حسنِ باطل

بدھ 28 اکتوبر 2020

Murad Ali Shahid

مراد علی شاہد

اگر سوانح سقراط کا مطالعہ کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ماؤس جو کہ ایک کمہار تھا اس کی شخصیت اور باتوں کا سقراط کی شخصیت پر گہرا اثر دکھائی دیتا ہے بلکہ یوں کہا جائے تو مناسب ہو گا کہ سقراط کی شاہراہِ حیات کا موڑ ماؤس کوزہ گر تھا۔سقراط اپنا سارا فارغ وقت ماؤس کے پاس بیٹھ کر اسے برتن بناتے ہوئے دیکھتا رہتا تھا۔خاص کر اسے صراحیوں میں بہت دلچسپی تھی کہ ماؤس کے ہاتھ میں کیا ایسا جادو ہے کہ ہر صراحی ہرتناسب سے مکمل اور اچھی معلوم ہوتی تھی۔

ایک دن ماؤس نے کہا کہ دیکھو سقراط صراحی کتنی حسین اور خوبصورت ہے ۔اس بات پر سقراط اور ماؤس میں بحث چل نکلی کہ صراحی کس طرح خوبصورت ہوسکتی ہے۔ماؤس کی یہ بات سقراط کے دل کو لگی جس نے سقراط کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔

(جاری ہے)


”سقراط جاننا یا علم حاصل کرنا بہت اہم ہے اور علم کے لئے مطالعہ بہت ضروری ہے جب تمہیں علم ہو جائے گا تو پھر صراحی کی خوبصورتی بھی نظر آنا شروع ہو جائے گی“
بس اس ایک فقرہ نے سقراط کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا۔

جستجو کو بڑھایا اور پھر سقراط نے ساری زندگی علم،تحقیق اور جستجو میں گزار دی۔سقراط کے باپ کا نام سونوفرونکس تھا اور وہ ایک سنگ تراش تھا ایک بار سونوفرونکس کسی فوارے کے لئے شیر کا سر بنا رہا تھا اور سقراط اپنے باپ کی مدد کر رہا تھا ،سقراط نے پوچھا کہ آپ کو کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ کتنی ضرب لگانے سے شیر کی شکل بن جائے گی تو سونوفرونکس نے جواب دیا کہ اس کے لئے سب سے پہلے تمہیں پتھر کے اندر شیر کو دیکھنا ہوگا۔

پھر تمہیں اسے زائد پتھروں سے آزاد کرنا ہوگا۔سقراط نے اس واقعہ سے اندازہ لگایا کہ جب تک تم کسی کے باطن کو نہیں جان لو گے اس وقت تک کسی بے کار پتھر کو بھی کارآمد نہیں بنا سکتے۔مگر جب تم کسی کے باطن کو جان لینے کی صلاحیت کو پا لو گے تو پھر تم پتھر سے بھی خوبصورت مورتیاں بنا سکتے ہو۔گویا حسنِ باطن کو جاننے کے لئے خوبصورت یعنی دیکھنے والی آنکھ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ بات بھی طے ہے کہ جب کسی کے اندر کا حسن آپ کو نظر آجائے تو پھر ظاہری آرائش و زیبائش بے معنی دکھائی دیتی ہے۔بالکل ویسے ہی جیسے سانولی لیلیٰ کا چہرہ قیس کو دنیا کا حسین ترین چہرہ لگتا تھا۔کہ حسن تو دیکھنے والے کی آنکھ میں پوشیدہ ہوتا ہے۔سقراط کی خود کی ہی مثال لے لیں کہ آج جس کے اقوال کو بطور دلیل استعمال کرتے ہوئے بڑے بڑے لوگ خود کو فلاسفر وں کی صف میں کھڑا دیکھتے ہیں وہ بذات ِ خود خوبصورت یا وجیہہ شخص نہیں تھا وہ معمولی شکل وصورت کا مالک تھا بلکہ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ وہ ایک بد صورت انسان تھا۔

مگر اس کی بد صورتی میں دنیا کا سارا حسن پوشیدہ تھا۔کیونکہ اس کی آنکھ کے اندر دیکھنے والی قوت بہت حسین تھی۔
سقراط نے اپنی اندرونی خوبصورتی یعنی حسن باطل کو منوایا جب ایتھنز کے لوگ ظاہری حسن وجمال کے قائل تھے مگر سقراط کا جسم تو بے ڈول اور بھدا تھا۔جس کی وجہ سے اس کے سب دوست اسے frog face کہہ کر پکارتے تھے۔سقراط ان باتوں سے بالکل نہیں گھبرایا بلکہ انہیں سمجھاتا رہا کہ اگرچہ میں وجیہہ شخصیت کا مالک نہیں ہوں تاہم میرا باطن بہت خوبصورت ہے تم لوگ میرے چہرے کو نہیں میرے اندر پوشیدہ علم کے رازوں کو جاننے کی کوشش کرو۔

میرے اندر کے حسن کی تلاش کرو،میرا باطن بہت خوبصورت ہے۔وہ کہا کرتا تھا کہ
”اگرچہ میری گردنمیرے کندھوں کے اندر دھنسی ہوئی ہے میری داڑھی بھی بے ترتیب ہے،ناک چپٹی ہے،پیشانی چھوٹی ہے لیکن اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے“۔ان ظاہری بد صورتیوں کے باوجود ایتھنز میں سقراط سے زیادہ نیک اور ذہین شخص کوئی نہ تھا کہ لوگ اس کی بات سنتے تھے۔

مانتے تھے اور ایک حلقہ ہر وقت اس کے ساتھ ساتھ رہتا تھا ۔وہ حمام پر ،پہلوانوں کے اکھاڑے میں،چوراہوں اور موچی کی دوکان پر بھی بیٹھ جاتا تو ایک ہجوم اس کے ارد گرد منڈلانے لگتا۔اور اس کی باتوں کو غور سے سنتا۔کیونکہ ایتھنز کے لوگوں کا خیال تھا کہ وہ ایک متوازن فکر رکھنے والا ذہین انسان ہے اور پورے ایتھنز میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔یہ سب اس لئے تھا کہ سقراط کے اندر جو ایک حسن تھا وہ اس کی سچائی تھا۔

وہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا تھا بلکہ دوسروں کی تکالیف کو بہت برداشت کرتا تھا۔اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ زہر کا پیالہ پینے کی سزا سے قبل سقراط کو بلا کر دو باتیں اس کے سامنے رکھیں۔
ملک چھوڑ کر کہیں اور جا کر آباد ہو جاؤ
زہر کا پیالہ اپنے ہاتھوں سے پی لو
سقراط چاہتا تو ملک بدری کو منتخب کر سکتا تھا ۔یہ راستہ اس لئے نہیں اپنایا اس نے کہ وہ سمجھتا تھا کہ زہر پینے سے انکار کا مطلب راہ فرار کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی لوگوں کے دلوں میں تقویت دینا ہے کہ سقراط سچا نہیں بلکہ جھوٹا انسان تھا اسی لئے اس نے راہ فرار کا انتخاب کیا۔

سقراط نے اپنی سچائی کو دنیا پر ثابت کرنے کے لئے زہر کے پیالہ کو اپنے ہاتھوں سے پی کر ہمیشہ ہمیشہکے لئے اپنے آپ کو دنیا کی نظروں میں زندہ و جاوید کر لیا۔
عین ممکن تھی جان بخشی اس کی
بات کہہ کر مکر کیا ہوتا
زہر عمرِ خضر بھی دیتا ہے
ورنہ سقراط مر گیا ہوتا
بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ جب اسے زہر کا پیالہ پینے پر مجبور کیا گیا تو پاس کھڑے دوست اور خواتین نے رونا شروع کردیا،سقراط نے کہا کہ پہلے ان لوگوں کو جیل سے کال دو،میں تب زہر کا پیالہ نوش کروں گا۔

یہ کہہ کر اس نے اپنے دوست کے ہاتھ سے پیالہ لیا اور اس کی طرف دیکھ کر کہا کہ ”تم دنیا کے شریف ترین اور نیک انسان ہو“یہ سنتے ہی وہ شخص دیوار کے ساتھ لگ کر زارو قطار رونے لگا۔اس کا رونا سقراط کے کہے ہوئے سچ کی دلیل ہے کہ وہ شخص واقعی دل سے نہیں چاہتا تھا کہ سقراط زہر کا پیالہ پئے۔یہی حسنِ باطن ہے کہ جس کے بارے میں وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ ”خوبصورتی ظاہری نہیں اندر کی ہوتی ہے“

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :