
- مرکزی صفحہ
- اردو کالم
- کالم نگار
- پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ
- عاشق رسول۔حضرت عبدالرحمن جامی۔رحمت اللہ علیہ
عاشق رسول۔حضرت عبدالرحمن جامی۔رحمت اللہ علیہ
اتوار 6 ستمبر 2020

پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ
مولانا عبدالرحمن جامی کی ولادت 23 شعبان المعظم 817 ھجری،بمطابق 7نومبر 1417 جام کے موضع خرجرد میں ہوی۔یاد رہے کہ جام ایک گاؤں ہے جو افغانستان کے صوبے غور میں چشت کے شمال میں واقع ہے۔مولانا جامی کے والد گرامی کا نام احمد بن محمد دشتی تھا۔
(جاری ہے)
وہ ابتدای طور پر اصفہان کے قریب دشت میں رہا کرتے تھے بعد ازاں جام میں آ کر آباد ہوئے۔
وکی پیڈیا کے مطابق مولانا جامی کے جدامجد کے عقد میں امام محمد بن حسن شیبانی کی اولاد سے ایک صاحبزادی تھیں جن کے بطن سے مولانا جامی کے والد احمد بن محمد پیدا ہوئے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی اور پھر چھوٹی عمر میں ہی اپنے والد کے ساتھ ہی ہرات آئے تو مدرسہ نظامیہ میں آکر قیام پذیر ہو گئے وہاں پر مختلف علوم کی تحصیل کی۔آپ اپنی خداداد ذہانت کی بدولت ان علوم میں جلد ہی مہارت حاصل کر لی جن کو حاصل کرنے میں عام طور پر طلباء کء سال صرف کیا کرتے تھے۔آپ نے فن مناظرہ میں بھی مہارت حاصل کی۔ہرات سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد آپ سمرقند تشریف لے گئے اور وہاں پر قاضی زادہ کے مدرسہ میں داخلہ لیا۔یہاں پر فن ہیئت بھی مہارت حاصل کی۔اور مختلف کتب پر عبور کی بدولت اپنے اساتذہ کے منظور نظر ہو گئے۔سیاسی حالات کے اثرات
حضرت مولانا عبدالرحمن جامی نے دنیا کے مختلف علاقوں کا سفر کیا۔اس سفر کے دوران وہ جن پاک باز بندگان خدا سے ملتے رہے ان سے اکتساب فیض بھی کرتے رہے۔یہاں تک کہ ان کا دامن روحانیت کے موتیوں سے مالا مال ہو گیا۔لیکن جو خصوصیت ان کو دیگر تمام مصنفین اور علماء سے ممتاز کرتی ہے وہ آپ کا والہانہ عشق رسول کا جذبہ ہے اور پھر اس کے اظہار کا ایسا نادر طریقہ اختیار کیا جس پر فارسی زبان آج بھی فخر کرتی ہے۔مولانا عبد الرحمان جامی اپنی نوعیت کے وہ شاعر ہیں کہ جنہوں نے اپنے کلام میں مدینہ پاک، مدینہ پاک کی مٹی، مدینہ پاک کے کانٹے، یہاں تک کہ مدینہ پاک کے کتوں کو بھی اپنے دل کے قریب قرار دیا۔مدینہ منورہ کے ساتھ آپ کی والہانہ محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ سفر حج کیلے جانے والے اونٹوں کے ساربانوں کو بھی سلام دے دے کر پہنچاتے۔اور ان کا یہ کلام کس کو یاد نہیں
زاحوالم محمد را خبر کن
آپ کا شہرہ آفاق کلام جس کا شعر ذکر کیا گیا اس کے متعلق معروف محقق علامہ محمد منشا تابش قصوری اپنی کتاب اغثنی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جامع الشواہد کے حوالے سے تحریر کرتے ہیں کہ اس کلام کا شان نزول یہ ہے،کہ ماہ ربیع الاول کی ایک پر کیف اور نورانی رات میں امام العاشقین حضرت مولانا عبدالرحمن جامی قدس سرہ العزیز نے ایک روح پرور خواب دیکھا کہ مسجد نبوی میں محراب کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں۔صحابہ کرام کی محفل جمی ہے اور آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کے جلو میں تشریف فرما ہیں اور عبد الرحمن جامی کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔اسی محفل میں جناب عبد الرحمن جامی کچھ نعتیہ کلام سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں جس کو آقاے دوعالم منظور فرماتے ہوئے ان پر مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔جب حضرت جامی کی آنکھ کھلی تو آپ کا دل مسرت سے معمور تھا اور خاص کیفیت طاری تھی۔کہ جب آپ نے اپنے چہرہ انور سے والیل والی زلف ہٹای تو آپ کا چہرہ اقدس چاند سے زیادہ روشن تھا۔۔اس زیارت کے بعد آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کا جذبہ مزید بڑھ گیا دن رات مدینہ طیبہ کی یاد میں آہیں بھرنے لگے۔یہاں تک کہ یہ کلام موزوں ہوا
زا حوالم محمد را خبر کن
توئی سلطان عالم یا محمد
زروے لطف سوئے من نظر کن
مشرف گرچہ شد جامی زلطفش
خدایا ایں کرم بار دگر کن
ترحم یا نبی اللہ ترحم
محروماں را غافل نشینی
کہ روے تست صبح زندگانی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں آپ کا استغاثہ بھی شہرت دوام حاصل کر چکا ہے۔اپنے قلبی جذبات کے اظہار کا شاید ہی ایسا شاندار طریقہ کسی اور شاعر نے اختیار کیا ہو۔اپ فرماتے ہیں۔
دلم پژمردہ آوارہ ز عصیاں یا رسول اللہ
پشیمانم پشیمانم پشیماں یا رسول اللہ
نمی گویم کہ من ہستم سُخَنداں یا رسول اللہ
مکن محروم جامی را درا آں یا رسول اللہ
شعر کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی آپ کی کتب کی ایک طویل فہرست ہے جس میں آپ نے اپنے علم و فضل کا اظہار فرمایا لیکن آپ کی تمام کتابوں کا لفظ لفظ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مالامال ہے اور محبت رسول کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جس چیز سے محبت ہو اس کا ذکر والہانہ انداز میں کیا جائے۔مولانا عبدالرحمن جامی نے اپنے محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
مولانا عبدالرحمن جامی کی وفات بروز جمعہ 18 محرم الحرام 898 ھجری،14 نومبر 1492 ء 80 سال کی عمر میں وفات پائی۔اور ہرات میں آپ کو دفن کیا گیا۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ کے کالمز
-
آن لائن احتجاجی تحریک
جمعرات 17 فروری 2022
-
توجہ کا طالب
جمعرات 10 فروری 2022
-
یوم یکجہتی کشمیر
ہفتہ 5 فروری 2022
-
فوجداری قوانین: مجوزہ ترامیم اور حقائق
جمعرات 3 فروری 2022
-
سانحہ مری۔مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے؟
پیر 10 جنوری 2022
-
جمہوری روایات کو لاحق خطرات
بدھ 5 جنوری 2022
-
مولانا آرہے ہیں؟
منگل 28 دسمبر 2021
-
سانحہ اے پی ایس۔ جس کے زخم آج بھی تازہ ہیں
جمعہ 17 دسمبر 2021
پیر محمد فاروق بہاوٴالحق شاہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.