اندرون شہر کے دروازے

بدھ 2 جون 2021

Rana Ali Asghar

رانا علی اصغر

یہ دروازہ مشرق کی سمت گویا شہر دہلی کی طرف ہے اس لیے اس کو دہلی دروازہ کہتے ہیں۔ لاہور کے نامی دروازوں میں سے ہے اور آمدورفت لوگوں کی با کثرت ہے، کیونکہ اسی دروازے کے باہر ریلوے سٹیشن بنایا گیا ہے اور اسی سمت کو بڑے بڑے شہر ا مر تسر اور جا لند ھر وغیرہ ہیں۔ پرانی عمارت اکبری اس دروازے کی انگریزی عہد تک موجود تھی مگر نہا یت بوسیدہ و خراب اور دروازہ پست و زمین دوز ہوچکا تھا، یہاں تک کہ ہاتھہ کا مع عماری گزر نا محال تھا۔

سرکار انگریزی نے با نظر رفع اس تکلیف کے پہلے دروازے کو گرادیا اور محمد سلطان ٹھیکیدار کی معارفت عمارت موجود حال بنوائی۔ یہ دروازہ دو منزلہ نہایت مکتہ بنایا گیا ہے۔ دونوں طرف دووٴروازے کے دو منزلہ عالی شان عمارت ہے اور وسط میں دروازہ ہے۔

(جاری ہے)

اس دروازے کو بادشاہ وقت محمد جلال الدین اکبر نے اپنے نام سے منسوب کیا اور ہر قسم کے غلے کی منڈی اس دروازے کے اندر بنائی اور اس کو اکبری منڈی کے نام سے منسوب کیا۔

چنا نچہ اب تک دروازہ اور منڈی دونوں اکبر کے نام سے منسوب ہیں۔ یہ دروازہ بھی خستہ اور بوسیدہ ہو چکا تھا اور سرکار انگریزی کے عہد میں قدیمی قطع پر از سر نو بنا یا گیا تھا۔ یہ دروازہ جنوب کی طرف واقع ہے۔ اکبری عہد کے ایک ہندو جمعدار( محافظ) کے نام سے موسوم ہے۔ جو تمام عمر اس دروازے کی حفا ظت پر معمور رہا۔ سکھی عہد میں موتی دروازہ کے بجائے موچی دروازہ مشہور ہوا۔

ایک اور وجہ تسمعیہ یہاں مورچے بنانے والوں کی آبادی کہی جاتی ہے۔جو کہ مورچی اور پھر موچی میں تبدیل ہو گیا۔ انگریزی عہد میں دروازہ گرادیا گیا لہذا ااجکل موجود نہیں ہے۔ یہ گیٹ آتشبازی کے سامان، پتنگ سازی اوی میوہ جات کی منڈی کے لئے جانا جاتا ہے۔ یہ دروازہ اورنگزیب عا لمگیر کے بیٹے اور جا نشین محمد معظم شاہ عالم بہادر کے نام سے موسوم ہے۔

انگریزی عہد میں یہ دروازہ دوبارہ پہلے دروازہ کی طرز پر تعمیر ہوا لیکن قیام پا کستان کے برد اسے گرا دیا گیا۔ موجودہ وقت میں شاہ عالم دروازہ الیکٹرونکس، کا سمیٹکس اور دیگر مشینری کی مارلیٹ کے لئے مشہور ہے۔اصلی نام اس کا لاہوری دروازہ ہے۔ غلط العام لہاری دروازہ مشہور ہے۔ اس دروازے کو خاص لاہور کا دروازہ تصور کیا جاتا ہے۔ ملک ایاز، پنجاب کے انتظام کے لئے معمور ہو تو اس نے شہر کو دوبارہ آباد کرناچاہا۔

سب سے اول آبادی شہر کی اسی محلے سے شروع ہوئی جس کو لاہوری منڈی کہتے ہیں اور سب سے اول یہی دروازہ تعمیر ہوا۔ جس کا نام لا ہوری دروازہ رکھا گیا۔ اس دروازے کی عمارت سابقہ نہایت بوسیدہ تھی۔ صاحبان انگریز نے از سر نو قدیمی قطع وضع پر اس کو بنوایا جو اب تک موجود ہے۔یہ شہر کے تمام دروازوں سے چھوٹا دروازہ ہے۔ اس کامحل وقوع لو ہاری اور بھاٹی دروازہ کے درمیان ہے۔

انگریزی عہد میں اس دروازہ کو کشادہ کیا گیا۔ تاریخ دانوں کے مطابق موری دروازہ ملک ایاز کے عہد کی یاد تازہ کرتاہے۔ کیو نکہ جب ملک ا یاز نے اپنی فوج کے ساتھ شہر میں داخل ہو نے کی کو شش کی تو اسی جگہ سے دیوار کو گرادیا گیا اور داخل شہر ہوا۔ لہذا دروازہ کا نام موری دروازہ قرار پایا۔ یہ دروازہ لاہور کے مغرب کی جانب ہے اور بھاٹ کی قوم سے منسوب ہے جو بعد آبادی ملک ایاز کی اس دروازے کے اندر یکجا آباد ہوئی تھی اور صد ہا ساک آباد رہی۔

اس واسطے یہ دروازہ ان کے نام سے موسوم ہو گیا۔ یہ دروازہ پیرز کی شہید کے نام سے مشہور ہے جس کے سر کی قبر عین دروازے کے اندر ہے اور جسم بے سر کی قبر شہر کے اندر ایک طویلے میں ہے جو اس دروازے کے پاس ہی واقع ہے۔ دونوں جگہ قبریں بنی ہیں اور عقیدت مند لوگ آکر فاتحہ کرتے ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :