کتوں سے بچیں

بدھ 16 ستمبر 2020

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

میں کتوں اور کتے لوگوں سے بہت ڈرتا ہوں، کیوں کہ دونوں پوچھ کر نہیں کاٹتے اور نہ ھی دیکھ کر پڑتے ہیں، کسی بھی قماش کا بندہ ھو اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں، بدمعاش البتہ ان سے بچ نکلتا ہے، افسوس ہے کہ ھم سینہ چوڑا کر کے یہ  نہیں کہہ سکتے کہ صاحب!"میں بڑا بد معاش ھوں" صبح خیزی کے لیے نکلیں تو ہر موڑ پر کتوں نے منہ نکالا ھوتا ھے، ڈر کہ صبح خیزی کا سفر ترک کرنا پڑتا ہے،  ایک دکاندار  صبح ہی اپنے ملازم پر ایسے گالیوں کی بوچھاڑ کر رہا تھا کہ الا امان الحفیظ، کتے تو بھونکتے ہیں یہ تھوک بھی رہا تھا، پطرس بخاری کے "کتے"کتنا اچھا تھا کہ فقیر منش کتے تھے، اب فقیر اور فقیر منش کتے ڈھونڈنے سے نہیں ملتے، مالک کی وفاداری میں اس حد تک آگے نکل چکے ہیں کہ اتنا۔

بھونکتے ہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، جیسے بھونکنے کا عالمی یا قومی مقابلہ ھو رھا ھو، نوارد پر تو ایسے بھونکتے ہیں کہ لگتا ہے یہ ان کا بھی کھانا کھا جائے گا، پہلے لوگ امتحان کی، آخرت کی، گھر کی، دفتر کی تیاری کرتے تھے، لیکن اب بھونکنے کی اتنی تیاری کی جاتی ہے کہ لگتا ہے پانی پت کے میدان میں اترنا ھے اور دیکھتے ہی دیکھتے کشتوں کے پشتے لگانے ہیں۔

(جاری ہے)

پہلے بھونک بھونک کر تھکتے  تھے مجال ہے کہ اب تھک جائیں، لگتا ہے کہ مالک آج کل زیادہ ھی کھیلاتا ھے، حق جو ادا کرنا ھے۔مالک کا ،حق ادا کرتے رہیں، بھونکتے رہیں لیکن ھماری گزارش ہے کہ آوارہ کتوں کا کچھ کیا جائے کیا پتہ کس کو کس وقت کاٹ دیں، ان کی گیدڑوں اور "لیڈروں"سے بڑی دوستی ھے کوئی پاگل پن کی بیماری لگ سکتی ہے ان کا ضرور کچھ کیا جائے، ھو سکتا ھے محلے کے شرارتی بچے انہیں پتھر مار مار کر کوئی نیا مسئلہ نہ پیداکر دیں،  اجکل کے بچے بڑے شرارتی ہیں توبہ ہے، کتوں اور فقیروں سے بڑا شغلہ لگاتے ہیں فقیر پتھر سہہ لیتا ہے لیکن کتا چیوں چیوں بہت کرتا ہے اچھے خاصے لوگ پریشان ھو جاتے ھیں کتوں کا اور کتے لوگوں کا فوری کچھ کرنا ھو گا، بعض کتے تو اب درامدی خوراک اور وٹامن سے بھرپور غذائیں کھاتے ہیں اس لیے خطرہ بڑھ گیا ہے ،کہتے ہیں ایسی غذاؤں میں سور کی چربی بہت ھوتی ھے جس کو کھا کر وہ ویسی حرکتوں پر مجبور ہو جاتا ھے، ھمارے زمانے کے کتے گیدڑوں کا پیچھا کرتے تھے، اجکل کے کتوں نے تو گیدڑوں سے دوستی کر لی ہے اس لئے بیماری اور خواری دونوں خطرات سامنے ہیں اب گھبرا کے کہتے ہیں کہ مر جائیں گے، مر کر بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔

یہ کتے قصائیوں کی دکان کے اردگرد ھوا کرتے تھے، وہ ھڈی ڈالتا تھا تو اطمینان سے ھڈی کے ساتھ خون آلود ھوتے تھے، اب ھڈی نہیں بلکہ گوشت کے ذخیرے آتے ہیں ، کتے ان پر ایسے ٹوٹتے اور مالک کی مداح سرائی کرتے ہیں جیسے پانی کا فوارہ یا آگ کا شرارہ ھو، اس انواع کے شور میں پھر اچھی بری سب آوازیں دب جاتی ہیں، ایک لامتناہی گھٹن اور مایوسی پھیل جاتی ہے، کمزور کتے درد بھری غزلوں پر انحصار کرتے ہیں کیونکہ ان کی پہنچ وہاں تک نہیں ھوتی، ان کی غزل پر کوئی داد ملے یا نہ ملے اپنی تعریف آپ کر کے گزر جاتے ہیں، وہ اپنی وارثت میں نوابوں کی طرح رہتے ہیں، اب کوئی کتا بھوکا نہیں مرتا، ھڈی بہرحال مل ہی جاتی ہے، اس کے سہارے، سارے جیتے ہیں۔

سن کو راستے سے نہیں ہٹائیں گے تو عوام کا جینا مشکل ھو گا۔میں تو کتے اور کتے لوگوں سے بہت ڈرتا ہوں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :