دم توڑتی روایت

جمعہ 1 مئی 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

ہمارے ہاں خصوصا دیہی علاقوں اور عمومی طور پہ شہروں میں بھی روایت رہی ہے کہ عید،شبِ برات ،مخصوص تہوار یا کبھی بھی کوئی بہترین ڈش کا پکوان ہوتا تو محلہ بھر کے گھروں میں تقسیم کیا جاتا،اسی طرح شادی کے چند روز بعد جب نو بیاہتا دلہن پہلی بار رسوئی میں جا کر کھانا پکانا شروع کرتی تو سب سے پہلے حلوہ،زردہ یا کوئی بھی میٹھی ڈش بنا کو پورے محلہ میں تقسیم کی جاتی تاکہ اوس پڑوس میں پتہ چل جائے کہ نئی نویلی دلہن کھانے پکانے میں کس قدر سگھڑ خاتون ہے۔

علاوہ ازیں مجھے یاد ہے کہ بچپن میں جب بھی ہمارے ہاں معمول سے ہٹ کر کوئی بھی کھانا پکتا تو محلہ کے چند گھروں میں باقاعدہ اہتمام کے ساتھ بھیجا جاتا یعنی ماں جی کی کوشش وتی کہ رکابی یا ڈش جس میں بھی کھانا دینا ہوتا نئی اور صاف ستھری ہو اور اسے دستر خوان یا کڑھائی والے کپڑے کے ساتھ ڈھانپا ہوا ہو۔

(جاری ہے)

حیران کن بات یہ ہوتی کہ برتن کبھی بھی خالی نہ آتا واپسی پہ اس برتن میں لینے والا اسے بھر کر لوٹاتا کہ ان کا خیال ہوتا کہ خالی برتن لوٹانا ریت رواج کے خلاف ہے۔


لیکن عمر گزرنے اور ذوق مطالعہ نے ثابت کیا کہ یہ ایک روایت ہی نہیں ہے بلکہ عین سنت نبوی ﷺ ہے،کہ ایک بارآقا ﷺ نے ام المومنین بی بی عائشہ صدیقہ  سے فرمایا کہ جب بھی کوئی اچھی شے بناؤ تو اس میں پانی زیادہ ڈال لیا کرو کیونکہ اس میں پڑوسیوں کا بھی حق ہے،اسی طرح ایک اورحدیث میں آتا ہے کہ آپ ﷺ جب بھی گھر میں کوئی بہترین شے پکتی تو اسے ام المومنین بی بی خدیجة الکبریٰ کی سہیلیوں کو ضرور بھجوایا کرتے تھے۔

گویا بہترین پکوان کا ایک دوسرے کے گھروں میں بھیجنا عین سنت ہے۔ایک عرب روایت ہے کہ ایک بار کسی عربی سردار نے ایک لونڈی کو دیکھا کہ وہ کسی رکابی میں کچھ کھانے کی اشیا کو ایک رومال سے ڈھانپ کر لے جا رہی ہے تو عرب سردار نے اسے پوچھا کہ کیا لئے جا رہی ہو،تو لونڈی نے بڑا حیران کن اور مبنی بر عقل جواب دیا کہ اگر بتانا ہی ہوتا تو پھر اسے چھپانے کی کیا ضرورت تھی،اس سے ایک اور بھی سبق ملتا ہے کہ ڈھانپی ہوئی شے کسی کا راز ہوتا ہے جسے فاش کرنے یا جاننے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے۔

حضرت علی  کا ایک قول یاد آگا کہ
 ”کسی کا راز تلاش مت کرو اور اگر مل جائے تو اسے فاش مت کرو“
اس عمل کو پنجابی میں ایک اکھان کی صورت میں بیان کرنے سے اور بھی آسانی ہو جائے گی کہ ”اپنی مجھ دا ددھ سو کوہ تے وی جا کے پی لئی دا اے“اس کا مطلب یہ ہے اپنی بھینس کا دودھ سو کلو میٹر دور جا کر بھی پیا جا سکتا ہے،سمجھانے کے لئے ایک حکائت یاد آ گئی کہ ایک گاؤں کے کنویں پہ کچھ پنہارنیں پانی بھرنے کے لئے جمع تھیں کہ ایک عورت نے کسی دوسری سے پوچھا کہ سناؤ آج کل کیا کھا رہی ہو تو اس نے جواب دیا کہ میں نے ایک ماہ قبل کھیر کی ایک دیگ پکائی تھی آج تک سے ہی کھا رہی ہوں،پاس میں بیٹھی ہوئی ایک اور عورت نے جب سنا تو اس نے ارادہ کیا کہ وہ بھی ایسا ہی کرے گی کہ ایک ہی بار دیگ بنا لے گی اور پھر مہینہ بھر سے کوئی کام نہیں کرنا پڑے گا اسی دیگ میں سے کھیر نکال کے کھاتی رہے گی۔

گھر جا کر اس نے کھیر کی دیگ پکائی اور اسے اس ڈر سے کہ کوئی اور شراکت نہ کرے دیگ کو ”توڑی“ ولاے کمرے میں چھپا دیا،دو تین دن کے بعد اس کھیر کی دیگ میں سے بد بو آنا شروع ہو گئی تو عورت کو پوری دیگ کو ضائع کرنا پڑا۔کچھ دن بعد پھر سے جب عورت کا کنویں کے پاس جانا ہوا تو پہلی والی عورتیں پھر وہی باتیں کر رہی تھیں کہ بتاؤ بہن تمہاری کھیر کی دیگ ختم ہوئی کہ نہیں تو عورت نے جواب دیا کہ نہیں میں تو ابھی تک اسی دیگ کی کھیر کھا رہی ہوں،اب جس عورت نے پکی پکائی دیگ ضائع کی تھی اس نے پوچھا کہ بہن تم نے کیسے ایک مہینہ نکال لیا میں نے جو دیگ پکائی تھی وہ تو تین دن بعد ہی بو مار گئی تھی اور مجھے پوری دیگ کو کوڑے کے ڈھیر پہ پھینکنا پڑا،اس پہ عورت نے جواب دیا کہ میں نے کھیر کی دیگ ایک ماہ قبل پکا کر اسے پورے محلہ میں تقسیم کی تھی اب جس گھر میں بھی کھیر بنتی ہے وہ مجھے بھی دے جاتے ہیں اور اس طرح سے میں مہینہ سے اسی دیگ کے عوض کھیر کھا رہی ہوں۔


اس سے ہمیں سبق بھی ملتا ہے کہ تقسیم کرنے سے کمی واقع نہیں ہوتی بلکہ اس سے ضرب ہوتی ہے اور لوٹ کر آپ کے ہی پاس آتی ہے،بس اس فلسفہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔بابا جی اشفاق احمد کا مشہور واقعہ ہے وہ کہتے ہیں کہ ایک بار میں اور بابا جی رات تاخیر سے کہیں سے واپس ڈیرہ پہنچے تو جس رکشے پہ ہم آئے تھے اس کے پاس پانچ کے نوٹ سے واپس دینے کی ریزگاری نہیں تھی تو میں نے شیخی بکھیرنے کے لئے اسے پانچ کا نوٹ ہی رکھ لینے کو کہہ دیا،اور یہی بات میں نے شوخی شوخی میں بابا جی کے گوش گزار بھی کر دی ،جسے سن کر بابا جی نے بڑی ہی بے اعتنائی سے جواب دیا کہ
”تم نے کون سا اس پہ احسان کیا ہے،تم نے اس کے دیے میں سے ہی دیا ہے کون سا اپنے پلے سے دیا ہے“
بات بالکل بھی پلے نہ پڑی،سنی ان سنی کردی،کچھ روز بعد کہتے ہیں کہ قدرت اللہ شہاب کراچی سے ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے تو میں نے پورا ماجرا اس کو سنا دیا،اس نے بھی میری اس شوخی پہ کان نہ دھرا۔

وقت گزرا تو ایک سال بعد مجھے قدرت اللہ سے ملنے کے لئے کراچی جانا ہوا،ہم اس کے دفتر میں بیٹحے ہوئے تھے کہ ایک برقعہ پوش خاتون دفتر میں داخل ہوئی،اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا جسے اس نے قدرت کے ہاتھ میں تھما دیا اور خود ایک طرف ہو کر کھڑی ہو گئی،قدرت نے لفافے میں سے ایک کاغذ نکالا اسے پڑھا،اپنا دراز کھولا اور اس میں جتنے پیسے تھے نکال کر اس خاتون کے ہاتھ میں دے کر اسے چلتا کیا۔

مجھ سے رہا نہ گیا تو میں پوچھا قدرت یہ خاتون کون تھی؟کہنے لگے پتہ نہیں، اچھا اس نے خط میں ایسا کیا لکھا تھا کہ آپ نے اسے اتنے سارے پیسے دے دئے،قدرت کہنے لگے کہ اس خط میں لکھا تھا کہ ضرورت مند ہوں خامشی سے میری مدد کر دیں اگر کر سکتے ہیں اگر نہیں تو شور نہ مچانا مجھے خط واپس کر دینا،میں نے اس کی مدد کر دی ،بابا جی کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ جب تم اسے جانتے ہی نہیں ہو تو تمہیں کیا پتہ کہ وہ مستحق تھی یا نہیں تو اس پر قدرت نے جواب دیا کہ ”میں نے کون سا اس پہ احسان کیا ہے،اس کے دیے میں سے دیا ہے“۔

بابا جی کہتے ہیں کہ مجھے اس دن اس بات کی سمجھ آئی کہ اس بات کے پیچھے کیا فلسفہ ہے۔لہذا یاد رکھئے گا کہ ہمیشہ تقسیم کرنے سے ہی ضرب ہوتی ہے بس بات یقین کی ہے،اللہ کرے کہ ہمارا یقین پختہ ہو جائے تو پھر دیکھئے گا کہ بس ایک اس عمل سے ہی معاشرہ کیسے خوش حال اور فلاحی معاشرہ بنتا ہے۔ان شااللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :