بے ہنگم آبادی کا عفریت۔۔۔

جمعرات 11 جولائی 2019

Musharraf Hazarvi

مشرف ہزاروی

کسی بھی ملک یاخطے میں موجودوسائل اورآبادی میں عدم توازن بہرصورت گھمبیرمسائل اورخطرات کوجنم دیتاہے جس کے لیے باشعورقومیں آبادی اوروسائل میں توازن کے لیے منظم منصوبہ بندی کو ترجیح دیتی آئی ہیں مگربدقسمتی سے پاکستان میں سنگینی کے باوجوداس مسئلہ کو وہ اہمیت ووقعت نہیں دی گئی جس کا یہ متقاضی رہا ہے۔اس وقت دنیاکی آبادی جس سرعت سے بڑھ رہی ہے وہ یقیناخطرناک ہے اوروطن عزیز21کروڑکے لگ بھگ آبادی کے ساتھ دنیامیں سب سے زیادہ آبادی کے حامل ممالک میں چھٹے نمبرپرہے آبادی میں اضافے کی یہی رفتاررہی تو آئندہ30سالوں میں پاکستان کی آبادی40کروڑسے بھی تجاوزکر سکتی ہے اورپھرآبادی میں یہ متوقع و بے ہنگم اضافہ مزیدمتعددسنگین مسائل کا باعث ہوسکتاہے یہ ہی وجہ ہے کہ حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے بھی ملکی آبادی میں بے ہنگم اضافے اوراس سے جڑے مسائل کانوٹس لیتے ہوئے ٹاسک فورسزقائم کر کے نہایت اہمیت کے حامل اس مسئلہ سے نمٹنے کی ہدایات بھی جاری کی گئیں جوبجاطورپرایک اہم قومی ضرورت اورمسئلہ بھی ہے کہ بے تحاشابڑھتی ہوئی آبادی کوکنٹرول کر کے حکومتی سطح پر آبادی اوروسائل میں توازن کے لیے موثرحکمت عملی وضع کی جائے تا کہ بے ہنگم آبادی کا عفریت وطن عزیزکے پہلے ہی سے خط غربت سے نیچے زندگی بسرکرنے والے افرادکی تعداداورابترصورتحال میں مزیداضافہ کاباعث نہ بن سکے۔

(جاری ہے)

اس حوالے سے قریباسات ماہ پہلے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ہی حکم پر ایک سمپوزیم کا اہتمام کیاگیاجس میں وزیراعظم پاکستان عمران خان مہمان خصوصی تھے جب کہ عالمی شہرت یافتہ مبلغ اسلام مولاناطارق جمیل سمیت دیگرنامورمذہبی اسکالرودیگرماہرین نے وطن عزیزکی آبادی میں بے ہنگم اضافے پرقابوپانے اورآبادی ووسائل میں توازن قائم کرنے کے لیے موثرمنصوبہ بندی وقومی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت پر زوردیاجس سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ موجودہ حکومت اس اہم قومی مسئلے کی حساسیت سے نہ صرف پوری طرح آگاہ بلکہ اس سے نمٹنے کے لیے پوری طرح تیار بھی ہے تاہم ضرورت اس امر کی ہے کہ بڑھتی ہوئی آبادی پرقابوپانے کے لیے ماضی میں جو غفلت اورتساہل برتاگیا اس سے گریزاورجملہ اسٹیک ہولڈرزکواعتمادمیں لے کرجنگی بنیادی پر اٹھائے گئے اقدامات کے ذریعے آبادی اوروسائل میں توازن پیداکرنے کی اشدضرورت ہے کیونکہ بے تحاشاآبادی نے ہرشعبہ زندگی کے افراد کو اپنی لپیٹ میں لے رکھاہے کہ وطن عزیزمیں آبادی کے بے ہنگم اضافے سے ایک طرف تعلیم،صحت،پانی اورتوانائی جیسی بنیادی ضروریات پوراکرنے کاچیلنج درپیش ہے تودوسری طرف آبادی میں اضافے کا مسلسل دباؤمواصلات،جنگلات اورموسمیاتی تبدیلیوں پر بھی بری طرح اثراندازہورہا ہے اس لیے آبادی میں بے ہنگم اضافے کی سنگین ملکی صورتحال میں توافرادمعاشرہ کے معیارزندگی میں بہتری کا تو تصورہی محال ہے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان 2035/40تک استحکام آبادی کی منزل کے قریب پہنچ جائے گا مگراس کے باوجودموجودہ آبادی کے خدوخال اورساخت کے سبب آئندہ چاردہائیوں تک آبادی میں اضافے کا تسلسل جاری رہے گا اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ آبادی بم جیسے سنگین مسئلہ سے نبردآزماہونے کے لیے تمام حکومتی،نجی،سرکاری اورغیرسرکاری اداروں کو وسیع ترقومی مفادمیں مکمل ہم آہنگی کے ساتھ اپنابھرپورکرداراداکرنے کی ضرورت ہے تا کہ وطن عزیزمیں بسنے والے ہرفردکوزندگی کی بنیادی سہولیات و ضروریات میسرہوں اوروہ سسک سسک کر زندگی گذارنے پرمجبورنہ ہواس تناظرمیں جہاں ہرفردمعاشرہ کواس سنگین مسئلہ سے نمٹنے کے لیے اپنامثبت کرداراداکرنے کی ضرورت ہے وہیں سب سے زیادہ بھاری ذمہ داری وقت کے حکمرانوں پر عائدہوتی ہے کہ وہ (وفاقی و صوبائی) اپنے اپنے دائرہ کارمیں آبادی اوروسائل میں توازن کے قیام اوروطن عزیزمیں بسنے والے افرادکی بنیادی ضرویات پوری کرنے کے لیے موثرومنظم منصوبہ بندی و حکمت عملی اپنائیں اورپھراس کے نفاذسے ثمرات کی افرادتک ترسیل کابخوبی جائزہ بھی لیں تا کہ آبادی میں بے ہنگم اضافہ کے تدارک اوراس کے ملکی و قومی ترقی پر مہلک اثرات کابھرپورمقابلہ کیاجاسکے۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :