
جو دم غافل
جمعرات 22 اکتوبر 2020

مراد علی شاہد
(جاری ہے)
ہمارے اپنے مذہب میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ کوئی اللہ کی تلاش میں جنگلوں کا رخ اختیار کر لیتا ہے تو کوئی لباس ومکان سے تہی دامن ہو کر،کوئی زندگی بھر بال اور ناخن نہ ترشواکر،اور کوئی عمر بھر کا بن باس لے کر چاہتا ہے کہ اسے اللہ مل جائے یا اللہ کا دیدار نصیب ہو جائے۔
جبکہ بایزید بسطامی فرماتے ہیں کہ میں چالیس برس خدا کی تلاش میں رہا جب میں نے اسے پا لیا تو معلوم ہوا کہ وہ مجھ سے پہلے میری تلاش میں تھا۔یعنی وہ تو شہ رگ کے قریب ہو کر تمہارے دلوں میں بستا ہے۔اللہ نے دین اسلام کی خوبصورتی اسی میں رکھی ہے کہ اس نے رہبانیت کو ختم کر کے معاشرتی زندگی کا مکمل درس دیا اور حقوق العباد پر زور دے کر لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب کردیا۔اسی لئے تو صوفیا اکرام فرماتے ہیں کہ اللہ کو حاصل کرنے کا مختصر ترین راستہ لوگوں کی خدمت میں پوشیدہ ہے۔گویا آپ ذاتِ باری تعالی سے ملنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے آپ کو معاشرتی بے زاری کی ضرورت نہیں ہے۔فرمایا ”اپنے گھر میں بیٹھ کر اللہ کو یاد کرو تمہیں مل جائے گا“اللہ تو اس قدر انسان کے قریب ہے کہ فرمایا کہ ”نحن اقرب من حبل الورید“بس اس کے نیت صالح کی ضرورت ہے۔اللہ آپ سے دور نہیں بلکہ ہمہ وقت آپ کے ساتھ ہوتا ہے۔اور آپ سے ملنے ک ابھی منتظر رہتا ہے مگر یہ انسان ہی ہے جو تھوڑی سے عزت،شہرت،وقار،دولت اور طاقت مل گئی تو انسان اور اللہ دونوں کو بھلا بیٹھتا ہے۔تو پھر خود ہی سوچیں کہ جس دل میں ایسے تکبرات ہوں گے وہ اللہ کامسکن کیسے ہو سکتا ہے۔وہ جو ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتا ہے ذرااس کی بندوں سے محبت کا اندازہ تو لگاؤں کہ تم چل کر اس کی طرف جوتے ہو مگر وہ دوڑ کر آپ کی طرف آتا ہے۔تم جب اس کی ذات کے ہو جاتے ہو تو پھر وہ تمہارے کان،ہاتھ ،پاؤں زبان اور آنکھ بن جاتا ہے،اس لئے ہمارے دین کا فلسفہ ہی ملانا ہے۔آسانیاں تقسیم کرنا اور خوش خبریاں دینے کا نام اسلام ہے۔
الذی یسراً بشروا الا تنفروا(دین میں آسانی ہے لوگوں کو خوش خبری سناؤ بھگاؤ نہیں۔
لہذا رب کائنات سے ملنے کا واحد حل یہ ہے کہ جیسے ذات اقدس بندوں سے پیار کرتی ہے ویسے ہی بندے کو چاہئے کہ وہ خالصتا اسی ذات کو ہو جائے،اٹھتے ،بیٹھتے،چلتے پھرت،لیٹے ہر دم اسی کا ورد کرے اور اسی کے نام کی مالا جپے۔اس لئے کہ وہ رحمت کے نزول میں کسی قسم کا حساب نہیں رکھتا تو پھر ہم کیوں اس کی حمدوثنا بیان کرتے ہوئے تسبیحات کی مالا لے بیٹھتے ہیں۔
چاہت وچ حساب نئیں ہوندی
شرک را در خوف مضمر دیدہ است
سانوں مرشد ایہو سکھایا
الا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔۔۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ خدا کی نا شکری سے بچا جاسکے تو اس آئت کی عملی تفسیر بن جاؤ”تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا“۔ضروری نہیں کہ اس کے لئے آپ گلے میں مالائیں ڈال کر،سبز چوغے زیب تن کر کے،ہاتھوں میں آہنی کڑے پہن کر نگر نگر کے مسافر بن جاؤ،ایسا بالکل بھی نہیں کیوں کہ ایسا کرنے سے نہیں بلکہ خدا کی یاد کو دل میں بسانے سے دلوں کو راحت وسکون نصیب ہوتا ہے۔اللہ فرماتا ہے کہ
”جو لوگ ایمان لاتے اور جن کے دل یادِ خدا سے آرام پاتے ہیں سن رکھو کہ خدا کی یاد سے دل آرام پاتے ہیں“اور”اپنے پروردگار کو دل میں عاجزی اور خوف سے پست آواز میں صبح وشام یاد کرتے رہو اور دیکھنا غافل نہ ہونا“لیکن یہ سب تبھی ممکن ہوتا ہے جب بندے صبح ومسا اسی کے نام کی مالا جپتے رہیں۔کیوں کہ جو د م غافل ہوگا وہی کافر ہوگا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
مراد علی شاہد کے کالمز
-
برف کا کفن
بدھ 12 جنوری 2022
-
اوورسیز کی اوقات ایک موبائل فون بھی نہیں ؟
منگل 7 دسمبر 2021
-
لیڈر اور سیاستدان
جمعہ 26 نومبر 2021
-
ای و ایم اب کیوں حرام ہے؟
ہفتہ 20 نومبر 2021
-
ٹھپہ یا بٹن
جمعہ 19 نومبر 2021
-
زمانہ بدل رہا ہے مگر۔۔
منگل 9 نومبر 2021
-
لائن اورکھڈے لائن
جمعہ 5 نومبر 2021
-
شاہین شہ پر ہو گئے ہیں
جمعہ 29 اکتوبر 2021
مراد علی شاہد کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.