بعد از شادی

جمعہ 14 فروری 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

کہتے ہیں کہ شادی میں سب سے بڑی قباحت یہ ہے کہ بندہ ایک بار شادی شدہ ہوجائے تو پھر مرتے دم تک شادی شدہ ہی رہتا ہے اس پہ مستزاد یہ کہ ایک ہی شادی پر ساری زندگی دم بھرنا پڑتا ہے،اسی لئے شائد غالب # نے شادی کو عمر قید کی سزا قرار واقعی دیا تھا۔شادی ایک ایسی بیماری ہے جو دیمک کی طرح انسان کے کنوارے پن کی جڑوں تک کو کھوکھلا کر دیتی ہے، پھر بھی ہر کنوارے کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ دیمک اسے ”چاٹ“ہی لے ۔

قبل از شادی جب بندہ اپنے کنوارہ پن کی لاج رکھنے کے لئے اپنی گرل فرینڈ کا ATM بنے شاپنگ کرواتے نہیں تھکتا،بعد از شادی وہی انسان خاوند کے روپ میں ATM سے سیدھا 360 کے زاویے سے بطور LOADER بیوی کا دم چھلا بنے یوں پیچھے پیچھے چل رہا ہوتا ہے جیسے بھیڑ کے پیچھے اس کا میمنہ،اس لئے کہ شاپنگ مال میں شاپنگ بیگ مع بیوی کے شولڈر بیگ اٹھانے کی ذمہ داری شوہر ِ نامدار کے کاندھوں پر لٹک رہی ہوتی ہے۔

(جاری ہے)

اتفاق سے خاوند کو ایسی حالت میں کوئی لنگوٹیا(ایسا دوست جس کے ساتھ بچپن میں آپ ایک ہی لنگوٹ میں سوئے ہوں)مل جائے تو احساس ندامت کی بجائے خجل سی ہنسی اور نیم پزمردہ مسکراہٹ سے بیگم کے پرس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فوراً گویا ہوگا ”اے ٹی ایم کارڈز اور رقم پرس میں ہے تو حفاظت کون کرے گا،یقینا خاوند مگر بیگم کے پرس کی نہیں بلکہ مال کی “کیونکہ رقم مرد کے ہاتھ میں ہی محفوظ رہتی ہے ،واقعی رقم مرد کے ہاتھوں اور مرد کی عزت بیوی کے ”ہاتھوں “میں ہی محفوظ رہتی ہے۔


پاکستان میں شادی سوچ سمجھ کر اور بزرگوں کی مرضی شامل حال کر کے جبکہ یورپ میں ”دیکھ بھال “کر کی جاتی ہے اسی لئے پاکستان میں بچے شادی کے بعد ہی پیدا کئے جاتے ہیں۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ شادی وہ لڈو ہے جو کھائے وہ بھی پچھتائے اور جو نہ کھائے وہ اور بھی پچھتائے(اکثر کھا کر ہی پچھتانے کو ترجیح دیتے ہیں)۔ہم پاکستانی تو اگر کسی کزن کے ہاتھوں لڈو کھا لیں (یعنی شادی کزن سے ہو جائے) تو تادم مرگ اسے ہی ہضم کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں البتہ عرب النسل اپنی نسل کی بڑھوتری کے لئے یہ لڈو بار بار کھاکر پچھتانے کو ترجیح دیتے ہیں۔

قدرت نے عرب کو وسائل کی کثرت اور اولاد کی بکثرت سے خوب نواز رکھا ہے۔کیونکہ عرب میں ماسوا تیل اور بچے پیدا ہونے کے کچھ اور نہیں ہوتا۔دوحہ قطرمیں رہتے ہوئے میں نے دنیا کی تمام کمیونٹی کو قریب سے دیکھ کر یہ اندازہ لگایا کہ بچہ پیدائش سے قبل ماں کی کوکھ جبکہ بعد از پیدائش باپ کی گود میں ہی رہنا پسند کرتا ہے،ایسے مرد حضرات کو آپ امیر ہوں تو انڈرسٹینڈنگ،مڈل کلاس سے ہوں تو زن مرید اور اگر غریب تو پھر پنجابی ماؤں کا وہی روائتی جملہ ہی کافی ہوتا ہے”جھڈو،ویاہ تو بعد ای بڈھی دے تھلے لگ گیا سی“۔


فیملی پلاننگ کا ایک ماہر انڈیا میں کسی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ انڈیا میں ہر دو سیکنڈ بعد عورت ایک بچہ کو جنم دیتی ہے جو ہمارے ملک کے لئے کسی بڑے خطرہ سے کم نہیں ہے۔ہال سے ایک آدمی اٹھ کھڑا ہوا کہ حضور ہمارا وقت کیوں برباد کر رہے ہو چلئے مل کر اس عورت کو تلاش کرتے ہیں،انڈیا کی آدھی آبادی اس عورت کی تلاش میں ہے اسی لئے ان کی آبادی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے۔

شادی واحد عمل ہے جس میں عورت بوقتِ نکاح خاموش اظہارِ اقرار کرتی ہے،شادی کے بعد وہی بیوی قرار واقعی جو اظہار خاوند کا کرتی ہے وہ تو کہانی گھر گھر کی ہے بس کچھ مان جاتے ہیں کچھ قبول کر لیتے ہیں۔ویسے جس گھر میں یہ محبت بھری کہانی نہ ہو وہ گھر،گھر نہیں ڈرامہ لگتا ہے۔ادبی اصناف میں صنفِ نازک کو ڈرامہ ہی سمجھا جاتا ہے اس لئے جو بھی شاعر دل کی بھڑاس نکالنا چاہتا ہے وہ شعری پیرائے میں اس طرح بیان کردیتا ہے کہ کسی اور کے گھر کے حالات دکھائی دیں حالانکہ وہ اس کے۔

۔۔۔۔۔۔۔ہمارا ایک دوست ایسی ہی ایک کہانی کا کردار نبھاتے نبھاتے پانچ بچوں کا باپ ہے،عجب یہ کہ دونوں(میاں بیوی)کو شکائت ہے کہ میرا خیال نہیں رکھا جا رہا ۔جبکہ ان کے بچے الگ سے شکوہ کناں ہیں کہ امی ابو کو ہمارا خیال رکھنے کی ”فرصت“نہیں ملتی۔کہتے ہیں عشق شادی سے قبل اور اولاد نکاح کے بعد ہی ہو تو حلال ہوتی ہے اور دونوں صورتوں میں کسی ایک کو حلال ہونا پڑتا ہے۔

شادی کے بعد اگر عشق بیوی سے ہوجائے تو پہلے کے تمام عشق قلیل عرصہ کے لئے دفنا دینے چاہئے وگرنہ زندگی سقیم وثقیل گزرتی ہے۔عقل مند وہ ہے جو پہلے کے عشق کبھی کبھار تازہ کرتا رہتا ہے بقول عالم لوہار،عشق لوہارا تازہ رہندا بھانویں داڑھی ہو جائے چٹّی،
شادی ایک ایسا خطِ فاصل ہے جس کے ایک طرف”شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر“جبکہ دوسری جانب”جو تن لاگے سو تن جانے“۔

جنگل کے بادشاہ شیر نے تمام جانوروں کی ایک میٹنگ بلائی اور پوچھا کہ تم میں وہ کون ہے؟جو میری طرح شیر ہے۔پیچھے بیٹھے ایک کمزور سے چوہے نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے کہا حضور میں ہوں وہ”مرد قلندر“۔شیر ،چوہے کی جرات پر اظہار ناراضگی میں دھاڑا کہ تم میری طرح شیر کیسے ہو سکتے ہوں۔چوہے نے دست بستہ عرض کیا حضور شادی سے پہلے میں بھی اپنے آپ کو شیر ہی سمجھتا تھا۔

بیوی کے لئے سب سے با اعتماد رشتہ خاوند کا اس لئے بھی ہوتا ہے کہ لاکھ اشیا آزمالیں جو کپڑے اور برتن دھونے کا بھروسہ خاوند پر ہوتا ہے وہ کسی ڈٹرجنٹ پر کہاں۔شادی کے بعد خاوند کی طرف سے سب سے زیادہ بولا جانے والا لفظYES ہوتا ہے۔کیونکہ یہ دنیا کا واحد لفظ ہے جو نہ بھی بولا جائے تو بیوی اسے ”ہاں“ہی سمجھتی ہے۔جو بھی ہومیاں بیوی کا رشتہ واحد رشتہ ہے جس سے تمام مقّدس رشتے پیدا ہوتے ہیں۔

مشرقی بیوی اس ڈر سے اپنے خاوند کودوسری کی اجازت نہیں دیتی کیونکہ وہ عمل تقسیم سے ڈرتی ہے خاص کر خاوند کے پیار کی تقسیم سے،بیوی تو ایسا رشتہ ہے کہ اسے اگر ہجوں میں بھی تقسیم کریں تو وٹامن ”بی“اور”وی“ ہی بنتا ہے۔پرسکون زندگی کیلئے ضروری ہے کہ بی اور وی کو ملاکر احتیاط اور پیار سے رکھا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :