آف لائن سے آن لائن

ہفتہ 17 اکتوبر 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

کرونا وائرس نے جہاں دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کی معاشی،معاشرتی، اخلاقی اور تعلیمی ترقی واقدار کو متاثر کیا وہاں دو بڑے فوائد سے بھی نوازا ہے ایک آن لائن شاپنگ اور دوسرا آن لائن کلاسز۔آن لائن شاپنگ کو کسی دوسرے کالم میں لائن پر لانے کی کوشش کروں گا۔فی الحال آن لائن کلاسز کی لائن درست کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ہالی ووڈ سٹار شیرون اسٹون نے سکولز میں سیکس ایجوکیشن پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک بار کہا تھا کہ سکول میں اس کی تعلیم ملنا چاہئے مگر ہوم ورک نہیں دینا چاہئے۔

بطور ماہر تعلیم میرا آن لائن ذوم کلاسز کے بارے میں ذاتی مشاہدہ ہے کہ بچوں کے لئے آن لائن ذوم کلاسز ضرور ہونا چاہئے مگر کیمرہ ”آن“نہیں ہونا چاہئے بلکہ پنجابی میں”اون نوں(سائیڈپہ)ہونا چاہئے ،خاص کر جب کلاس لینے والی کوئی ٹیچر ہو۔

(جاری ہے)

کالج کے طلبا آن لائن کلاسز لیتے ہوئے سونے پہ سہاگہ اس دن سمجھتے ہیں جب ان کی گل اندام ٹیچر،جدید لباس زیب تن کئے کھلے بالوں سے کیمرہ کر سامنے آئے تو اس روزنالائق ترین طالب علم کی بھی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی کلاس لے ہی لی جائے۔

ایسی ذوم کلاس میں بچے سکرین شارٹ لے کر”شارٹ“کو ایسے ذوم کر کر کے نظارہ کرتے ہیں کہ نظر بھی شرما جائے۔
اگرچہ فاصلاتی تعلیم اور آن لائن کلاسز کا تدریسی تجربہ یورپی ممالک میں پہلے سے ہی کیا جا رہا ہے اور شائد اسی وجہ سے یورپ ہم سے قبل ”لائن“ پہ آچکا ہے۔لیکن پاکستان میں اس کا سہرا کرونا کے سر جاتا ہے۔کرونا ایسی بیماری ثابت ہوئی ہے کہ جس میں ہر کسی نے چاہتے نہ چاہتے ہوئے بھی کچھ نا کچھ کرنے کو ہی ترجیح دی ہے۔

یقین جانئے جو لوگ کرونا کے ڈر سے گھروں میں مقید رہے سب سے زیادہ ثمر آور کام انہوں نے سرانجام دئے ہیں یقین کے لئے ان کے بچوں کی تعداد میں اضافہ کو بطور مثال پیش کیا جا سکتا ہے۔اگر تو کرونا سے قبل اور بعد میں ایک بچہ کا اضافہ ہوا ہے تو سمجھ جائیں کہ ایسے افراد گھر میں فارغ نہیں بیٹھے۔کرونا نے طبی شعبہ میں ڈاکٹرز کو بلا تخصیص ایسے ”با پردہ “کیا ہے کہ میاں بیوی اگر ایک ہی ہسپتال میں اپنے فرائض منصبی سرانجام دے رہے تھے تو وہ شکل سے نہیں آواز سے پہنچانتے تھے۔

کبھی کبھار تو خاتون ڈاکٹر کو بتانا پڑتا تھا کہ”اونہوں میں نرس نہیں آپ کی بیوی ہوں“۔
تعلیمی میدا ن میں اتنی بڑی تبدیلی کا سہرا یقینا کرونا کے سر ہی جاتا ہے کہ ہمارے ہاں بھی اب یورپ کی طرز پر آن لائن کلاسز کا آغاز ہو گیا ہے یہ الگ بات ہے کہ ہمارے بچوں کو اپنی اپنی” من پسند“ کو ”لائن“پر لانے کے لئے یورپ کی نسبت محنت زیادہ درکار ہے۔

جس آن لائن کلاس میں بچوں کی نسبت بچوں کے والد کی دلچسپی زیادہ ہو سمجھ جائیں کلاس لینے والا کوئی مرد نہیں بلکہ خاتون ٹیچر ہے۔وگرنہ میرا تو ذاتی مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ دس بچوں کی کلاس کو آن لائن لینے کے لئے دس بار آف موڈ میں میسج کرنا پڑتا ہے تب کہیں بچے لائن پہ آتے ہیں۔ویسے میرا یہ بھی خیال ہے کہ آن لائن میں اتنا سیکھا نہیں جاتا جتنا کہ ”لائیومشاہدہ“کیا جاتا ہے۔


شعبہ درس وتدریس سے وابستگی کی بنا پر مجھے آن لائن کلاسز کی ورکشاپ میں شمولیت کا اتفاق ہوتا رہتا ہے ،اسی سلسلہ میں ایک ورکشاپ میں شامل تھا کہ قریب بیٹھے ہوئے ایک خوبصورت انگریز جوڑے سے دریافت فرمایا کہ مسٹر جیک آپ کے خیال میں آن لائن کلاس کی کیا افادیت ہے؟مسٹر جیک نے دھیرے سے شرارتی لہجہ میں مسکراتے ہوئے قرب میں بیٹھی ہوئی نازک اندام گوری کی طرف کن انکھیوں سے دیکھتے ہوئے اشارہ فرمایا کہ ۔

۔۔مس کیتھرائن۔۔۔کیا مطلب؟مطلب یہ کہ چند ماہ قبل آن لائن کلاسز کی ورکشاپ سے قبل ہم دونوں ایک دوسرے کے لئے ”آف لائن “تھے۔دو ہفتوں کی ورکشاپ کے اختتام تک ہم دونوں ”آن لائن“آچکے تھے ۔میں نے مسکراتے ہوئے فقرہ چست کیا کہ گویا مس کیتھرائن ”آن لائن“کلاس کا پہلا باقاعدہ مثبت نتیجہ ہے۔دونوں بیک زبان گویا ہوئے کہ ”نتیجہ“آنے میں ابھی پانچ ماہ باقی ہیں۔

جیک اور کیتھرائن کے مثبت نتیجہ کی برآمدگی کے بعد سے میں آجکل تیسری ورکشاپ میں شمولیت اختیار کئے ہوئے ہوں اس امید پر کہ دنیا امید پر قائم ہے۔ویسے آجکل تو لڑکیاں بھی اپنا نام ”امید“رکھتی ہیں۔اپنے اس امیدی خیال سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا کہ ایک بار میں اپنے چھوٹے بھائی کو ملنے کے لئے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد گیا تو کھانے کے لئے مجھے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ میس کی بجائے یونیورسٹی کے باہر ایک مناسب سے ہوٹل میں لے گیا۔

میں نے پوچھا کہ کیا اس ہوٹل کی کوئی خاص ڈش مشہور ہے جو یہاں ہم چلے آئے ہیں تو ،بھائی نے جواب میں کہا کہ نہیں واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک بار عظیم (بھائی کا کلاس فیلو)نے دال چاول منگوائے تھے،اتفاق سے دال کے ساتھ ایک عدد چکن کی بوٹی بھی ہوٹل والے سے غلطی سے ڈل گئی ،اب یہ اسی چکر میں یہاں کھانا کھانے آتا ہے کہ شائد پھر کبھی وہی غلطی دوکاندار دوہرا دے۔

میری متعدد بار ورکشاپ میں شمولیت کی نیت سمجھ تو گئے ہوں گے۔
میری ذاتی رائے میں بچے آن لائن کلاس ضرور لیں لیکن کبھی کبھار والدین کو بھی بچوں کی ”کلاس“لینی چاہئے تاکہ وہ لائن پہ رہیں۔وگرنہ سمارٹ فون انہیں کسی وقت بھی ”آف لائن “کر سکتا ہے اور ایام جوانی میں ہی بچے کا آف لائن ہو جانا کوئی بھی گل کھلا سکتا ہے۔اسی لئے اس بات کا پتہ رکھنا ضروری ہے کہ وہ جو آن لائن ہے وہ گل بہار ہے یا گل خان۔

ایک روز کلاس میں بچوں کو آن لائن کلاس کی افادیت سمجھارہا تھا کہ ایک بچہ نے ایسا سوال داغ دیا کہ یقین جانئے روح تک کانپ گئی۔بچہ نے کہا کہ سر سات دہائیوں سے ہمارے راہنماؤں سے پاکستان تو راہ راست پہ آیا نہیں اور ہم سے آپ سات ماہ میں امید لگائے بیٹھے ہیں کہ ہم ٹھیک ہو جائیں۔بچہ کا جواب واقعی لمحہ فکریہ تھا لیکن لیکن ان لوگوں کے لئے جن کو پاکستان کی فکر دامن گیر ہو؟یقین جانئے جب ہم سب ”آن لائن“ ہو گئے تو پھر پاکستان کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔انشا اللہ

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :