” 14 اگست 1947ء قربانیوں کی طویل داستان“

جمعہ 13 اگست 2021

Naseem Ul Haq Zahidi

نسیم الحق زاہدی

23مارچ 1940ء وہ تاریخ ساز دن ہے جب لاہور کے منٹو پارک میں ایک تاریخی قرادود منظور کی جسے قراداد پاکستان کے نام سے مشہور ہے اس میں برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے قائد اعظم کی قیادت میں یک آواز مسلمانان برصغیر نے ایک الگ مسلم ریاست پاکستان کا نعرہ بلند کیا اور واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ وہ برسوں سے جاری انگریز ہندو گٹھ جوڑ کے توڑ اور اسلام کی سر بلندی اور اسلامی نظام کے قیام کے لئے ایک الگ ملک کی خاطر تن من و دھن کی بازی لگانے کو تیار ہے ۔

یہ اللہ کا معجزہ ہی تو ہے صر ف سات سال کی قلیل مدت میں ان لاکھوں مسلمانوں نے اپنے لئے آزاد ملک حاصل کرنے کے خواب کو سچ کر دکھایا اور 14اگست1947ء کو دنیا کے نقشے پر پاکستان کے نام سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کا قیام عمل میں آیا ۔

(جاری ہے)

بلاشبہ14 اگست 1947ء تجدید عہد و وفاکا دن ہے جب برصغیر کے 20لاکھ مسلمانوں الگ وطن کے حصول کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے۔

آگ و خون کے اس دریا کوعبور کرکے سب کچھ چھن جانے کے باوجود بالآخر مسلمانوں نے14اگست 1947ء کو قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں آزادی کی دولت حاصل کی۔27رمضان المبارک کو پاکستان کا وجود میں آنا اس بات کی قوی دلیل ہے کہ اس ارضِ پاک کا وجود میں آنا خود اللہ رب العزت کا خاص حکم اورمسلمانانِ ہند کے لیے شبِ قدر کا عظیم تحفہ ہے۔محمد علی جناح نے کانگریس اور مسلم لیگ کو متحد ہو کر تحریک آزادی چلانے پر متفق کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔

جس کی بدولت دسمبر1916ء میں میثاقِ لکھنو منظر عام پر آیا جس نے ان کی مقبولیت میں اضافہ کے ساتھ انہیں ہندو، مسلم اتحاد کا سفیر بھی بنا دیا۔ قائد اعظم کے چودہ نکات کی گونج اقتدار کے ایوان میں مسلمانوں کے سیاسی شعور کی بیداری سمجھی گئی تو خود مسلمان اپنے لائحہ عمل کو متعین کرتے ہوئے تصور آزادی سے روشناس ہوئے جسے جلا بخشنے کا وسیلہ خطبہ الٰہ آبادسالانہ اجلاس مسلم لیگ 1930ء علامہ اقبال کا صدارتی خطبہ بنا۔

انہوں نے اس موقع پر کہا” میری خواہش ہے کہ پنجاب، صوبہ سرحد، سندھ اور بلوچستان کو ملا کر ایک ریاست بنا دی جائے ، سلطنت ِ برطانیہ میں رکھ کر یا اس سے باہر رکھ کر خود مختار طرز حکومت رائج کیا جائے۔ شمالی مغربی مسلم ریاست کا قیام مسلمانوں یا کم از کم شمال مغربی علاقوں کے مسلمانوں کا نوشتہ ء تقدیر ہے“۔اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ علامہ اقبال کے افکار و نظریات اور بابائے قوم محمد علی جناح کے فرمودات سے ہمیں رہنمائی ملی۔

قائداعظم نے اپنے 13اگست 1947ء کے خطاب میں کہا تھا کہ ”اب ہمارے سامنے ایک نئے باب کا آغاز ہورہا ہے ہماری کوشش یہ ہوگی ہم برطانیہ اور ہمسایہ مملکت ہندوستان اور دیگر برادر اقوام کے ساتھ بھی خیر سگالی اور دوستی کے تعلقات استوار کریں اور انہیں برقرار رکھیں تاکہ ہم سب مل کر امن، امن عالم اور دنیا کی خوشحالی کے لئے اپنا عظیم ترین کردار ادا کرسکیں“۔

آپ نے 15اگست 1947ء کو پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس کی افتتاحی تقریب پر قوم کے نام ایک پیغام میں فرمایاتھا کہ ”نئی مملکت کی تخلیق کی وجہ سے پاکستان کے شہریوں پر زبردست ذمہ داری آن پڑی ہے انہیں یہ موقع ملا ہے کہ وہ دنیا کو دکھا سکیں کہ ایک قوم جو بہت سے عناصر پر مشتمل ہے کس طرح امن و آشتی کے ساتھ رہ سکتی ہے اور ذات، پات، عقیدے کی تمیز کے بغیر سارے شہریوں کی بہتری کے لئے کام کرسکتی ہے“۔

”امن اندرون ملک اور امن بیرون ملک ہمارا مقصد ہونا چاہئے، ہم پر امن رہنا چاہتے ہیں اور اپنے نزدیکی ہمسایوں اور ساری دنیا سے مخلصانہ اور دوستانہ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، ہم کسی کے خلاف جارحانہ عزائم نہیں کررکھتے، ہم اقوام متحدہ کے منشور کے حامی ہیں اور امن عالم اور اس کی خوشحالی کیلئے اپنا پورا کردار ادا کریں گے“۔وطن عزیز کی تشکیل جداگانہ مسلم قومیت اور دو قومی نظرئیے کی اساس پر قائم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ” رنگ و نسل، ذات پات، زبان وجغرافیہ“ کا پاکستان کے نظریاتی وجود میں کوئی عمل دخل نہیں،یہی وجہ ہے کہ غیرمنقسم ہندوستان کے مسلمانوں نے ایک مسلم قوم کی حیثیت میں ہر امتیاز سے بالاتر ہو کر اپنا حق خودارادیت مطالبہ پاکستان کی تائید میں استعمال کیا جس کا اظہار انہوں نے46 1945-ء کے انتخابات میں رائے دہی کے ذریعے بھی کیا تھا۔

قیام پاکستان کے بعد دوقومی نظرئیے کو مسلمانان برصغیر اور قائداعظم کی بصیرت کے مطابق تشریح کی ضرورت تھی لہٰذا وزیر اعظم لیاقت علی خان نے9مارچ1949ء کو قراردادمقاصد دستورساز اسمبلی میں پیش کی جو 12مارچ کو منظور ہوئی ، درحقیقت یہی قراردادمقاصد ہی ”نظریہ پاکستان “کی قانونی اور آئینی شکل ہے کیونکہ اس کے مطابق جہاں تمام شہریوں کو حکومت سازی میں یکساں رائے دہی کا حق حاصل ہے وہیں ملک میں رواداری اور برداشت کے ماحول کا فروغ ریاست کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔

امن اور خوشحالی قائداعظم کی خارجہ پالیسی کا بنیادی اصول تھا۔قائداعظم نے ایک اور جگہ ارشاد فرمایاکہ ”اے میرے ہم وطنو آخر میں آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان بیش بہا وسائل کی سرزمین ہے لیکن اس کو ایک مسلم قوم کے شایان شان بنانے کیلئے ہمیں اپنی تمام توانائیوں کی ضرورت ہوگی“لیکن مقام افسوس کہ پاکستان آج بیش بہا وسائل کے باوجودمفاد پرست حکمرانوں کی ریشہ دوانیوں کے باعث زوال پذیر ہے۔

قائد اعظم نے اسوئہ حسنہﷺ (امانت، دیانت، صداقت اور شجاعت) پر عمل کرکے دکھادیا۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں اور یہ سب ہمارے اسلاف کی قربانیوں کا ہی ثمر ہے۔ لمحہ ء فکریہ تو یہ ہے کہ جس عوام کی خوشحالی اور استحصالی قوتوں سے نجات کے لئے بانیان پاکستان نے ایک آزاد مملکت کے حصول کا خواب ممکن بنایا تھا وہ تو قیام پاکستان سے لیکر اب تک اس مکمل آزادی کا تصور ہی نہیں کر پائی بلکہ ارض پاک کے گونا گوں مسائل میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے ۔

آج یوم آزادی کو ہمارے ارباب اختیار و اقتدار کو غور و فکر کرنا ہو گا کہ ان کی ناعاقبت اندیشیاں اور سیاسی مفادات قوم کو کہاں لے جارہے ہیں ۔؟آج ہمیں جمہوریت کے تحفظ اور ملکی سلامتی کے لئے زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت ہے ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :