مشقت کرنے والے بچوں کا تاریک ہوتا مستقبل

جمعہ 21 اگست 2020

 Nasir Alam

ناصرعالم

یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بچے کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایا ہوتے ہیں کیونکہ ان بچوں سے قوم کی متعدد امیدیں وابستہ ہوتی ہیں کہ آج کے یہ بچے تعلیم وتربیت حاصل کرکے کل ملک وقوم کی تعمیر وترقی میں اہم کردارادا کریں گے مگر مقام افسوس ہے کہ ہمارے یہاں قوم کی یہ امیدیں پوری ہوتی نظر نہیں آتیں کیونکہ ضلع سوات میں غربت اور بے روزگاری کے سبب بیشتر بچے تعلیم سے محروم ہیں جو سکول کی بجائے ورکشاپوں،ہوٹلوں اور مشقت کرنے والی دیگر جگہوں پر محنت مزدوری کرتے نظر آتے ہیں،اسی طرح بہت سے بچے بازاروں میں بھیک مانگتے اور یا گلی کوچوں میں کباڑ خریدتے اور فروخت کرتے نظر آرہے ہیں اس کے علاوہ لاتعدادبچے ایسے بھی ہیں جو کچرے کے ڈھیروں میں کارآمدچیزیں تلاش کرنے پر مجبورہیں یہاں پر قدم قدم پر ایسے بچے دیکھے جاسکتے ہیں جو کچرے میں اپنا مستقبل تلاش کررہے ہیں حالانکہ یہ وقت ان بچوں کی تعلیم وتربیت اور کھیل کود کاہے جو وہ مشقت والی جگہوں پر گزاررہے ہیں جس کی بڑی وجوہات غربت،حکومت کی عدم توجہی اور بچوں کے حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تنظیموں کی نااہلی ہیں،ایسے بچے عموماََ یا تو یتیم ہوتے ہیں اوریا والدین کی بیماری اورمعذوری کے سبب بچپن کے دن محنت کرکے گھر کا چولہا جلانے کی کوشش کرتے گزارتے ہیں،یہی بچے اپنے ہم عمربچوں کو سکول جاتے اور یا انہیں کھیلتے کودتے دیکھ کر احساس محرومی اوراحساس کمتری سمیت دیگر ذہنی عوارض کا شکار ہوجاتے ہیں، بیشتر بچے منشیات کے عادی ہوجاتے ہیں اور یا جرائم پیشہ بن جاتے ہیں یہ وہی بچے ہیں جن سے قوم کو یہ امید ہے کہ وہ بڑے ہوکر معاشرہ کا بوجھ کم کرنے میں کردارادا کریں گے مگروہ کم عمری میں مشقت، مزدوری کرتے اورجرائم کا عادی ہوکرخود معاشرہ پر بوجھ بن جاتے ہیں،سوات میں اگر چہ عرصہ دراز سے مختلف ناموں سے انسانی اور بچوں کے حقوق کے حوالے سے کئی تنظیمیں کام کررہی ہیں مگراس حوالے سے تاحال ان کی کارکردگی سامنے نہیں آئی ان کا کام صرف بڑے بڑے ہوٹلوں میں سمیناروں،ورکشاپوں،فوٹوسیشن اور بیانات تک محدود ہیں اہل علاقہ کہتے ہیں کہ یہی تنظیمیں انسانی اور بچوں کے حقوق کے نام پر مختلف طریقوں سے فنڈ وصول کررہی ہیں جو وہ بچوں کی بجائے ذاتی مفادات کیلئے خرچ کرتی ہیں،اس وقت سوات میں انسانی حقوق کی کھلے عام خلاف ورزیاں ہورہی ہیں جن کی روک تھام کیلئے ان تنظیموں کی جانب سے کسی قسم کے اقدامات نہیں اٹھائے جارہے ہیں،جیسا کہ ان سطور میں تذکرہ کیا گیا ہے کہ بچے کسی بھی قوم کا قیمتی سرمایا ہوتے ہیں جن میں غریب او رنادار بچوں کیلئے تعلیم وتربیت کاانتظام کرنا حکومت کی ذمہ داریوں میں شامل ہے مگر مقام افسوس ہے کہ آج تک کسی بھی حکومت نے اپنی یہ ذمہ داری پوری نہیں کی ہے جبکہ اس حوالے سے کام اوردعوے کرنے والی تنظیموں کی کارکردگی صفر ہے،مقامی لوگوں کا کہناہے کہ یہاں پر عرصہ دراز سے بچے اپنے جائز حقوق یعنی تعلیم وتربیت اور صحت مندسرگرمیوں سے محروم ہیں جواس کم عمری میں مشقت کرنے والی جگہوں پر محنت کرتے نظر آرہے ہیں مگر حکومت اور چائلڈرائٹس کے دعویدار وں نے اس طرف پر سے آنکھیں بند کررکھی ہیں جس کے سبب نہ صرف ان بچوں کی صلاحیتیں ضائع ہورہی ہیں بلکہ ان کا مستقبل تاریک ہونے کا بھی خدشہ ہے،یہ وہ پھول سے معصوم بچے ہیں جن سے قوم کی امیدیں وابستہ ہیں مگر ایسے حالات اورماحول میں پھل بڑھ کر کیاوہ کل قوم کی امیدوں کو پورا کرسکیں گے؟مینگورہ شہر ہو یا کوئی اور علاقہ جہاں پرکسی بھی ہوٹل میں جائے تو وہاں معصوم بچے میزصاف کرتے،برتن دھوتے اور لوگوں کے سامنے چائے اور کھانارکھتے نظر آتے ہیں،ورکشاپوں میں دیکھے تو وہاں بھی پھول جیسے بچے گاڑیوں کومرمت کرتے نظر آئیں گے،معمولی معمولی باتوں پرڈانٹ اوراستاد کے ہاتھوں مارپیٹ تو جیسے ان بچوں کی قسمت میں لکھی ہے،دیگر مشقت والی جگہوں پر بھی یہی بچے کام کرتے ہیں جبکہ اس کے علاوہ بچوں کی ایک بڑی تعداد بھیک مانگتی نظر آتی ہے ایسے بچے عموماََ پارکوں،بازاروں،مارکیٹوں،ٹرانسپورٹ اڈوں اوردیگر پرہجوم مقامات پر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر بھیک مانگتے ہیں، بعض لوگ ان بھکاری بچوں کوچند سکے دیتے ہیں اور بیشتر لوگ انہیں دھتکارتے ہیں، یہ قیمتی سرمایا صبح سویرے گھر سے نکل کر رات گئے تک مسلسل مشقت کرتا نظر آتاہے مگر حکومت اور دیگر ذمہ داروں کو ان کے حال پر ترس تک نہیں آتا اور یوں یہ قیمتی سرمایا بری طرح ضائع ہورہاہے،ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت مزید دیر اورتاخیر نہ کرے بلکہ اس قیمتی سرمائے کو ضائع ہونے سے بچانے کیلئے ایک موثر لائحہ عمل تیار کرے جس کے تحت مشقت والی جگہوں پرنظر آنے والے بچوں سمیت بھیک مانگنے اور کچرے چننے والے بچوں کی تعلیم وتربیت کا انتظام موجود ہو تاکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے آج کے یہ بچے کل حقیقی معنوں میں قوم کی نمائندگی وترجمانی کرتے ہوئے ان کی امیدوں پر پورا اتر سکیں۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :