
عوام کورونا کی سنگینی سمجھیں
جمعرات 11 جون 2020

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ
(جاری ہے)
بظاہر یہ ایک ایسی بیماری ہے جو اپنی آمد کا مضبوط پیغام بھی نہیں دیتی۔نہ ہی اس انداز میں اس کا ظہور ہوتا ہے کہ اس سے بچاؤ کا اہتمام کیا جا سکے۔گزشتہ چھ ماہ کی مسلسل تحقیق کے بعد ابھی تک ماہین صرف اسی نتیجے پر پہنچ سکے ہیں کہ اس سے بچاؤ کی واحد صورت یہ ہے کہ۔ماسک کا استعمال کیا جاے، یا پھرسماجی دوری کو اس کا واحد علاج سمجھا گیا ہے۔پاکستان کے معصوم عوام نے اس بیماری کے متعلق جو رویہ اختیار کیا کیا ہم اس کو مختلف درجات میں تقسیم کر سکتے ہیں۔پھر کا جائزہ لے کر آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کیا جا سکتا ہے
پہلا دور۔۔۔ کرونا کی ابتدا میں ہمارے لوگوں کا رویہ یہ تھا کہ یہ سب سنی سنائی باتیں ہیں۔کس سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔محض خوف و ہراس پھیلا یا جا رہا ہے۔یہ بیماری مسلمانوں کو نہیں لگ سکتی۔ہم تو پاک صاف لوگ ہیں۔ہم چمگادڑ نہیں کھاتے۔یہ صرف ان ہی لوگوں کو یہ بیماری شکار کرے گی جو اس طرح کی غیر شفاف حرکات میں ملوث ہیں۔ان نظریات کی ترویج کے لیے کئی پروگرام کیے گئے۔سینہ بسینہ روایات منتقل ہوئی۔اور انہی روایات کی وجہ سے لوگوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر اختیار نہ کیں۔ اور خود کرونا کو گلے لگا لیا۔
دوسرا درجہ۔ جب پاکستان میں کچھ کیسز سامنے آے تو یہ کہا گیا کہ یہ محض اتفاق ہے۔ان لوگوں نے بیرون ملک سفر کیا ہوگا۔یا بیرون ملک سے کچھ لوگ ان کے رشتہ دار ہوں گے جن سے یہ وائرس ان کو منتقل ہوئی ہوگی۔یا پھر یہ ان کے انفرادی گناہوں کا پیش خیمہ ہو گی۔لہذا بطور قوم پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔یہ محدود اور انتہائی محدود تعداد میں ہیں۔اور ان پر جلد قابو پالیا جائے گا۔۔
تیسرا درجہ۔ ملک میں کیسز کی تعداد زیادہ ہوگی اور اموات میں بھی اضافہ ہونے لگا پھر بھی ہمارے لوگ یہی راگ الاپتے رہے کہ یہ کچھ دنوں کی بات ہے۔معاملہ مکمل کنٹرول میں ہے۔یہ وائرس صرف ابھی تک ملک کے مخصوص علاقوں میں ہے۔کچھ نہیں ہوگس۔کبھی یہ کہا تو یہ صرف تفتان تک محدود رہے گا۔جبکہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ کراچی اور اسلام آباد میں رہنے والے لوگ اس سے متاثر ہوں گے۔عام عوام اور عام شہری اس سے متاثر نہ ہوں گے۔اس سوچ نے بھی لاپرواہی میں مزید اضافہ کردیا۔اور کرونا کے تیزی سے پھیلنے کا سبب بنا۔
چوتھا درجہ۔ چوتھا درجہ تب آیا جب کہ کیسز مسلسل بڑھنے لگے۔ہلاکتیں بھی تیزی سے ہونے لگی۔لوگ ہسپتالوں کی طرف بھاگنے لگے۔جن مریضوں کو قرنطینہ کیا ہوا تھا وہاں سے بے چینی کے عالم میں فرار ہونے کی کوشش کرنے لگے۔تب عوام بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے اور حکومت کے بھی ہاتھ پاؤں پھول گئے۔۔افراتفری میں جزوی اقدامات کیے جانے لگے۔حکومتی حلقوں میں یہ بحث ہونے لگی کہ ملک کو بند کریں یا نہ کریں۔مکمل لاک ڈاؤن کریں یا جزوی لاک ڈاؤن کریں۔اندرون ملک سفر بند کیا جائے یا نہ کیا جائے بیرون ملک پروازوں کو کب تک معطل کیا جائے۔بیرون ملک سے آنے والے مسافروں کو قرنطینہ کیا جائے۔۔محدود کرفیو لگایا جائے یا نہ لگایا جائے۔اسی گومگو عالم میں ملک ایک ایسے نقصان کی طرف بڑھ گیا جس کا ازالہ ممکن نہیں۔۔
پانچواں درجہ۔ ہر شہر میں جب کیس ظاہر ہونے لگے،ہر شعبہ زندگی متاثر ہونے لگا،ہر طبقہ کے لوگ موت کا شکار ہونے لگے،تب عوام کو اس کی سنگینی کا احساس ہوا،لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی،کرونا وائرس اپنے پنجے گاڑ چکا ہے،گلی محلے سے خوفناک خبریں آ رہی ہیں،اندرون ملک ٹرانسپورٹ کھولنے سے یہ وائرس پورے ملک میں پھیل چکاہے۔
چھٹا درجہ۔ اس بیماری کا چھٹا درجہ یہ ہے کہ ملک میں مکمل شٹرڈاؤن کر دیا جائے۔گلی محلے سے کرونا کے مریض ضد نکلنا شروع ہو گیے۔۔وینٹیلیٹر نایاب ہو جائیں۔ہسپتالوں کے بیڈ بھر جائیں۔ہمیں یہ بات تسلیم کر لینی چاہیے کہ اس وقت ہمارا ملک چھٹے درجے میں شامل ہو چکا ہے۔ہر گلی محلے میں کرونا کے مریض دریافت ہو رہے ہیں۔ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔امیر اور غریب کا فرق ختم ہو چکا ہے۔کئی اراکین پارلیمنٹ وفات پا چکے ہیں۔ملک کا سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی اس مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔لہذا اب اس بات کو سمجھ لینا چاہیے۔ہمارا ملک کرونا کے حوالے سے خطرناک ترین دور میں داخل ہوچکا ہے۔
میری دانست میں لاک ڈاؤن بھی قابل عمل نہیں رہا۔اب صرف احتیاطی تدابیر کے ساتھ ہی اس مرض کا مقابلہ کرنا ممکن ہے۔
کرونا وائرس نے پاکستانی عوام کی کی اقتصادی حالت پر بھی کاری ضرب لگائی ہے۔ملک کی مجموعی معیشت بھی روز بروز سکڑ رہی ہے۔چھوٹی صنعتیں مسلسل بند ہو رہی ہیں۔اگرچہ بڑی انڈسٹریز نقصان برداشت کرنے کے بعد بھی جزوی طور پر بحال ہیں لیکن اگر صورتحال یہی رہی اور بین الاقوامی تجارتی راستے بحال نہ ہو سکے تو یہ صنعت بھی زیادہ عرصہ نہیں چل سکے گی۔کرونا وائرس کا ایک اور تاثر جو بین الاقوامی سوسائٹی پر بالعموم اور پاکستانی سوسائٹی پر بالخصوص مرتب ہوا ہے وہ یہ ہے کہ انجانے خوف نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کرونا کے شکار لوگ خود کو ذہنی مریض محسوس کرتے ہیں۔اسپتالوں میں قرنطینہ کیے گیے مریضوں کے ساتھ جو حقارت آمیز رویہ اختیار کیا جا رہا ہے اس نے پورے معاشرے کو لرزا کر رکھ دیا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ڈاکٹرز اور محکمہ صحت کا عملہ فرنٹ لائن پر کرونا مریضوں کی صحت یابی کے لئے کوشش کر رہا ہے لیکن۔بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ معاشرے کی جانب سے مریضوں کے ساتھ ناروا سلوک اور اچھوتوں جیسا رویہ انتہائی شرمناک عمل ہے۔میری خود کی مریضوں سے بات ہوئی۔جن کے نام لینا
یہاں پر مناسب نہیں۔انہوں نے بتایا کہ انہیں کرو نا کی زیادہ تکلیف محسوس نہیں ہوی جتنی لوگوں کے اجنبی رویوں سے محسوس ہوتی ہے۔ممتاز احمد (فرضی نام)جو کرونا کی وجہ سے 15 دن اسپتال میں داخل رہا اس نے لوگوں کے اجنبی رویے کی ایسی کہانیاں سنائی کے دل دہل کر رہ گیا۔میرے جاننے والے سینکڑوں افراد ایسے ہیں جو کسی نہ کسی حوالیسے اس مرض کا شکار رہے یا ان سے جڑے لوگ اس مرض کا شکار بنے ان کی داستانیں سننے کے بعد بعد میں یہ بات بلا خوف تردید کہہ رہا ہوں کہ کرونا کے مرض کی سنگینی اپنی جگہ،لیکن لوگوں کے رویے نے اس مرض کے شکار لوگوں کو مرنے سے پہلے ہی مار دیا۔اگرچہ عالمی ادارہ صحت نے واضح طور پر یہ بتا دیا تھا کہ انسان کے مرنے کے بعد اس کے اندر کرونا وائرس کے اثرات اس کے ساتھ ہی مر جاتے ہیں ہیں لیکن پھر بھی ان میتوں کے ساتھ ایسا ناروا سلوک کیا گیا جو نہ لکھا جاسکتا ہے نہ پڑھا جا سکتا ہے۔میرے اپنے حلقے میں ایک نوجوان مبینہ طور پر اس مرض کا شکار ہو کر فوت ہوا اس کے جنازہ پڑھنے کے لیے صرف چند لوگوں کو قبرستان جانے کی اجازت دی گئی۔حالانکہ جب اس کی میت اس کے آبائی شہر بھلوال کے چوک میں پہنچی تو سیکڑوں لوگ اس کی تعزیت اور جنازے کے لیے موجود تھے۔لیکن صرف چند لوگ ہی میت کے نزدیک آ سکے۔یہ سارا رویہ اس خوف کا کیا دھرا جو مختلف اداروں کی طرف سے تواتر کے ساتھ لوگوں کے ذہنوں میں بٹھا دیا گیا۔۔گزشتہ دنوں پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پنجاب نے ایک پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کرکے پورے لاہورکو حیرت میں ڈال دیا کہ لاہور میں 35 لاکھ افراد اور پنجاب میں 2 کروڑ سے زائد افراد اس وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔جبکہ اس کے ساتھ ہی وزیر اعلی پنجاب کو ایک سرکاری رپورٹ بھی پیش کی گئی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس وقت سات لاکھ افراد لاہور میں کرونا وائرس سے متاثرہ ہیں۔مختلف ٹی وی چینلز اور خبررساں اداروں کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو آن سو ممالک کی فہرست میں شامل نہیں کیا جو کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کر رہے ہیں۔جب کہ پاکستان اس وقت دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں چوتھے نمبر پر قرار دیا گیا ہے۔اور اس کی واحد وجہ حکومت کی طرف سے موثر اقدامات کا نہ ہونا اور عوام کی جانب سے عدم احتیاط کا مظاہرہ ہے۔اب پاکستان میں بسنے والے شہریوں کو اپنے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوگی۔کیونکہ کرونا وائرس کا شکار ہو کر زندہ رہنا عذاب سے کم نہیں اور اس کی وجہ سے مرنا بھی کسی عذاب سے کم نہیں۔ ایسا معاشرہ جس میں انسانیت سسک کر دم توڑ رہی ہے نفسا نفسی کا عالم ہے, کرونا کی اطلاع ہونے پر پر اولاد اپنے والدین کو چھوڑ کر گھروں کو تالے لگا کر فرار ہو رہی ہے,ہسپتالوں کے آئسولیشن وارڈ میں پڑے بے یارومددگار یار مریض عبرت کی تصویر بنے ہوئے ہیں, ان حالات میں ہر شخص کو انفرادی طور پر احتیاط کا دامن پوری طاقت سے پکڑنا ہوگا معاشرے کے بڑوں کو اس بات پر سوچنا ہوگا کہ دم توڑتی معاشرتی روایات کو دوبارہ زندہ کیسے کرنا ہے۔ایسا نہ ہو کہ کرونا کا خوف معاشرے کو ایک قبرستان میں تبدیل کر دے۔جہاں کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہو۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ کے کالمز
-
آن لائن احتجاجی تحریک
جمعرات 17 فروری 2022
-
توجہ کا طالب
جمعرات 10 فروری 2022
-
یوم یکجہتی کشمیر
ہفتہ 5 فروری 2022
-
فوجداری قوانین: مجوزہ ترامیم اور حقائق
جمعرات 3 فروری 2022
-
سانحہ مری۔مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے؟
پیر 10 جنوری 2022
-
جمہوری روایات کو لاحق خطرات
بدھ 5 جنوری 2022
-
مولانا آرہے ہیں؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
سانحہ اے پی ایس۔ جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں
جمعہ 17 دسمبر 2021
پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.