بانو آپا۔۔۔ادب و آداب والی ادیبہ۔

جمعرات 11 فروری 2021

Prof.Khurshid Akhtar

پروفیسرخورشید اختر

ایک نوجوان انٹرویو کرنے والے پینل کے سامنے بیٹھا تھا، اردو ادب میں داخلہ لینے آیا تھا، ایک پروفیسر  صاحب نے پوچھا، ادب کیا ہوتا، اس کی تعریف کریں؟ نوجوان شرما گیا اور ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارنے لگا، پھر جھٹ سے بولا ادب مطلب کسی کا ادب یا احترام کرنا، انٹرویو کرنے والے تینوں پروفیسر ھنس پڑے، نوجوان کو اس کے باوجود داخلہ مل گیا، میں بانو آپا کے بارے میں جب بھی سوچتا ہوں وہ نوجوان اور اس کی سادگی یاد آجاتی ہیں، ایک فلاسفر نے کہا تھا کہ بڑا لکھنے والے ہو اور اس میں اچھا اخلاق اور عاجزی نہ ہو یہ ممکن نہیں ہے، مگر افسوس یہ ھے کہ اکثر لکھنے والے، بولنے والے اور واعظ و خطیب، وہ نہیں ہوتے جو وہ بولتے، لکھتے یا دوسروں کو بتاتے ہیں، بانو قدسیہ مرحوم، آداب میں بڑی تھیں یا ادب میں، یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ھے، وہ جتنی بڑی ادیبہ تھیں اس سے کئی گنا بڑی انسان تھیں ان کا انکسار اور احترام  مثال تھا، ہر ادیب حساس تو ہوتا ہے لیکن اتنا بڑا انسان بھی ہو کم ہی ہوتا ہے، اشفاق احمد خان ان کے شوہر تھے مگر بانو آپا ان کے بقول بڑی لکھاری اور تخلیق کار تھیں  خود کو کبھی اشفاق احمد سے بڑا بننے کو ترجیح نہیں دی، غریب اور مسکین کے ساتھ مسکین اور گھر داری میں بھی غیر معمولی زندگی کے اوصاف ان میں موجود تھے، بانو قدسیہ مرحوم کا تعارف ہمیں ممتاز مفتی مرحوم نے اپنی کتابوں سے کروایا پھر بانو آپا کو پڑھتے اور دیکھتے گئے، نہ آنکھیں تھکتی تھیں اور نہ دل و دماغ ہارتا تھا، ادب و احترام ہو یا ادب بطور تخلیقی صنف، بانو آپا میں ڈبوتے گئے، اکثر ادیبوں اور نقادوں کا خیال ہے کہ انہوں نے اپنے قصے کہانیوں میں افسانوی رنگ اپنا کر لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیا ھے، جو ادب کا غلط استعمال ہے مگر  عملی طور پر بانو قدسیہ کے قبیل کے ادیبوں کا مشاہدہ بلکہ مشاہدہ حق دوسروں سے مختلف ھوتا ھے، ایک چیونٹی کسی کے پاؤں تلے مسلی جائے اس کا دکھ اور درد بھی بانو آپا جیسے لوگ خوب سمجھتے تھے، ادب اگر معاشرے کی عکاسی کرتا ہے تو بانو آپا نے اس عکاسی سے دل میں چھپے وہ مثبت پہلو بھی بھی سامنے لائے جو انسانیت کا آئینہ دار بن جاتے ہیں عموماً ادیب، دانشور اور مصنف اپنی زندگی میں بڑے ہی بدقسمت، غیر متوازن اور ازدواجی مسائل کا شکار دیکھے ہیں، مگر بانو آپا اور اشفاق احمد کی زندگی باہمی احترام اور محبت کی ایک جاندار مثال تھی، غربت اور مشکل وقت سے آسودگی تک ان دونوں کی زندگی میں کوئی دراڑ نہیں آئی، بانو آپا کو ایک انجان شخص بھی فون کر کے، خط لکھ کر یا مل کر رہنمائی لیتا تو کبھی ماتھے پر بل اور زبان پر انکار نہیں آیا، سگھڑ پن، گھر داری کے باوجود اتنی بڑی ادیب ہونا حیران کن تھا کوئی بھی چیز متاثر نہیں ہونے دی، ان کا شاہکار ناول "راجہ گدھ " شہرت کی بلندیوں تک پہنچا، زندگی کے ہر پہلو سے حرام کھانے، کے سائنسی، اخلاقی، روحانی اور جسمانی اثرات پر مکمل مشاہدہے اور تحقیق کو ناول کی شکل دی جس سے پڑھنے والا خوشی اور تسلسل قائم رکھتا ہے اور عمل پذیری سے حقیقی ادراک بھی حاصل کرتا ہے، بانو قدسیہ قیام پاکستان کے بعد یہاں آئی تھیں، خود کہتی تھیں ایک سکرپٹ سے گھر کی ایک چیز کا اصافہ کرتے کرتے گھر بنایا، اشفاق احمد صاحب کی مصروف زندگی کو سہارا دیا، اپنے وقت کے بڑے آدمی، بڑے افسانہ نگار، داستان گو کا بھرپور ساتھ دیا،  خود بھی شہرت اور بڑا مقام حاصل کیا، ادیب اور بڑے لوگ اپنی قدر دانی کا شکوہ کرتے ہیں،  لیکن بانو آپا نے نہ شکوہ کیا اور نہ شکایت، مگر قدر بھی پائی، مقام و مرتبہ بھی ملا اور دوسروں کے لیے مثال بھی بن گئیں، ریڈیو اور ٹی وی کے لئے بھی شاہکار ڈرامے اور کہانیاں لکھیں، قلم تھا کہ دریا، زبان تھی کہ شیریں اور عمل روشنی کا چراغ جو اب تک جل رہا ہے، امر بیل، بازگشت، آدھی بات، دوسرا دروازہ، تمثیل اور حاصل گھاٹ ان کی بہترین تخلیقات ہیں، ستارہ امتیاز ملا، بانو آپا دلوں میں محبت کی طرح اب بھی زندہ ہیں، زندہ رہیں گی، 4 فروری، 2017ء کو پردہ کر چکیں تھیں، گزشتہ دنوں ان کی چوتھی برسی منائی گئی ، مگر افسوس ناک بات تھی کہ جتنا یاد کرنا چائیے تھا نہیں کیا گیا، بے شک بڑا انسان ہونا، بڑا ہی مشکل کام ہے، لیکن ادب وہ سیڑھی ہے جو عظمت تک پہنچا دیتا ہے۔

(جاری ہے)

بانو آپا اسی عظمت پر فائز تھیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :