کاشتکارحکومتی توجہ کے منتظر…!

پیر 25 فروری 2019

Rana AIJAZ HUSSAIN Chauhan

رانا اعجاز حسین چوہان

 قدرت الٰہی نے سرزمین پاکستان کو ذرخیر مٹی اور کاشتکاری کے لیے نہایت موزوں آب و ہوا سے نوازا ہے جو کہ یہاں کے لوگوں کے لیے بہت بڑا انعام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زراعت کا شعبہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے سب سے زیادہ نظر انداز بھی اسی شعبے سے وابستہ افراد کو کیا جارہا ہے۔ دنیا کے وہ تمام ممالک جن کا شما ر زرعی لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے ، اس منزل تک رسائی حاصل کرنے میں صرف اور صرف اس لئے کامیاب ہوئے کہ ان کے ارباب حکومت نے جہاں ایک طرف زراعت کے شعبے کو ترقی دینے کے لئے خصوصی اقدامات کئے ،وہاں زرعی محنت کشوں کو سہولیات بہم پہنچانے کے لئے بھی مربوط اقدامات اٹھائے۔

باوجود یکہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن بد قسمتی سے ارباب حکومت نے زراعت کے شعبے کو ترقی دینے والے عوامل سے مجرمانہ چشم پوشی روا رکھی ، جس کا خمیازہ قوم اور ملک عشروں سے بھگت رہے ہیں۔

(جاری ہے)

 

کاشتکار گزشتہ کچھ عرصہ سے شدید مسائل کا شتکارہیں اور حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ حکومت ان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے تاکہ مستقبل میں ملک کو غذائی بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔

کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ ان کو ان کی محنت کا صلہ نہیں مل رہا، زرعی ادویات کی قیمتیں و کھادیں مہنگی، کاشت کی لاگت زیادہ، جبکہ زرعی اجناس کا معاوضہ بہت ہی کم مل رہا ہے۔ ان سے آلو 4 روپے کلو کے حساب سے خریدا جارہا ہے جبکہ فی کلو آلو کی لاگت 9 روپے ہے اس لیے حکومت آلو کی قیمت 12 روپے کلو مقرر کرے، اور آلو کی برآمد کے لیے دیگر ممالک روس، ایران اور چین سے فوری طور پر رابطہ کیا جائے ۔

اس کے علاوہ شوگر مل مالکان مافیا کی صورت اختیار کرچکے ہیں جو ہر سال گنے کے کسانوں کا استحصال کرتے ہیں، گنے کی کٹائی میں تاخیر سے جہاں ایک طرف گنا کھیتوں میں سوکھنا شروع ہوجاتا ہے وہاں دوسری طرف گندم کی بوائی بھی متاثر ہوتی ہے۔ پڑوسی دشمن ملک بھارت میں فی ایکڑ پیداوار اسی لئے زیادہ ہے کہ وہاں کاشتکاروں کو سب سے پہلے تو سال بھر وافر پانی دستیاب ہوتا ہے اور بھارت نے ڈیموں کی تعمیر پر خصوصی توجہ دیکر اپنی زراعت کی ترقی کو ممکن بنایاہے اور پھر ساتھ ہی کسانوں کو تمام ممکنہ سہولتوں کی فراہمی کیلئے اقدامات کئے ہیں۔

جبکہ ہمارے ہاں ہمیشہ سے المیہ یہ رہا ہے کہ کاشتکاروں کے مسائل پر کسی حکومت نے اس انداز میں توجہ نہیں دی جس طرح دینی چاہیے۔ یہاں اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ وفاق کی سطح پر اقتصادی رابطہ کمیٹی میں صنعتکار ، تاجر، بیورو کریٹس ، ٹڈاپ کے نمائندے تو موجود ہیں پر کسانوں کی کوئی نمائندگی نہیں۔ آج مل مالکان اور مڈل مین سمیت ہر کوئی کسانوں کو لوٹنا چاہتا ہے۔

پاکستان کے زرعی محنت کش سرد و گرم موسموں کی چیرہ دستیاں اپنے نا تواں جسموں پر سہتے ہیں اور خون پسینہ ایک کر کے جب کوئی فصل پروان چڑھاتے ہیں تو فصل پر شباب آتے ہی استحصالی طبقہ ان کی محنت پر شبخون مارنے کے لئے پہنچ جاتاہے۔
 جب تک کسانوں کو درپیش مشکلات کا ازالہ نہیں کیا جاتا پاکستان کی معیشت میں بہتری ممکن نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹریڈنگ کارپوریشن آ ف پاکستان کو فعال کرے جو کاشتکاروں سے اعلان کردہ سرکاری نرخوں پر ان کی فصلوں کی خرید اری کرے تا کہ کاشتکاروں اور کسانو ں کی فصلیں ان کے کھیتوں میں گل سڑ نہ سکیں اور انہیں اپنی فصلو ں کو فروخت کرنے کیلئے دھکے نہ کھانے پڑیں، اوروہ بے دھڑک ہوکر اپنی من پسند فصل کاشت کر سکیں۔

اس سے کاشتکاروں کی معاشی بد حالی دور ہوگی جبکہ ملکی معیشت پر بھی اس کے مثبت اثرت مرتب ہونگے۔ گزشتہ سال قومی الیکشن سے قبل شوگر ملز مالکان کی اکثریت نے موجودہ حکمران جماعت میں شمولیت اختیار کرلی اور انتخابات میں حصہ لیکر اب اہم سرکاری عہدوں پر تعینات ہیں اور گنے کے کاشتکاروں کو بہت کم قیمتیں دے کر ان کی حق تلفی کی جارہی ہے۔ اس گھمبیر صورتحال میں گنا کے کاشتکاروں کے ساتھ انصاف ہونا بہت ضروری ہے جس کیلئے گزشتہ حکومت میں جس طرح عدلیہ نے اس معاملے میں کردار ادا کیا اسی طرح اب حکومت کے ارباب اختیار کو اس معاملے میں خصوصی طور پر مانیٹرنگ کرنی چاہیے اور سرکاری ریٹ پرگنے کی خریداری یقینی بنانی چاہیے۔

کیونکہ گزشتہ سال بعض شوگر ملوں نے گنا کاشتکاروں سے ادائیگی کے جس واؤچرز پر دستخط لئے وہ سرکاری ریٹ کے مطابق تھے لیکن ادائیگی کیلئے دوسرے واؤچرز بنائے گئے تھے، کاشتکار مطالبہ کررہے ہیں کہ حکومت شوگر ملز مالکان کے سامنے بے بس ہونے کے بجائے اپنی رٹ بحال کرے۔ ملکی معیشت کی مضبوطی کے لیے شعبہ زراعت کا کردار ہمیشہ سے ہی سرفہرست رہا ہے ،اس شعبے کی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے کسان دشمن پالیسیاں ختم ہونی چاہیے۔

 ایک زمانے میں ہم کپاس برآمد کرنے والے ملکوں میں شمار ہوتے تھے لیکن ماضی اور آج کی حکومتوں کی لاپروائی اور زرعی شعبے کی ترقی میں عدم دلچسپی کا نتیجہ یہ نکلا کہ کسانوں نے کپاس کی کاشت کم کر دی ہے اور آج یہ جنس جسے ہم برآمد کرتے تھے اب درآمد کررہے ہیں۔اس سے یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ زراعت کے شعبے کی ترقی کیلئے عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں،یہاں واضع رہے کہ اگر کاشتکاروں نے کپاس کاشت کرنا ہی چھوڑ دی تو ملک کی معیشت کا جنازہ نکل جائے گا۔

آج صورتحال یہ ہے کہ لوگ کاشتکاری چھوڑ کر دیہی علاقوں سے شہروں میں منتقل ہونے پر مجبور ہیں۔ 
اس وقت کراچی، لاہور، ملتان سمیت بڑے شہروں میں عوام کے مسائل میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اس لئے اضافہ ہورہا ہے کہ زراعت سے وابستہ افراد کا گزربسر ناممکن ہوتا چلا جارہا ہے، اور آبادی کا بڑے شہروں پر مسلسل دباؤ بڑھتا چلاجارہا ہے جس کی وجہ سے بنیادی سہولتوں کی فراہمی کہیں مشکل اور کہیں ناممکن ہوچکی ہے۔

اگر حکومت کی جانب سے زراعت کی ترقی پر توجہ دی جائے تو شہروں کی جانب آبادی کی منتقلی رک سکتی ہے۔ زراعت کی ترقی سے ملکی معیشت کو سہارا ملنے کے ساتھ ساتھ عوام کا معیار زندگی بھی بلند ہوگا اور شہروں کے مسائل پر بھی قابو پانے میں آسانی ہوگی۔ حکومت کو چاہیے کہ کاشتکاروں کے مطالبے پر کھادوں پر عائد اضافی سیلز ٹیکس کا خاتمہ کیا جائے اور کیلشیم امونیم نائٹریٹ اورنائٹرو فاس تیار کرنے والے پاک عرب پاور پلانٹ کو گیس فراہم کرکے چالوکیا جائے ۔

اسی طرح زرعی ادویات کی قیمتوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے پر ان ادویات کی درآمد میں تیس فیصد تک سبسڈی دی جائے ۔ بلاشبہ کاشتکاروں کے جائز مالی مفادات کے تحفظ سے ہی ہمارے ملک کا کسان خوشحال ہوگا ، اور کسان خوشحال ہوگا تو ملک میں معیشت مستحکم ہوگی اور خوشحالی آئے گی۔
 اگر شروع ہی سے پاکستان کے ارباب حل و عقد زرعی شعبے کو مستحکم کرنے کے لئے اس شعبے کی تنظیم نو کی طرف توجہ دیتے تو آج پاکستان کا شمار نہ صرف زرعی لحاظ سے دنیا کے خود کفیل ممالک میں ہوتا بلکہ ہمارا ملک بین الاقوامی منڈی میں قیمتی زرعی اجناس برآمد کرنے والے بڑے ممالک کی فہرست میں شامل ہوتا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :