سوات کے غریب عوام پر ڈاکٹروں نے فیس بڑھانے کی شکل میں ہائیڈروجن بم گرادیا،پرائیویٹ ہسپتالوں میں آویزاں پوسٹروں پرواضح الفاظ میں لکھاگیاکہ اب معائنہ فیس ایک ہزارروپے ہوگی،انٹری فیس،لیبارٹری فیس،الٹراساؤنڈ،ایکسرے وغیرہ کے اخراجات اس کے علاہ ہوں گے،اس،حوالے سے تفصیلی رپورٹ میں بتایا گیاہے کہ سوات میں ڈاکٹروں نے معائنہ فیسوں میں اضافہ کردیاجس کے بعدعوام میں تشویش کی لہردوڑ گئی ہے جنہوں نےحکومت سے فوری نوٹس لینے کامطالبہ کیاہے،سوات میں پرائیویٹ پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں نے معائنہ فیس بڑھاکرایک ہزارروپے کردیا،اس کے علاؤہ مختلف ٹیسٹ اور بعدازاں مخصوص کمپنیوں کی ادویات لکھ کر مریضوں کی کھالیں ادھیڑی جاتی ہیں،اہل علاقہ کہتے ہیں کہ ڈاکٹروں نے کروڑوں روپے کی بلڈنگ خرید کران میں ہسپتال قائم کررکھے ہیں جہاں پر معائنہ سے لے کر تمام تر ٹیسٹوں کیلئے لیبارٹری اور میڈیکل سٹورموجود ہیں اگر ایک مرتبہ مریض ان ڈاکٹروں کے ہتھے چڑھ جائے تو اس کی کھال اتار کرہی چھوڑاجاتاہے،غربت اور بے روزگاری کی چکیوں میں پسنے والے سوات کے لوگ اتنابوجھ ہرگز برداشت نہیں کرسکتے مگرڈاکٹر ان کے کاندھوں پر مسلسل بوجھ ڈال رہے ہیں جس سے مریض صحت یاب ہونے کی بجائے دیگر امراض کاشکار ہوجاتاہے،ڈاکٹروں سے معائنہ کرانے کے لئے نمبرحاصل کرنا ان کے گیٹ پر مامور نوکروں کے نخرے برداشت کرنابھی ایک بڑاتکلیف دہ مرحلہ ہوتا ہے تاہم امراض سے نجات پانے اور صحت یاب ہونے کی امید لے کر جانے والوں کومجبوراََ ان مراحل سے گزرنا پڑتا ہے مگر اس کے بعد اخراجات کے مراحل شروع ہوجاتے ہیں پہلے فیس کی ادائیگی پھرمختلف لیبارٹری ٹیسٹ،الٹراساؤنڈ،ای سی جی وغیرہ کرانے کے بعد مریض کو اس قدر مہنگی ادویات لکھی جاتی ہیں کہ اس کا حوصلہ جواب دینے لگتاہے اور وہ اپنامرض بھول کرذہنی پریشانی،کشمکش اورکوفت میں مبتلاہوجاتاہے،مقامی لوگوں کاکہناہے کہ ڈاکٹر دراصل مسیحاہوتا ہے مگر جب یہ مسیحاعلاج کی آڑ میں مریضوں کی کھالیں ادھیڑنا شروع کریں تو وہ مسیحاسے لٹیرا بن جاتاہے،اگر چہ سب کو معلوم ہیں کہ سوات کے عوام کافی مشکل حالات سے گزرے ہیں اکثریتی لوگ محنت کرکے بڑی مشکل سے دووقت کی روٹی کمالیتے ہیں ایسے میں وہ ڈاکٹروں کی بھاری فیسیں ،ٹیسٹوں اورادویات کے اخراجات ہرگز برداشت نہیں کرسکتے مگر کسی کوان کے حال پرترس نہیں آتا،دوسری جانب لیڈی ڈاکٹروں کے نخرے بھی دیکھنے کے قابل ہیں،جو بھی مریضہ معائنہ کے لئے جاتی ہے تو بیٹھے بٹھائے اس کی کھال ادھیڑی جاتی ہے،وقت سے پہلے ڈیلیوری اوراس مقصد کے لئے مختلف ادویات دینے سے خواتین مریضوں کی حالت غیرہوجاتی ہے اور اب تک ان پرائیویٹ ہسپتالوں میں غلط طریقہ علاج کے سبب بہت سی عورتیں ڈیلیوری کے دوران موت کی منہ میں جاچکی اور نجانے مزید کتنی بے چاری عورتیں بے وقت کی موت مریں گی،اورتواور سوات میں انسانی زندگیوں کے ساتھ ایک بڑاخطرناک اورگھناؤناکھیل جاری ہے مگر مقام افسوس یہ ہے کہ کوئی بھی زمہ دار اس کھیل کو روکنے اور اس میں ملوث عناصر کا ہاتھ روکنے کے لئے کسی قسم کا اقدام اٹھانے کی زحمت تک گوارہ نہ کرتا،مینگورہ شہر اور آس پاس کے علاقوں میں محلوں کی سطح پر گلی کوچوں میں نان کوالیفائڈ افراد نے کلینک کھول رکھے جہاں پر وہ نہ صرف مریضوں کی جیبوں کاصفایاکررہے ہیں بلکہ ان کی زندگیوں سے بھی کھیل رہے ہیں،ان نان کوالیفائیڈ افراد کی وجہ سے بھی بہت سے لوگ یا توابدی نیند سوچکے ہیں اور یا مختلف قسم کے خطرناک امراض میں مبتلا ہوچکے ہیں،یہاں کے عوام کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ ہسپتالوں میں کلاس فور،وارڈ بوائے اورچپڑاسی بھی ڈیوٹی کے بعد کلینک چلاتے ہیں ایسے لوگ یہاں کی ہرگلی میں پریکٹس بلکہ انسانی زندگیوں سے کھیلتے نظر آرہے ہیں,اہل علاقہ کاکہناہے کہ ہرحکومت عوام کو سرکاری سطح پر علاج معالجہ کی سہولت فراہم کرنے کے دعوے کررہی ہے مگر انہیں عملی جامہ پہنانا تو درکنار اب تک کسی بھی حکومت نے غیر قانونی کلینک بند کرنے اور بڑے بڑے پرائیویٹ ہسپتالوں میں لوٹ مار کاسلسلہ تک بند کرنے کے لئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا،نان کوالیفائڈ کلینکوں میں انسانی زندگیوں سے خطرناک کھیل کھیلاجارہاہے جبکہ بڑے پرائیویٹ ہسپتالوں میں لوگوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹاجارہاہے،لوگ بے وقت کی موت کررہے ہیں اور دونوں ہاتھوں سے لٹ رہے ہیں مگر کسی کو ان کے حال پرترس نہیں آتا حکومت کی اس بےحسی اور بے بسی پر جتنا افسوس کیاجائے کم ہے،وہ تو صرف روزانہ کی بنیادپرادویات کی قیمتی بڑھاکر ادویہ ساز کمپنیوں کو فائدہ پہنچارہی ہے جبکہ ڈاکٹرز بھی مریضوں کے لئے انہی کمپنیوں کی مہنگی ادویات لکھ کر رہی سہی کسر پوری کررہے ہیں جس کے بدلے میں یہ کمپنیاں اپنے چہیتے ڈاکٹروں کو نہ صرف پرکشش بونس دیتے ہیں بلکہ انہیں بیرون ممالک کی سیر بھی کراتی ہیں،لوگ کہتے ہیں کہ ہم اس بات کے قائل ہیں کہ ڈاکٹر دراصل مسیحاہوتا ہے جس کا کام لوگوں کی زندگیاں بچاناہے مگر یہاں تو گنگاالٹی بہتی ہے،زندگیاں بچانے والے زندگیاں چھین رہے ہیں،ڈاکٹروں کا معائنہ کے لئے نمبر حاصل کرنا،اس کے گیٹ پر کھڑے اردلی کے نخرے اٹھانا،مریضوں کے ساتھ اس کا نامناسب رویہ اور بعدازاں اندرجاکر ڈاکٹر سے مشورہ،تشخیص اور پھر ٹیسٹ،مہنگی ادویات کی رسید اٹھاکر باہر آجانا ان کٹھن مراحل سے گزرکر،قدم قدم پر تکلیف اور پریشانیاں،مریض کاکیاحال ہوگا،شائد وہ یہی سوچتاہوگا کہ کاش میں یہاں نہ آتا بلکہ گھر ہی میں آرام سے موت کو گلے لگاتا،اسی مرحلے پر مریض بے بسی کی تصویر بن جاتاہے، مقامی حلقوں نے مطالبہ کیاہے کہ حکومت ادویات کی قیمتوں میں فوری کمی کرنے سمیت ڈاکٹروں کوایک مناسب فیس کاپابند بنائے اور گلی کوچوں میں انسانی زندگیوں سے کھیلنے والے نان کوالیفائڈافراد کیخلاف ایکشن لےتاکہ عومی مشکلات میں کمی واقع ہوسکے، یہاں ہم ڈاکٹروں سے بھی اپیل کریں گے کہ وہ بقول شاعر کے اپنے آپ کو مریضوں کے سامنے ایساپیش کریں کہ
اُس نے تپتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا روح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔