قصیدہ بردہ شریف اور سلام اعلیٰ حضرت

منگل 4 مئی 2021

Professor Shahid Ahmad Solehria

پروفیسر شاہد احمد سلہریا

شرف الدین بوصیری کافی عرصہ سے فالج کے مرض میں مبتلا تھے۔مفلوجی مایوسی کا مؤجب بھی ہوتی ہے۔
شاعر تھے اور کئی بادشاہوں کے قصائد ان کا قلم تخلیق کر چکا تھا۔
فالج زدہ بوصیری نے سوچا کہ بادشاہوں کے بادشاہ حضور سرور کونین کی شان میں قصیدہ لکھا جائے۔
یہ قصیدہ تاریخ میں "قصیدہ بردہ شریف"  کے نام سے مشہور ہوا۔
"بردہ"عربی میں چادر کو کہتے ہیں۔

تاریخی کتب میں مذکور ہے کہ قصیدہ لکھنے کے بعد امام بوصیری نے جب اسےخواب میں بارگاہ رسالت میں پیش کیا تو آپ نے اسے بہت پسند فرمایا اور خوش ہو کر امام بوصیری کو اپنی چادر مرحمت فرمائی۔
چادر کا جسم سے لگنا تھا کہ فالج زدہ بوصیری صحت یاب ہو گئے اور آپ کا  فالج جاتا رہا۔
اسی لیے یہ قصیدہ "قصیدہ بردہ شریف"  کے نام سے مشہور ہوا اور عالم عرب و عجم میں شہرت دوام پا گیا۔

(جاری ہے)

عالم اسلام میں یہ قصیدہ تقریباً ہر محفلِ ذکر نبی میں پڑھا جاتا ہے۔  
عربی زبان میں جو شہرتِ دوام امام شرف الدین البوصیری کے لکھے ہوئے قصیدے "قصیدہ بردہ شریف"کو عالم عرب وعجم میں حاصل ہوئی اسی کے مماثل شہرتِ دوام اردو زبان میں اعلی حضرت احمد رضا خان صاحب کے لکھے ہوئے سلام "مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام"  کو حاصل ہوئی۔اردو زبان میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا یہ کلام اور سلام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے۔


اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ العزیز شاعری میں بھی ید طولی رکھتے تھے۔تشبیہات،استعارات و صنعات کے کمال کثرت استعمال میں آپ
منفرد و ممتاز انداز ومقام کے کمیاب ترین شعراء میں سے ھیں۔
ان کے علمی تبحر نے ان کے اس فن کو قدرے پوشیدہ کر دیا۔
آپ کی شاعری کا مجموعہ "حدائق بخشش" میرے اس نذرانہ عقیدت کا بین ثبوت ھے۔


پیش نظر رھے کہ "حدائق بخشش" کا کامل فہم ہر کسی کے بس کی بات ہی نہیں ہے۔
آپ تقسیم ہند سے پہلے ہندوستان کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے۔آپ کے علمی مقام اور خدمات کا ایک زمانہ معترف ہے۔آپ کی شہرت اگرچہ ایک عالم دین کی تھی مگر آپ ایک اعلیٰ پائے کے بے مثال شاعر بھی تھے۔آپ کا یہ کلام اور سلام آپ کی شاعرانہ ندرت کا ایک عظیم شاہکار ہے آپ کو امام فقہ وحدیث کے ساتھ اگر امام العشق والادب بھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

عشقِ رسول کی چاشنی جو آپ کی تصانیف اور شاعری میں نظر آتی ہے وہ آپ ہی کا خاصہ ہے۔
 مختصر یہ کہ "قصیدہ بردہ شریف"  اور "مصطفی جان رحمت پہ لاکھوں سلام" میں عشقِ مصطفیٰ کا مشترک عنصر دونوں کو لازوال و بے مثال بناتا ہے اور آقا علیہ السلام کے عشق میں عرب و عجم کو ایک صف میں کھڑا کر دیتا ہے۔
بقول اقبال
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمن دہر میں کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو،
تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو،تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :