
چار دھائیوں پر محیط ۔۔یوم سیاہ
جمعہ 4 جولائی 2014

قمر الزماں خان
اگرچہ آج کے زوال پذیر سرمایہ داری نظام کے تحت کسی بھی سماج کو جنت نظیر میں نہیں بدلا جاسکتا۔ مگر اس ہلاکت آفرینی کا آغاز اس فوجی شب خون سے ہوا جس کے لئے تیاری 1976ء کے وسط میں مکمل ہوچکی تھی۔
(جاری ہے)
اس کہانی کے سیاق وسباق اور پیش منظر کو سمجھے بغیر 5جولائی 1977ء کے مارشل لاء کی حقیقت کو نہیں سمجھا جاسکتا۔بغیر کسی تبصرے کے ،پھانسی کی کوٹھری میں اپنی موت کا انتظار کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کے تجزیے کو دیکھا جائے تو وہ اپنی کتاب اگر مجھے قتل کیا گیا میں لکھتے ہیں”میں نے اس ملک کے شکستہ ڈھانچے(1971ء کی بدترین فوجی شکست اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد)کو جوڑنے کے لئے دو متضاد مفادات کے حامل طبقوں کے درمیان ایک آبرومندانہ مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی، مگر5جولائی کا سبق ہے کہ متضاد مفادات کے حامل طبقات کے درمیان مصالحت ‘ایک یوٹوپیائی خواب ہے۔ فوجی بغاوت سے سبق ملتا ہے کہ اس ملک میں ایک طبقاتی لڑائی ناگزیر ہے ،جس میں ایک طبقہ برباد ہوگا اور دوسرا فتح یاب“۔بھٹو نے جس ”طبقاتی مفاہمت “کا خمیازہ موت کی شکل میں بھگتا تھا،یہ موت‘ ایک شخص یا لیڈر کی موت سے آگے بڑھ کر پورے پاکستان کے لئے ایک قیامت صغریٰ ثابت ہوئی۔بھٹوکو4اپریل1979ء میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا،پھر اصل کہانی شروع ہوگئی۔ پاکستان کو سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے ”فرنٹ اسٹیٹ“ بنا کر کرائے کے قاتل کا کردار نبھانا شروع کیا گیا۔ افغانستان میں ”ثورانقلاب“ نے پاکستان اور دنیا بھر کے رجعتی اور عوام دشمن حکمران طبقے کی راتوں کی نیندیں اڑا دی تھیں۔اگر” ثورانقلاب“درست نظریات ،لائحہ عمل اورعالمی مارکسی نقطہ نظر سے آگے بڑھایا جاتا تو پھر اس انقلاب کو برپا تو افغان انقلابی کرتے مگر اسکا تحفظ ایران،پاکستان،ہندوستان اور دیگر ممالک کے محنت کش طبقے کا فریضہ بن جاتا ۔مگر ایک ملک کے اندر سوشلزم کی گمراہ کن سٹالنسٹ پالیسی کی وجہ سے ثور انقلاب تو درکار حمائت نہ حاصل کرسکا مگر رجعتی اور عوام دشمن قوتیں یکجا اور یک جان ہوگئیں۔انقلاب دشمن محاذ کا ہیڈ کوارٹر ،جنرل ضیاالحق کا پاکستان بنا ۔اسامہ بن لادن سمیت دنیا بھر کے غنڈے،قاتل اور دھشت گردپاکستان میں جمع کرکے انکو پاکستانی ایجنسیوں اور سی آئی اے کے مشترکہ ٹریننگ سنٹروں سے قتل وغارت گری کی تربیت دی گئی اور افغانستان میں مداخلت کو ”جہاد افغانستان “ قراردیا گیا۔ان ہزاروں دھشت گردوں کی امریکی ،سعودی،ہندوستانی اور دنیا بھر کے سرمایہ دارممالک کے سرمائے اور اسلحے سے اعانت کی گئی اور پھر انکو اپنے فنڈز خود پیدا کرنے کے لئے سی آئی نے اپنا معروف طریقہ کاراپنایا، یعنی پوست سے ہیروین بنانے کی فیکٹریاں لگانے کی ٹریننگ اور تکنیک فراہم کی گئی۔اسلحہ کی بھرمار نے ”اسلامی مجاہدین“ کو اسلحے کی فروختگی کی ترغیب دی۔ اس طرح پاکستانی سماج میں کلاشنکوف اور ہیروین کا زہر سرائیت کرگیا۔افغان فساد ابھی تک چالیس سالوں سے مختلف شکلیں بدل کر جاری ہے ،افغانستان میں بیسیوں لاکھ بے گناہوں کے قتل کے ساتھ ساتھ پاکستان کا ہر شہر مقتل گاہ بنتاگیا۔دوسری طرف پاکستان میں فوجی جنتا کے خلاف بے پناہ نفرت کا علاج کرنے کے لئے ملک میں لسانی سیاست اور قوم پرستی کی سرپرستی کی گئی تاکہ پیپلز پارٹی کے مدمقابل ”ریاستی سیاسی پارٹیاں یا گروہ“تشکیل دیے جاسکیں،اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ بیک وقت شیعہ اور سنی تضادات کو ابھارنے کے لئے انکی سرکاری سرپرستی کی گئی اور انکی مالی معاونت کی گئی۔سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد تشکیل دیے گئے۔بعد ازاں اس فرقہ پرستی کی اعانت کافریضہ”دوست اسلامی ممالک“ نے سنبھال لیا۔
ضیاء الحق کی 5جولائی کی بغاوت کی حمائت کرنے والی سیاسی،سماجی اور بین القوامی طاقتیں پاکستان پیپلز پارٹی سے اسکے اس انقلابی رنگ وروپ کا انتقام لینا چاہتی تھی جسکا ذکر بھٹو مرحوم نے اپنی قتل گاہ میں بیٹھ کرکیا تھا۔یہ پیپلز پارٹی کا انقلابی پروگرام تھا جس میں بغیر کسی ابہام کے پاکستانی سماج کو ایک سوشلسٹ سماج میں بدلنے کا عزم کرتے ہوئے معیشت کو سرمایہ داری سے نکال کر منصوبہ بند معیشت میں تبدیل کرنے کا جامع پروگرام دیا گیا تھا ،اگرچہ اس پروگرام پر عمل درآمد کسی سرمایہ دارانہ جمہوریت یا اسکے الیکشن کے ذریعے نہیں ہوسکتا تھا،اس پروگرام پر عمل درآمد ایک سوشلسٹ انقلاب کا متقاضی تھا۔مگر اپنے جنم کا باعث بننے والی 67-68کی تحریک کی طرح پاکستان پیپلز پارٹی بھی ملک میں سوشلسٹ انقلاب نہ کرسکی اور رد انقلابی جمہوریت کی کھائی میں گر گئی۔تحریک کی حدت نے پارٹی کو مجبور کرکے جو چند اصلاحات کرائیں تھیں،یہ سرمایہ داروں کو کھٹک رہی تھیں،جس کا انتقام بھٹو سے لیا جانا تھا۔بھٹو خود اپنے بقول‘ اپنے تذبذب اور مصالحانہ روش کے نتیجے میں موت کی وادی کی طرف دھکیل دیا گیا۔ مگر پاکستان کے حکمران طبقے کا انتقام ٹھنڈا نہیں ہوا انہوں نے ”بھٹو ازم“کہلوانے والے طبقاتی نظریے اور باقیات کو ختم کرنے کی ٹھا نی اور کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوگئے۔بھٹو کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی میں دائیں بازو کی قیادتوں کو استوار کیا گیا۔چئیرپرسن سے لیکر وارڈ کے عہدے داروں تک کی نامزدگی انکے سرمایہ دارانہ اور سامراجی اطاعت گزاری کے نظریات کی بنا پر ممکن کی گئی۔5جولائی کی سیاہ رات کوپیپلز پارٹی کی شریانوں میں اتاردیا گیا۔بھٹو کو ضیاء الحق پھانسی پر لٹکا کر نہ مارسکا مگرخود پیپلز پارٹی کی قیادتوں نے یہ فریضہ انتہائی شرافت اور مفاہمت سے سرانجام دے دیا۔اب پاکستان پیپلز پارٹی میں ”بھٹو“ صرف نعرہ بازی کی حد تک زندہ ہے ۔بھٹو ازم کی روح کو‘ضیاالحق کا بھوت اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت مل کر ہرروز منڈی کی معیشت اور امریکی سامراج کے پتھروں سے سنگسارکرتی پائی جاتی ہے۔جو” 5 جولائی“ پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے فوجی بغاوت اور اسکے بعد از مضمرات کے حوالے سے ”یوم سیاہ “ تھا ،اب خود ضیاء الحق کی سیاسی اور نظریاتی جانشینی اختیار کرنے کی وجہ سے قیادت کے سراپے اور خیالات پر بھی پوری طرح منطبق ہوتا دکھائی دیتا ہے۔”لمحوں کی خطاکس طرح صدیوں کی سزا بن جاتی ہے“ اس شعر کی عملی تعبیر 5جولائی 1977ء کی فوجی بغاوت کی وجہ سے معرض وجود میں آنے والا پاکستان ہے۔جس میں ہونے والا ہر بم دھماکہ،دھشت گردی،ہر بننے والا بنیاد پرست اورطالبان،سامراجی اطاعت کی ہر شرمناکی اور ہولناک نتائج کی ذمہ داری اسی سیاہ رات کی ہے جو سینتیس سال پہلے مسلط کی گئی مگر اب تک جاری ہے۔اس رات کی سیاہی کی قید میں اجالے کی رہائی پھر اسی پروگرام کو منظرعام پر لاکر اس پر عمل درآمد کرنے میں ہے جس کا حامل ہونے کی سزا ذوالفقار علی بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی کو دی گئی تھی۔اسی پروگرام میں واضع طور پر لکھا گیا تھا کہ پاکستان سے سرمایہ داری ،جاگیرداری اور سامراجی مفادات کے نظام کا خاتمہ کرکے ایک غیر طبقاتی معاشرہ تشکیل دیاجائے گاتاکہ اس ملک سے تمام امتیازی درجوں کا خاتمہ کرکے ،تمام رہنے والوں کے لئے یکساں ماحول پیدا کیا جاسکے۔کیا پیپلز پارٹی کے نظریاتی کارکنان اس سیاہ رات کا خاتمہ کرسکیں گے جو پہلے ضیاء الحق اور اب خود انکی اپنی قیادت نے مسلط کی ہے، یا پھر خود اسی تاریکی کا حصہ بن کر پارٹی کا مٹانے کا باعث بنیں گے؟ تاریخ اس سوال کا جواب ضرور مانگے گی۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
قمر الزماں خان کے کالمز
-
یہ گراؤٹ انہیں برباد کر دے گی !
جمعرات 11 نومبر 2021
-
بانجھ شور
ہفتہ 5 جون 2021
-
جنگ آزادی 1857ء کی سرکشی۔۔ابھی سفر باقی ہے!
پیر 10 مئی 2021
-
یوم مئی۔۔’سامراجی یلغار اورمزدورتحریک‘کیا کیا جائے؟
اتوار 2 مئی 2021
-
فرسودہ اوزاروں کی مشقیں
جمعرات 15 اپریل 2021
-
لال خان‘تاریخ کا نیا جنم
اتوار 21 فروری 2021
-
مزدور چارٹر
پیر 8 فروری 2021
-
اکتوبر1917:، جب فرمان مزدورجاری ہوا
پیر 9 نومبر 2020
قمر الزماں خان کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.