اپنی تلاش کے سات انعام

منگل 5 مئی 2020

Nasir Mehmood Baig

ناصر محمود بیگ

میں کون ہوں․․․؟ میں کیا ہوں․․․․؟میں کس لئے ہوں ․․․․؟یہ سوالات اتنے ہی پرانے ہیں جتنی کہ انسان کی تاریخ ․․․․․! اور یہ سوالات اتنے اہم بھی ہیں جتناکہ خود انسان ․․․․! دنیا کے ہر سنجیدہ انسان نے ان سوالوں کے جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے ۔اس تلاش کے نتیجے میں انسان کا اپنی ذات بارے درست تصور قائم ہوتا ہے اور اپنی نظر میں اس کی عزت اور مرتبہ بڑھتا ہے۔

۔انسان کے اپنی ذات کے بارے خیالات ، تصورات اور تجربات کے مجموعے کو خود شناسی کہتے ہیں۔دنیا میں چند منتخب ہستیوں کے علاوہ تمام انسانوں کو اپنے اندر کی دنیا کو دریافت کرنا پڑتا ہے۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں کا ادراک کرنا ہوتا ہے۔اپنی فطری صلاحیتوں کو جاننا ہوتا ہے۔جتنی جلد وہ اپنی تلاش کا یہ سفر شروع کر لے اتنی جلد ہی وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ سکے گا۔

(جاری ہے)

اپنی ذات کے درست ادراک اور اپنے آپ کو پہچاننے پر انسان کو قدرت کی طرف سے ان انعامات سے نوازا جاتا ہے۔
1۔اللہ کی معرفت کا حصول
حضرت علی  کا قول ہے:”جس نے اپنی ذات کو پہچانا ،گویا اس نے اپنے خداکو پہچانا ۔“جب انسا ن اپنی ذات، اپنے وجود ،اپنے جسم اور اپنی زندگی پر غور کرتا ہے تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہو رہااور نہ ہی یہ زندگی بے مقصد ہے۔

اس کو چلانے والا بھی کوئی ہے ۔ایک اور موقع پر سیدنا علی نے فرمایا:”میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹنے سے اپنے رب کو پہچانا“۔اپنی تلاش کے اس سفر میں اس کے ارادے بھی ٹوٹتے ہیں،اس کا دل بھی ٹوٹتا ہے اور پھر جب انسان اپنا تھکا ماندا جسم اور شکستہ روح اپنے رب کے سامنے پیش کرتا ہے تو اسے سب سے پہلا انعام رب کی رضا اور معرفت کی شکل میں ملتا ہے۔

پھر وہ جتنا ظاہری اعتبار سے نیچے کی طرف جاتا ہے اتنا ہی باطنی طور پرعروج حاصل کرتا ہے۔
2۔خود اعتمادی
اپنی تلاش کے سفر میں جب انسان کو اپنی خوبیوں کا ادراک ہوتا ہے تو اس کا اپنی ذات پر اعتماد کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔اس کے اندر اپنی عزت کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔جیسے جب کوئی مقرر پہلی مرتبہ اسٹیج پر آتا ہے تو اس کے اندر ایک بے یقینی کی کیفیت ہوتی ہے اور اگر وہ ایک اچھی تقریر کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو اس سے اندر یہ یقین پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ ایک اچھی تقریر کرسکتا ہے۔

یہ ایک مثال دی گئی ہے کہ خود شناسی کے بغیر خود اعتمادی ممکن نہیں ۔خود شناسی کا دوسرا بڑا انعام یہ ہے کہ انسان کے اندر اپنی صلاحیتوں اور اپنی فطرت پر اعتماد حاصل ہو جاتا ہے۔
3۔خوشی اور اطمینان
ہمسایہ ملک کی مشہور فلم ”تھری ایڈئیٹس “ میں ایک فوٹو گرافر اپنے باپ سے کہتا ہے کہ بے شک اس کام میں کم کما لوں گا مگر سکون تو ہو گا کیونکہ یہ میرا جنون ہے ۔

خود شناسی سے انسان میں خوشی اور سکون کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔خوشگوار زندگی کے جتنے بھی راز اب تک
 دریافت ہوئے ہیں ان میں سے سب سے بڑا راز یہ ہے کہ انسان زندگی میں وہ کام یا پیشہ اختیار کرے جس میں اس کو حقیقی خوشی ملے۔جس کو وہ کام سمجھ کے ناں کرے بلکہ تفریخ کے انداز میں کرے۔
4۔فکری غلامی سے نجات
ایڈیسن دنیا کا واحد سائنس دان ہے جس کی ایجادات کی تعداد 1249ہے۔

جس میں سے ہم ایک بلب کو جانتے ہیں اس نے ایک بلب بنانے کے لئے ہی دس ہزار سے زیادہ کوششیں کیں۔اس نے ایک جملہ کہا تھا:” جس کو اپنے ٹیلنٹ کا پتہ چل جائے وہ کسی کا غلام نہیں رہ سکتا،نہ وہ کسی کی غلامی برداشت کرتا ہے“۔غلام یا ملازم ہمیشہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کو اپنی صلاحیتوں کا علم نہیں ہوتا یا ان کے پاس اپنی ذات کا شعور نہیں ہوتا۔خود شناسی انسان کو دوسروں کی فکری غلامی سے آزاد کر تی ہے۔


 5 ۔مقصد زندگی کا حصول
اپنی تلاش کے سفر میں جو اگلا انعام انسان کو ملتا ہے وہ مقصد زندگی کا حصول ہے۔جس شخص کو اپنی ذات کادرست ادراک ہو جاتا ہے وہ اپنے مقصد سے دور نہیں رہتا۔شیخ سعدی سے کسی نے پوچھا کہ آپ کی عمر کتنی ہے؟آپ نے فرمایا :”چار سال“۔اس نے کہا آپ کے تو بال سفید ہو گئے ہیں۔آپ نے جواب دیا :”مجھے شعور چار سال سے ملا ہے۔

“اگر اپنی ذات کا شعور مل جائے تو پھر ایک ایسی زندگی جس کی سمت نہ ہو،اس کو سمت مل جاتی ہے ۔
6۔کام لگے عبادت
جب انسان کو اپنا ذاتی کام مل جاتا ہے ،ایسا کام جو اس کی نفسیات اور فطرت ہم آہنگ ہو ۔وہ کام اسے بوجھ نہیں لگتا ہے۔ایک بیس سالہ تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ دنیا میں 97فیصد لوگ اپنے کام کو بوجھ سمجھ کر کرتے ہیں ۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کام ان کا جنون یا شوق نہیں ہوتا۔اگر انسان کو اپنے جنون کا پتہ چل جائے تو وہ اسے اپنا کام کام نہیں بلکہ عبادت لگتا ہے۔کیونکہ اسے وہ خوشی سے سر انجام دینے کی کوشش کرتا ہے۔
7۔کامیابی
بر صغیر میں ایک شخص پیدا ہوا جس کاروبار کا علم حاصل کرنے یورپ گیا مگر وہاں سے وکالت کی ڈگری لے کر گھر پہنچا۔

بعد میں سیاست میں قدم رکھا تو لیڈر بن کر ابھرا ۔دنیا اسے ”قائد اعظم “ کے نام سے جاننے لگی۔کیونکہ اس نے اپنا راستہ تلاش کر لیا تھا ۔اور آخر کار وہ اپنے میدان میں کامیاب ہو گیا ۔کامیابی کا بہت زیادہ تعلق اس بات سے ہے کہ آپ اپنے درست فیلڈ کو منتخب کریں ۔
 قدرت نے یہ لازم کر دیا ہے کہ انسان اپنے میدان میں کھیلنا سیکھے۔اپنا درست راستہ تلاش کرے۔یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی بٹن ہو آپ دبائیں اور آپ خود کو پہچان لیں۔کیونکہ اللہ نے کہا ہے کہ تم کوشش کرتے جاؤ راستے کھلتے جائیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :