
امریکی صدر کا دورہٴ بھارت
بدھ 28 جنوری 2015

پروفیسر مظہر
(جاری ہے)
ہم نے اُن پراعتبار کیا جنکی دوستی کھیتوں پر چھائے اُس کہرکی مانند ہوتی ہے جو ظہورِخورشید کے ساتھ ہی فضاوٴں میں تحلیل ہو جاتاہے ۔ہم اُس کے اتحادی بنے جس کے سابق وزیرِخارجہ نے کہاکہ امریکہ کی دشمنی سے زیادہ اُس کی دوستی خطرناک ہے اور تحقیقاتی ادارے ”کانفلکٹ مانیٹرنگ سنٹر “نے اسے سچ ثابت کردیا جس کے مطابق افغانستان میں چھپے ہوئے پاکستان مخالف دہشت گردوں نے پانچ سو سے زائد مرتبہ پاکستان پرحملہ کیا ۔
یہ دہشت گرد افغانستان کے صوبہ کنڑ ،ننگرہار اورپاکتیامیں مکمل آزادی کے ساتھ ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں لیکن کسی امریکی ڈڑون کی آنکھ اُنہیں دیکھ نہیں پاتی ۔ہماری خارجہ پالیسی کایہ عالم کہ ہمیشہ بے ثبات امریکی سایوں کو مہرِدرخشاں سمجھتے رہے ۔ہم کشکولِ گدائی بڑھاتے رہے اوراوہ بقدرِ اشکِ بلبل دیتے رہے لیکن وہ بھی تضحیک و استہزا کے ساتھ ۔جب حساب کیاتو پتہ چلاکہامریکہ نے تو 1948ء سے آج تک پاکستان کوصرف پینسٹھ ارب ڈالر امداددی لیکن ہم تو افغان وارمیں نہ صرف سَو ارب ڈالرسے زائد کا نقصان اٹھا چکے بلکہ سانحہ پشاورجیسے کئی سانحات نے ہمارے دلوں کی دنیا اجاڑکے رکھ دی ۔اِس کے باوجود امریکی تجزیہ نگاروں کے نزدیک پاکستان امریکہ کا ”جہنم سے نکلاہوا اتحادی “ ٹھہرا۔پاکستان کی ایسی خارجہ پالیسی کو دیکھ کر کہا جاسکتاہے کہجو چال بھی چلے ہم ،نہایت بری چلے
میں زندہ بھی جلا دیاجاتاہے ۔آج تو بارک اوبامہ انتہائی ڈھٹائی سے یہ کہہ رہاہے کہ افغانستان میں بھارت امریکہ کا قابلِ اعتماد پارٹنرہے لیکن سوال کیا جاسکتاہے کہ افغان جنگ میں بھارت نے امریکہ کوکتنے فوجی اڈے دیئے ؟۔اُس کے کتنے فوجی اِس جنگ میں کام آئے اور اُس کی معیشت کو کتنے ارب کا نقصان ہوا؟۔ یہ سوال بھی کیا جاسکتاہے کہ اگرپاکستان اِس جنگ میں امریکہ کاساتھ نہ دیتا تو کیابھارتی حکومت کی مددسے امریکہ اپنے اہداف تک پہنچ پاتا؟۔
دورہٴ بھارت میں صدراوبامہ اربوں ڈالرزکے معاہدے لے کر آئے ۔اُنہوں نے ایٹمی ٹیکنالوجی پر بھارتی مطالبات تسلیم کرتے ہوئے واشنگٹن جوہری مواد کی نگرانی سے دستبرداری کا اعلان بھی کردیا اور ڈرون کی مشترکہ تیاری سمیت دفاعی اور تجارتی تعلقات کے فروغ کا عندیہ اور سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل رکنیت کی حمایت کااعلان بھی لیکن پاکستان کے لیے وعدہٴ فردا بھی نہیں۔ آج تو نریندرمودی بڑے فخرسے یہ کہہ رہاہے کہ بھارت اور امریکہ کی پارٹنرشپ گلوبل اور فطری ہے لیکن ہم تو اپنے فطری اتحادی کو اتنا بھی نہیں کہہ سکتے کہ
اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو ادھر بھی
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
متعلقہ عنوان :
پروفیسر مظہر کے کالمز
-
ریاستِ مدینہ اور وزیرِاعظم
اتوار 13 فروری 2022
-
وحشت وبربریت کا ننگا ناچ
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
اقبال رحمہ اللہ علیہ کے خواب اور قائد رحمہ اللہ علیہ کی کاوشوں کا ثمر
ہفتہ 13 نومبر 2021
-
رَو میں ہے رَخشِ عمر
جمعہ 30 جولائی 2021
-
یہ وہ سحر تو نہیں
جمعہ 2 جولائی 2021
-
غزہ خونم خون
ہفتہ 22 مئی 2021
-
کسے یاد رکھوں، کسے بھول جاوٴں
ہفتہ 24 اپریل 2021
-
یہ فتنہ پرور
ہفتہ 20 مارچ 2021
پروفیسر مظہر کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.