ہے۔۔اس کا اظہار کر دینا ضروری ہے۔۔ایغور کے مسلمان امداد غیبی کے منتظر ہیں۔۔ان کی زندگی عذاب ہے۔۔اور اس عذاب سے ان کی نجات کے لیے ہم سب کو اپنا فرض نبھانا ہوگا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :