حج

ہفتہ 10 جولائی 2021

Nadia Naveed

نادیہ نوید

(لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ)
{ صحیح بخاری وصحیح مسلم }
“اے اللہ میں تیرے دربار میں حاضر ہوں ، باربار حاضر ہوں ، تیرا کوئی شریک نہیں ہے ، میںتیرے حضور حاضرہوں، اور ساری نعمتیں تیری ہی ہیں اور بادشاہت تیری ہی ہے ، تیرا کوئیشریک نہیں ہے ۔


کس قدر خوبصورت اور جاں قدر الفاظ ہیں جو دل کو چھو جاتے ہیں اور دل اندر سے خود بخود اللہ کی طرف کھچا جاتا ہے (سبحان االلہ)
کعبتہ اللہ عالم اسلام کا قبلہ ہے یہ سعودی عرب کے شہر “مکہ مکرمہ” کی عظیم الشان سر زمین کاشاندار تاج ہے دین کی ابتداء اور قدیم دینی معاملات اسی شہر سے منسوب ہیں اللہ رب العزت نے اس سعادت کی بدولت سعودی عرب کواقتصادی ،معاشرتی اور ادبی لحاظ سے بے پناہ ترقیدی ہے
نبی پاک “صلی اللہ علیہ وسلم”کو اسی شہر مکہ میں مبعوث فرمایا!
لفظ مکہ !
“ مک “یا “ملکک “سے مشتق ہے اور “مک” دکھیلنے اور جذب کرنے کو کہتے ہیں اس کا مطلب کہ لوگ اس شہر مقدس میں طواف اور سعی کرنے میں ایک دوسرے کو دکھیلتے ہیں اور اللہ ان کےگناہ اس سرزمین میں جذب کر دیتے ہیں”
اللہ تعالی کا گھر جس کا طواف اور حج کیا جاتا ہے اسے “کعبہ یا بیت اللہ “کہتے ہیں اور وہ مسجدجس میں بیت اللہ واقع ہے اسے “مسجد حرام”کہتے ہیں
 حج کی تعریف
اللہ تعالی کے گھر کی مقررہ دنوں میں مخصوص عبادتوں کے ساتھ زیارت کرنااور صرف صاحباستعاعت لوگوں پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے
حج کی اقسام!
حج کی تین قسمیں ہیں:
1)حج افراد:  جو حج اکیلا کیا جائے عمرہ ساتھ نہ ہو
2 )حج قران:  حج اور عمرہ دونوں کو ملا کر کیا جائے دونوں کی الٹھی نیت کر کے عمرہ اور پھر حج بغیراحرام کھولے کیا جائے  
3 )حج تمتع : حج کے مہینوں میں پہلے عمرہ کیا جائے اس کےاحرام کھول دیا جائے پھر اسی سال حج کا احرام باندھ کر مقررہ ایام میں حج ادا کیا جائے
اشہر حج!  حج کے مہینے یعنی شوال ،ذیقعد مکمل اور ذی الحجہ کے اول دس
مناسک حج ایک نظر میں!
حج کا پہلا دن :  ۸ ذی الحجہ سے مکہ سے منی روانہ
رات منی میں قیام
حج کا روسرا دن :  فجر کی نماز منی میں ادا کر کے عرفات کو روانگی -ظہر کی نماز عرفات میں ادا کرنی-
وقوف عرفات  -عصر کی نماز بھی عرفات میں ادا کرنا -
مغرب کے وقت نماز ادا کیے بغیر مزدلفہ روانگی -مغرب اور عشاء کی نمازیں مزدلفہ میں ادا کرنی  -رات مزدلفہ میں قیام-
حج کا تیسرا دن : مزدلفہ میں فجر کی نماز کے بعد منی کو رونگی  -پہلے بڑے شیطان کو رمی-  پھر قربانی کرنا- سر کے بال منڈوانا  -طواف زیارت کے لئے مکہ جانا اور رات مکہ میں قیام -
حج کا چوتھا دن :  منی میں رمی کرنا زوال کے بعد سے۔

(جاری ہے)

چھوٹے شیطان کی- پھر درمیانے شیطان کی -پھر بڑے شیطان کی اور رات منی میں قیام-
حج کا پانچواں دن :  منی میں رمی کرنا زوال کے بعد سے۔ پہلے چھوٹے شیطان کو -پھر درمیانےکو اور پھر بڑے کو۔
حج کی فضیلت و اہمیت :
حج اسلام کے ارکان کا بنیادی رکن ہے یہ زندگی میں صاحب استطاعت لوگوں پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے حج اجتماعیت ،یگانگت اور اتحاد مسلمہ کی منظم تصویر ہے مسلمان اپنے تمام معاملات زندگی کو پس پشت ڈال کے اللہ کی عبادت اور اسکی ربوبیت کے سائے تلے اپنے وطن اور گھر بار کو چھوڑ کے سارے رشتے ناطوں کو اپنے سے دور کر کے کچھ عرصے کے لئے اللہ کےعظیم الشان گھر کی چاہت میں اپنے آپ کو اور اپنے مال اسباب کا نذرانہ پیش کرتا ہے اور یہ صرف اور صرف اس رب غفورالرحیم اور قادر مطلق شہنشاہ کائنات کی محبت اور تڑپ کی بدولت ہے وہ مالک الملک ہے اپنی ذات میں مکمل اور خالق دو جہان ہے وہ اعلی و اونچا شان و شوکت والا رب ہے اس کا جلال اس کے کعبے سے ٹپکتا ہے اس کا حسن مکہ اور مدینہ کی وادیوں میں پنہاں ہے اسکی محبت کی لذت اس کے شہروں میں عبادات سے محسوس ہوتی ہے
حج کا مقصد مسلمانوں کے گناہوں کو دھونا ہے اور انہیں ایک پلیٹ فارم پہ ایک جیسا لباس پہناکے اور ایک دوسرے سے جذبہ محبت کا درس دے کے ان میں انسانیت اور اخلاقیات کے اعلی اوصاف کی ترویج بھی ہے اللہ کی ذات وحدہ لا شریک ہے اور حج میں اس ذات کی عبادت اورصرف اور صرف اسکی وحدانیت کا اقرار ہے !
حج کی فضیلت کے حوالے سے قرآن پاک اور احادیث  ہی سب سے ذیادہ مستند اور مکمل ہیں!
ولله على الناس حج البيت من استطاع إليه سبيلا ومن كفر فإن الله غني عن العالمين۔

(القرآن)
ترجمہ:اور اللہ پاک نے ( سورہ آل عمران میں ) فرمایا لوگوں پر فرض ہے کہ اللہ کے لیے خانہ کعبہ کا حج کریں جس کو وہاں تک راہ مل سکے۔ اور جو نہ مانے ( اور باوجود قدرت کے حج کو نہ جائے ) تو اللہ سارے جہاں سے بے نیاز ہے
حج کی فضیلت- احادیث نبویؐ کی روشنی میں:۔
ذیل میں چند احادیث پر مبارکہ بطورِ مثال بیان کی جاتی ہیں جن سے حج کی فضیلت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جائے گی۔


۰حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ سے سوال کیا گیاکہ کون سا عمل افضل ہے؟ آپؐ نے فرمایا:ترجمہ:۔ ’’اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا‘‘۔ کہاگیا: پھر کون سا؟ فرمایا: ’’اللہ کی راہ میں جہاد‘‘۔ کہا گیا: پھر کون سا؟ فرمایا: مقبول حج۔‘‘۰حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:ترجمہ:۔

حج اور عمرہ کرنے والے اللہ کےمہمان ہیں‘ اگر وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتا ہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو اُن کو بخش دیتا ہے۔‘‘۰ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ کہ میں نے رسول اللہؐ کو یہ فرماتے سنا:ترجمہ:۔ اللہ کے مہمان تین ہیں : جہاد کرنے والا‘ حج کرنے والا اور عمرہ کرنے والا۔‘‘
اَلْحُجَّاجُ وَالْعُمَّارُ وَفْدُ ﷲِ. إِنْ دَعَوْهُ أَجَابَهُمْ، وَإِنِ اسْتَغْفَرُوْهُ غَفَرَ لَهُمْ.
’’حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالیٰ کے مہمان ہیں، وہ اس سے دعا کریں تو ان کی دعا قبول کرتاہے اور اگر اس سے بخشش طلب کریں تو انہیں بخش دیتا ہے۔

‘‘
ابن ماجه، السنن، 2: 9، رقم: 2892
حجاج کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ دَخَلَ الْبَیْتَ دَخَلَ فِي حَسَنَةِ وَخَرَجَ مِنْ سَیِّئَةِ مَغْفُوْرًا لَهُ.
’’جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوگیا وہ نیکی میں داخل ہوگیا اور برائی سے خارج ہو کر مغفرت پاگیا۔ضرت سہل بن سعد سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَا مِنْ مُسْلِمٍ یُلَبِّي إِلَّا لَبَّی مَنْ عَنْ یَمِینِهِ أَوْ عَنْ شِمَالِهِ مِنْ حَجَرٍ أَوْ شَجَرٍ أَوْمَدَرٍ حَتَّی تَنْقَطِعَ الْأَرْضُ مِنْ هَاهُنَا وَهَاهُنَا.
’’جب کوئی مسلمان تلبیہ کہتا ہے اس کے دائیں بائیں تمام پتھر، درخت ڈھیلے تلبیہ کہتے ہیں، یہاں تک کہ زمین اِدھر اُدھر (مشرق و مغرب) سے پوری ہو جاتی ہے۔

‘‘
ترمذي، السنن، 3: 189، رقم: 828 ترمذي، السنن، 3: 189، رقم: 828
خطبہ حجۃ الوداع
”سب تعریف اللہ ہی کے لیے ہم اسی کی حمد کرتے ہیں۔ اسی سے مدد چاہتے ہیں۔ اس سے معافی مانگتے ہیں۔ اسی کےپاس توبہ کرتے ہیں اور ہم اللہ ہی کے ہاں اپنے نفسوں کی برائیوں اور اپنے اعمال کی خرابیوں سے پناہ مانگتے ہیں۔ جسے اللہ ہدایت دے تو پھر کوئی اسے بھٹکا نہیں سکتا اور جسے اللہ گمراہ کر دے اس کو کوئی راہ ہدایت نہیں دکھا سکتا۔

میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ ایک ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اس کا بندہ اور رسول ہے۔
اللہ کے بندو! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی تاکید اور اس کی اطاعت پر پر زور طور پر آمادہ کرتا ہوں اور میں اسی سے ابتدا کرتاہوں جو بھلائی ہے۔
لوگو! میری باتیں سن لو مجھے کچھ خبر نہیں کہ میں تم سے اس قیام گاہ میں اس سال کے بعد پھر کبھی ملاقات کر سکوں۔


ہاں جاہلیت کے تمام دستور آج میرے پاؤں کے نیچے ہیں؛ عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر، سرخ کو سیاہ پر اور سیاہ کوسرخ پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقویٰ کے سبب سے ۔
خدا سے ڈرنے والا انسان مومن ہوتا ہے اور اس کا نافرمان شقی۔ تم سب کے سب آدم کی اولاد میں سے ہو اور آدم مٹی سے بنے تھے۔
لوگو! تمہارے خون تمہارے مال اور تمہاری عزتیں ایک دوسرے پر ایسی حرام ہیں جیسا کہ تم آج کے دن کی اس شہر کی اور اس مہینہ کی حرمت کرتے ہو۔

دیکھو عنقریب تمہیں خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے اور وہ تم سے تمہارے اعمال کی بابت سوال فرمائے گا۔ خبردار میرے بعد گمراہ نہ بن جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں کاٹتے رہو۔
جاہلیت کے قتلوں کے تمام جھگڑے میں ملیامیٹ کرتا ہوں۔ پہلا خون جو باطل کیا جاتا ہے وہ ربیعہ بن حارث عبدالمطلب کے بیٹے کا ہے۔ (ربیعہ بن حارث آپ کا چچیرا بھائی تھا جس کے بیٹے عامر کو بنو ہذیل نے قتل کر دیا تھا)
اگر کسی کے پاس امانت ہو تو وہ اسے اس کے مالک کو ادا کر دے اور اگر سود ہو تو وہ موقوف کر دیا گیا ہے۔

ہاں تمہاراسرمایہ مل جائے گا۔ نہ تم ظلم کرو اور نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ اللہ نے فیصلہ فرما دیا ہے کہ سود ختم کر دیا گیا اور سب سےپہلے میں عباس بن عبدالمطلب کا سود باطل کرتا ہوں۔
لوگو! تمہاری اس سرزمین میں شیطان اپنے پوجے جانے سے مایوس ہو گیا ہے لیکن دیگر چھوٹے گناہوں میں اپنی اطاعت کئے جانے پر خوش ہے اس لیے اپنا دین اس سے محفوظ رکھو۔


اللہ کی کتاب میں مہینوں کی تعداد اسی دن سے بارہ ہے جب اللہ نے زمین و آسمان پیدا کئے تھے ان میں سے چار حرمت والے ہیں۔ تین (ذیقعد ذوالحجہ اور محرم) لگا تار ہیں اور رجب تنہا ہے۔
لوگو! اپنی بیویوں کے متعلق اللہ سے ڈرتے رہو۔ خدا کے نام کی ذمہ داری سے تم نے ان کو بیوی بنایا اور خدا کے کلام سے تم نے ان کا جسم اپنے لیے حلال بنایا ہے۔ تمہارا حق عورتوں پر اتنا ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر کو نہ آنے دیں لیکن اگر وہ ایسا کریں تو ان کو ایسی مار مارو جو نمودار نہ ہو اور عورتوں کا حق تم پر یہ ہے کہ تم ان کو اچھی طرح کھلاؤ ،اچھی طرح پہناؤ۔


تمہارے غلام تمہارے ہیں جو خود کھاؤ ان کو کھلاؤ اور جو خود پہنو وہی ان کو پہناؤ۔
خدا نے وراثت میں ہر حقدار کو اس کا حق دیا ہے۔ اب کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں۔ لڑکا اس کا وارث جس کے بستر پر پیدا ہو، زناکار کے لیے پتھر اوران کے حساب خدا کے ذمہ ہے۔
عورت کو اپنے شوہر کے مال میں سے اس کی اجازت کے بغیر لینا جائز نہیں۔ قرض ادا کیا جائے۔

عاریت واپس کی جائے۔ عطیہ لوٹا دیا جائے۔ ضامن تاوان کا ذمہ دار ہے۔
مجرم اپنے جرم کا آپ ذمہ دار ہے۔ باپ کے جرم کا بیٹا ذمہ دار نہیں اور بیٹے کے جرم کا باپ ذمہ دار نہیں۔
اگر کٹی ہوئی ناک کا کوئی حبشی بھی تمہارا امیر ہو اور وہ تم کو خدا کی کتاب کے مطابق لے چلے تو اس کی اطاعت اورفرمانبرداری کرو۔
لوگو! نہ تو میرے بعد کوئی نبی ہے اور نہ کوئی جدید امت پیدا ہونے والی ہے۔

خوب سن لو کہ اپنے پروردگار کی عبادت کرواور پنجگانہ نماز ادا کرو۔ سال بھر میں ایک مہینہ رمضان کے روزے رکھو۔ خانہ خدا کا حج بجا لاؤ۔
میں تم میں ایک چیز چھوڑتا ہوں۔ اگر تم نے اس کو مضبوط پکڑ لیا تو گمراہ نہ ہوگے وہ کیا چیز ہے؟ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ۔“
اس جامع خطبہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مجمع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
لوگو! قیامت کے دن خدا میری نسبت پوچھے گا تو کیا جواب دو گے؟ صحابہ نے عرض کی کہ ہم کہیں گے کہ آپ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا اور اپنا فرض ادا کر دیا‘‘۔

آپ نے آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور فرمایا۔’’اے خدا تو گواہ رہنا‘‘۔ ’’اے خدا تو گواہ رہنا‘‘ اے خدا تو گواہ رہنااور اس کے بعد آپ نے ہدایت فرمائی کہ جو حاضر ہیں وہ ان لوگوں کو یہ باتیں پہنچا دیں جو حاضرنہیں ہیں۔
یہ خطبہ ہمارے شہنشاہ عالم ،حضور پر نور ،فخر موجودات ،آقا کل وجہان محمد مصطفی (صل اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے اللہ رباالعزت کے بتائے ہوئے ضابطہ حیات کی ترجمانی ہے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جو آخری حج کیا اسے دو حوالوں سے حجۃ الوداع کہتے ہیں۔

ایک اس حوالہ سے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آخری حج وہی کیا اور اس حوالے سے بھی کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خود اس خطبہ میں ارشاد فرمایا :وَاللَّهِ لاَ أَدْرِي لَعَلِّي لاَ أَلْقَاكُمْ بَعْدَ يَوْمِي هَذَا۔[2] یہ میری تم سے آخری اجتماعی ملاقات ہے، شاید اس مقام پر اس کے بعد تم مجھ سے نہ ملسکوں
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وفات سے تین ماہ قبل آخری حج فرمایا اس موقع پربتاریخ ۹ ذی الحجہ میدان عرفات میں ایک لاکھ مسلمانوں کے اس خطبے میں نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ تمام بنی نوع انسان کو مخاطب کیا گیا ہے اس میں ۷ مرتبہ  اے لوگو ! کے کلمات ارشاد ہوئے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساری دنیا کے لوگوں کوتمام دنیاوی پابندیوں سے آزادی دی اور ان کے حقوق کو انتہائی جامع الفاظ میں عزت دی ہے
یہ خطبہ ہمارا دین ہے اور ہماری زندگیوں کا لائحہ عمل بھی -اسلامی ممالک میں جہاں جہاں مسلمان حکومتیں اس منشور کو اپنے قوانین کا حصہ نہیں بناتی وہاں پر لا قانونیت کی لت عام ہو گئی ہے اس حطبے کے مطابق ہر انسان کی عزت نفس اس کا احترام اس کی جان اور مال کی حفاظت کو  دین قرار دیا گیا ہے یہ نکات انسانی حقوق کے علمبردار ہیں اور یہ خطبہ اپنے اندر پوری انسانیتکو لئے ہوئے ہے یہ مسلمان حکومتوں اور ان کی عدالتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی اورمعاشرتی وجود کی بناء پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہ کریں اور اس خطبے کو اپنے دائرہ کار کامظبوط اور مکمل قانون بنالیں کیونکہ ان کو اپنانے سے ہی اصل معنوں میں اسلامی معاشرہ اور نبیپاک صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہء حسنہ پر مبنی شاندار مقصد حیات حاصل ہوتا ہے
اللہ رب العزت کے نبی کی پیروی اور انسانیت سے پیار ہی دراصل اللہ کی ذات سے پیار ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :