ہماری آزادی‎‎

جمعرات 12 اگست 2021

Nafeesa Ch

نفیسہ چوہدری

ہر سال ١٤ اگست کے موقع پہ جب ١٤ دن پہلے ہی ہر جشن کا سماں بندھ جاتا ہے۔اطراف کناف میں سبز ہلالی پرچم جھوم جھوم کے ہماری آزادی کے گن گارہے ہوتے ہیں۔
ملی نغمےاور قومی ترانے گلی کوچوں میں ایک جوش اور ولولے بھرے منظرسے سماعتوں کو دلفریبی بخش رہے ہوتے ہیں۔
ایسے میں بہت سے سوال خیال،سوچ اورفکر کی وادیوں میں جنم لینے لگتے ہیں۔


میں اپنے تمام تر حواس کو یکجا کر کے بہت سی گُھتھیوں کو سلجھانے کے کوشش کرنے لگتی ہوں۔
ان تمام خیالات و سوالات میں ایک سوال لبرلز کی جانب سے اٹھایا جاتا ہے کہ ہم لے کے رہیں گے آزادی ۔۔۔۔۔؟
میں نے ہمیشہ ایک بات پہ غور کیا کہ یہ لوگ کس کی نماٸندگی کر رہے ہیں؟
آیا کشمیر میں سسکتی انسانیت کے رستے زخموں پہ مرہم لگانے کی بات کی جارہی ہے یا پھر برما میں بے آبرو ہوتی ہماری بے بس ماٶں بہنوں کی عزت کی حفاظت کے لیے سینے پیش کرنے کی قسمیں کھاٸی جارہی ہیں۔

(جاری ہے)


پھر خیال آیا کہ شاید یہ بیت المقدس کی آزادی کے عہد وپیمان کیے جاریے ہیں۔
مگر پھر آگے ہی لمحے سمجھ میں آیا کہ نہیں ایسا کوٸی درد دور دور تک انکی آنکھوں یا دل میں پنہاں نظر نہیں آتا ہے یہ تو اپنی آزادی کی بات کر رہے انہیں لگتا کہ یہ آج
بھی آزاد نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چلیں آج اس موضوع پہ ہی بات کرلیتے ہیں کہ آزادی کیا ہے؟
اپنے ملک میں اپنی سرزمین پہ بنا کسی روک ٹوک کے سر اٹھا کر سینہ تان کر چلنے کا نام آزادی ہے۔


مساجد کے میناروں پہ بلند آواز سے اگر اذان سناٸی دے رہی ہے اور اسکے بعد گر تم مساجد میں جا کر اٸیرکڈیشنڈ ہالز میں اطمینان سے نماز ادا کر پارہے ہو تو تم آزاد ہو ۔
تمہارے تعلیمی ادارے،تمہارے تہوار،تمہارے تمام ترتاریخی دن آزاد ہیں یعنی کہ آزاد ہو۔
اب ایک نظر ان ممالک  کی جانب جو نماز کے لیے مساجد میں جمع ہوتے ہیں تو حملہ ہوجاتا ہے
کٸی بچے،بوڑھے جوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

چند پل پہلے امن کا گہوارہ دکھنے والی مساجد پل بھر میں کسی قتل و غارت کے میدان کا منظر پیش کرنے لگتی ہیں۔
کٸ دن کرفیو میں گزر جاتے ہیں بلکتے بچوں کی بھوک پیاس کسی در و دیوار پہ آزادی کا لفظ لکھنا تو درکنار آزادی کے مطالبے کے لیے زبان بھی کھلتی ہے تو کٹی پھٹی لاش دلوں کو دہلادیتی ہے۔
اور یہ آزادی کا مطالبہ تم لوگ کرتے پھرتے ہو وہ آزادی کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
اسلام سے آزادی جو تم حاصل کر بھی لو تو تمہاری شناخت،تمہاری پہچان تمہاری اصل مسخ ہوجاتی ہے مگر درحقیقت نہ تم گھر کے رہتے ہو نہ گھاٹ کے۔
دوٹوک اور اٹل بات یہ کہ ہم آزاد ہیں ،ہم آزاد ہیں اپنے اسلام کے مطابق سانس لینے میں،ہم آزاد ہیں اس سرزمین پہ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق زندگی گزارنے میں ،ہم آزاد ہیں کہ جب بھی ہمارے ساتھ کوٸی زیادتی ہو تو آواز اٹھا سکیں،وہ آواز ایوانوں تک نہ پہنچے تو یہ ملکی نظام کی کوتاہی ہے وگرنہ اسکا آزادی یا غلامی سے دور دور کا بھی کوٸی تعلق نہیں۔


یہاں کوٸی ایک درندہ صفت اگر اپنی بری سرشت کے باعث کسی ماں بہن کی عصمت پہ وار کرتا ہے تو ہزاروں نوجوان اس ماں ،بہن کی آواز بنے ہوتے ہیں۔
یہاں ایک بے گناہ قتل ہوتا ہے تواسکا تعلق بھی ہمارے آزاد نہ ہونے سے نہیں بلکہ ضرورت سے زیادہ آزاد ہونے سے ہے۔
بات اگر آزادی کی کروں تو پھر مجھے یہ لکھنے میں کوٸی مبالغہ نہیں لگتا کہ میں قلم کو خون سے بھروں اور پھر کاغذ پہ قاٸد کی کاوشیں رقم کروں اور پھر اس دیوان کے سرِ ورق پہ لکھوں کہ ہم آزاد ہیں اور یہ آزادیِ راٸے لمحہ لمحہ قاٸد کی روح کوسلامِ عقیدت و محبت پیش کرتی ہے۔


جس یورپ سے متاثر ہوکرتم آزادی کی بات کرتے ہو یہاں پہ جب تم ان جیسا لباس پہنتے ہو ،ان جیسالہجہ اپنانے کے کوشش کرتے ہو تو وہ تمہاری احساسِ کمتری پہ ہنستے ہیں ۔
یہاں جس علاقے میں غیر ملکی کی کثرت ہوتی ہے وہاں سے اس ملک کے شہری اور مکین اپنا گھر بدل لیتے ہیں یعنی وہ تمہارے ساتھ رہنا بھی گوارہ نہیں کرتے۔
پھرمحسوس ہوتا ہے کہ اپناملک،اپناگھر اور اپنی سر زمین مان، غرور اور فخر ہوتا ہے۔
میری جانب سے تمام پاکستانیوں کو صرف ١٤ اگست کے موقع پہ ہی نہیں بلکہ ہر لمحہ آزادی مبارک۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :