فرقہ واریت‎

جمعرات 27 مئی 2021

Nafeesa Ch

نفیسہ چوہدری

دورِ حاظر میں جہاں اور بہت سے ستم ملاحظہ کرنے کو ملتے ہیں وہاں ایک ستم ظریفی فرقہ واریت کا تکلیف دہ فتنہ بھی ہے۔
یہ چیز شاید فتنہ نہ ہوتی مگر ہمارے حد سے گزر جانے کے رویے نے اسے ایک ایسے دہانے پہ لا کر کھڑا دیا کہ آج جب عالمِ اسلام باقی معاملات میں سوچ و بچار سے گزر رہا ہے اس موضوع نے بھی دل شکن حالات سے دوچار کر دیا۔


سب سے پہلے ہم اس بات کو سمجھنا ضروری سمجھیں گے کہ فرقہ واریت ہے کیا؟
اگر کوٸی بندہ فرقہ واریت کے معاملہ میں سنجیدہ ہے تو وجہ کیا ہے؟
اسلام کا بنیادی اصول و قوانین اور قواٸد و ضوابط تین ہیں۔
جن کی بنیاد پر تکمیلِ ایمان ہوتی ہے۔
عقیدہ توحید۔عقیدہ رسالت۔عقیدہ آخرت
دو اصول وہ ہیں جو حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں شامل کیے جاتے ہیں۔

(جاری ہے)


تعظیم و تکریمِ صحابہ۔حُبِّ اہلِ بیعت
یہ پانچ عقاٸد ایسے ہیں جن پر ہر اہلِ ایمان کا یقینِ کامل ہونا بلکہ اس پہ کاربند رہنا بہت ضروری ہے۔
میرے قارٸین سے چند سوالات ہیں۔
انکا جواب دے دیجیے۔پھر سمجھنا آسان ہوجاٸے گا کہ فرقہ واریت یا پھر تفرقہ بازی ہے کیا اور کیوں ہے؟
عقیدہ توحید ورسالت اور آخرت پہ سب کا یقین ہے
کیونکہ یہ بنیادی عقاٸد ہیں جو آپکو داٸرہ اسلام میں داخل کرتے ہیں
دو عقاٸدہ جو اوپر مذکور ہیں وہ حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں شامل کر لیے گٸے۔


اب اللہ پاک قرانِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے
اطیعوا اللہ و رسولہ
یعنی اطاعت کرو اللہ اور اسکے رسول کی۔
یعنی دونوں چیزیں جہاں بھی آٸی ایک ساتھ آٸی۔
ایک نقطہ تو یہ ہوگیا
دوسرا یہ کہ
وما ینطق عن الھوی
یعنی اللہ کا نبی اپنی مرضی سے کلام نہیں کرتا بلکہ جو اللہ کیطرف سے وحی ہوتی وہی کہتا۔
سادہ الفاظ میں زبانِ مصطفی ﷺ در حقیقت زبانِ خدا ہے۔


اب جب مزید دو عقاٸد زبانِ مصطفی ﷺ کے ذریعے شامل کر لیے گٸے تو ان پہ کاربند رہنا انکا احترام کرنا لازم ہوگیا۔
اب بتاٸیے۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!
کوٸی بھی اہلِ ایمان منبر پہ براجمان ہوجاٸے اور واضح یا ڈھکے چھپے الفاظ میں صحابہ کو لعن طعن کرنا شروع کردے ازواج مطہرت جنہیں قران نے مومنین کے ماٸیں کہا ہے۔انکے خلاف زبان درازی کرے اور یہی نہیں اسے اپنا مذہبی حق سمجھے مزید یہ کہ یہ سارے ستم کرنے کے بعد خود کو معصوم اور مظلوم قرار دے۔


اور ہمارے یہاں لبرل طبقہ اس ظلم کے خلاف ایکشن لینے والوں کو فرقہ واریت کو ہوا دینے کا مجرم قرار دیدے۔
تو یہ کیسا انصاف ہے؟
کہاں کا انصاف ہے؟
اس بندے کے ایمان کی کیا گارنٹی ہے آپکے پاس جس نے شریعتِ مطہرہ اور حدیثِ مبارکہ کی حد بندی کو پامال کیا اور ڈنکے کی چوٹ پہ کیا۔
یہ ایک موضوع تو واضح ہوا۔نہ واضح ہو تو بارہا پڑھیے امید ہے ساری گرہیں کھلنے لگیں گی ۔


دوسرا موضوع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!
قران کہتا ہے جب تم اپنی جانوں پر ستم کر لو تو میرے نبی مکرم کی بارگاہ میں آجاٶ توبہ کرو پھر لازم ہے کہ میرا محبوب بھی آپکی سفارش کرے یعنی آپکے لیے استغفار کرے تو تم اللہ کو ضرور پاٶ گے بخشنے والا مہربان۔
اب قران قیامت تک کے لیے ہے
اس پر تو سب کا آنکھیں بند کر کے یقین ہے ۔
میرا خیال ہے کہ ہمیشہ زندہ کی بارگاہ میں آیا جاتا ہے۔

جو موجود ہو۔سنے، سمجھے آپکو دیکھے وہی آپکی سفارش کرسکتا ہے۔
تو گویا ثابت ہوا کی قیامت تک آنے والے ہر بندے نے بخشش مانگنے کے لیے جانِ کاٸنات کی بارگاہ کا رخ کرنا ہے ۔
جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ عظیم ہستی اپنے روضہ اقدس کے اندر زندہ ہے۔
اب جو بندہ انکے حاضر و ناظر اور زندہ ہونے پر دلیل طلب کرتا ہے۔
وہ قران کی احکام کو جھٹلا رہا ہے۔


اور پھر اسکے بعد وہ کہتا ہے میں نے کیا کیا ہے؟
ہم پہ الزام لگاٸے جاتے ہیں۔ہم بھی اسی اللہ اور رسول کو مانتے ہیں۔
واصف علی واصف کا بڑا خوبصورت جملہ ہے کہ
جنکو تسلیم کر لیا جاٸے انکی تحقیق نہیں کی جاتی۔
یہ جملہ کہیں نہ کہیں قران سے لیا گیا ہے۔
اور جب بندہ حاضر و ناظر،علمِ غیب، نورو بشر وغیرہ کی بحث میں الجھا رہے اور پھر ثابت یہ کرنا چاہے کہ وہ حق پہ ہے۔

یہ ستم نہیں تو کیا ہے۔
یہ کیسا ایمان ہے جسمیں قران کے واضح احکامات کے باوجود شکوک و شہبات کو عُنصر پایا جاتا ہے۔
آپ ان تمام معاملات کی گہراٸی میں اتر کر دیکھیے تو معلوم ہوگا کہ جس فرقہ واریت کا الزام لگا کر،آزادی راٸے اور اپنے حقوق کے استعمال کے گمان میں ہم اللہ کی حدود کو پامال کیے جارہے ہیں وہ دراصل ہمارا وہ خسارہ ہے جس سے ہم خود بھی واقف نہیں۔


اسلیے فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے ضروری ہے کہ
جو بنیادی عقاٸد اوپر بتادیے گٸے ان پہ کاربند ہوجاٸیے۔
اللہ کے محبوب کی تحقیق چھوڑ دیجیے فرقہ واریت کا فتنہ اپنی موت آپ مر جاٸے گا۔
ورنہ وہ لوگ جو محبت میں تنقید نہیں کرتے۔حدود کو پامال نہیں کررہے۔اسلام کو عقل سے نہیں بلکہ عشق سے پڑھ رہے ہیں وہ کبھی بھی برداشت نہیں کرینگے کہ اسلام اور قرانی احکامات کی اسقدر تردید کی جاٸے۔


                                                                             فرقہ کسی بھی مذہب، جماعت (سیاسی یا مذہبی ) یا گروپ کا ذیلی حصہ ہوتا ہے جو اپنے الگ خیالات و نظریات کی وجہ سے الگ جانا جاتا ہے ۔اللہ تعالی فرماتا ہے"واعتصموا بحبل الله جميعا ولا تفرقوا،، اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔واضح رہے کہ اسلام کے بنیادی عقائد اور عبادات پر اکثریت کا اتفاق ہے مگر فروعی اختلافات کی شدت نے نفاق کے بیج بو دیئے ہیں تفرقہ کے خلاف موثر ترین ڈھال قرآن مجید ہے آہ افسوس صد افسوس!آج جو تفرقہ سب سے زیادہ اور سب سے خطرناک ہے وہ دین اسلام کے نام پر ہے خانہ جنگی کے ذریعے تباہی پھیلائ جا رہی ہے اغیار مسلمانوں کے وجود کو ختم کرنے کے درپے ہیں ملحدانہ اقدامات کے ذریعے عقائد کو متزلزل کیا جا رہا ہے لبرل اور سیکولر ذہن کے حامل افراد بڑے پیمانے پر دین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں مشہور مفسر ابو العالیہ فرما تے ہیں "حب دنیا،اقتدار کی چاہ اور سلطنت کی محبت سے تفرقہ ظاہر ہوا ۔

تفرقہ کی بڑی وجہ ضد ہے موجودہ دورمیں ۔غلو بھی تفرقہ بازی کا سبب ہے  اللہ تعالی نے دین میں غلو سے منع فرمایا ہے "يا أهل الكتاب لا تغلوا فى دینکم ،، اے اہل کتاب دین میں حد سے زائد نہ بڑھو ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا  "ایاکم والغلو فی الدین، ،دین میں غلو سے بچو۔ اس سلسلہ میں لوگ غیر شعوری کیفیت میں مبتلا ہیں اس طرح ہوتا ہے کہ لوگ دین کی خدمت سمجھ رہے ہوتے ہیں مگر در حقیقت وہ دین کا نقصان ہوتا ہے  اتنا ضرور ذہن نشین رہے کہ اختلاف رائے کا نام تفرقہ نہیں ۔

اختلاف رائے تو ایک فطری اور طبعی عمل ہے جس کو نہ مٹایا جا سکتا ہے اورنہ ہی اس کو مٹانا اسلام کی منشاء ہے تفرقہ کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ کلام الہی سے دوری ۔ضرورت  اس امر کی ہے کہ تحمل پیدا کیا جائے عوامی سطح  پر  بھی اور  علماء  کی  سطح پر بھی ۔دیگر مکاتیب فکر  کی آراء کا بھی احترام کیا جائے دین کو جامع تصور حیات سمجھا  جائے ۔ جتنی ہم اپنے  مخالف گروہ سے نفرت کرتے ہیں اس سے کہیں زیادہ ہمیں کفر، مادہ پرستی اور الحاد سے نفرت کرنی چاہیے ۔

دین کے وسیع دائرے کو چھوڑ کر ایک محدود انداز میں عمل کرنے سے تفریق پیدا ہوتی ہے جب بدعات  اور غلط رسومات کے خلاف کام کریں تب بھی قرآنی ترتیب کو ملحوظ خاطر رکھیں سب سے پہلے حکیمانہ انداز اختیار کریں ۔پھر موعظت (نرم وعظ)سے ،پھر اگر نوبت مجادلہ تک جا پہنچے تو تب بھی احسن انداز سے کریں۔ اگر بنظر غور مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ کوئی وعظ نبی و رسول کے وعظ جتنا نرم نہیں ہوسکتا اور کوئی غلط شخص فرعون سے برا نہیں ہو سکتا باوجود اس کے اللہ نے حضرت موسی علیہ السلام کو قول لین کے ذریعے فرعون کو دعوت دینے کی تلقین کی ۔

قرآن کریم کے تذکیری پہلو کو عوام میں بیان کیا جائے ۔کتاب و سنت کا کما حقہ نفاذ کیا جائے فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے مخلص قیادت بھی ضروری ہے حقیقی زندگی میں مذہبی ہونے سے ہی فرقہ واریت کے عفریت پر قابو پایا جا سکتا ہے اسلام کے عادلانہ نظام کو اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کے مطابق نافذ کرنا ہو گا رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری خطبہ پر عمل کرنا ہو گا ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنا ہو گا مذہب کو ہم آہنگی  کے لیے استعمال کرنا ہو گا نہ کہ نفرت کے لئے ۔

تمام متنازعہ مذہبی مواد قبضہ میں لینا ہو گا تعلیم و ترقی پسند تحریک کو فروغ دینا ہوگا ۔مفکر اسلام، حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ صاحب الازہری رح نے فرقہ واریت کے خاتمے اور اتحاد کے قیام کے لئے پانچ نکاتی فارمولا پیش فرمایا (1۔اتحاد کے داعی کواپنی دعوت کی سچائی پر پختہ یقین ہو 2۔زیادتی کرنے والے فریق کو روکا جائے 3۔ھر ایک فریق کو وسیع الظرف ہونا چاہئے 4۔

کسی بھی مکتبہ فکر کے لٹریچر میں اگر کوئی ایسی عبارت ھو جس سے تقدس نبوت پر حرف آتا ہو اسے حذف کر دینا چاہیے 5۔فرزندان اسلام پر کفر و شکر کے فتوے نہ لگائے جائیں ۔)بلا شبہ اسلام ہر قسم کی انتہا پسندی کی نفی کرتا ہے حتی کہ اسلام بزور طاقت دین قبول کروانے سے بھی منع فرماتا ہے ۔فرقہ واریت سے درج ذیل نقصانات رونما ہوتے ہیں ایمان کی کمزوری۔ کفار کا رعب طاری ہو جا ئے گا ۔عزت کا جنازہ نکل جائے گا ۔مسلمانوں کا رعب ختم ہو جائے گا  ۔مسلمان منتشر ہوجائیں گے   ۔کفار کا غلبہ ہوجائے گا ۔دشمن طاقتور ہو جائے گا ۔اسلام کا رعب ختم ہوجائے گا ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :