تعلیمی ادارے ، ہم اور کورونا

ہفتہ 13 جون 2020

Rana Muhammad Rizwan Khan

رانا محمد رضوان خان

مشکل وقت ٹلنے کا نام نہیں لے رہا بلکہ تیزی سے بے یقینی اور ڈر کے ساۓ لمبے کیۓ جا رہا ہے.
جہاں بہت سارے اور ملکی ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں وہاں پرائیویٹ تعلیمی ادارے بھی اپنی بقا کی جنگ بہت بے سروسامانی اور حکومتی غفلت کے باعث ہارنے ہی والے ہیں.
بد قسمتی سے ہمارے ملک میں پہلے ہی تعلیم کسی بھی حکومت کی اولین ترجیع نہیں رہی اور ان حالات میں تو ممکن ہو بھی نہیں سکتی جہاں ہر ایک کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوۓ ہیں.
 
موجودہ صورتحال تیزی سے کسی  بڑے سانحہ کی طرف بڑھ رہی ہے جس سے تقریباً 90 فی صد پرائیویٹ اسکولز متاثر ہوں گے.

اگر حکومت اور وزارت تعلیم کا رویہ یہی رہا تو اس سال کے آخر  تک آدھے اسکولزجوماہانہ پانچ ہزار سے کم فیس وصول کر رہے ہیں، بند ہو جائیں گے .
جن بیشتر سکولوں کا تعلیمی سال مارچ یا اپریل سے شروع ہوتا ہے. ایک تو وہاں نیۓ داخلے نہیں ہوسکے اوپر سے زیادہ تر والدین بچوں کی فیس بھرنے سے قاصر ہیں . اس وقت حقیقی تصویر یہ ہے کہ چوتھا مہینہ سر پہ آن پہنچا ہے لیکن ان اداروں کو ایک ماہ کی فیس بھی پوری وصول نہیں ہوئی.
 در حقیقت ان زیادہ تر پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے کبھی حکومت کی طرف کسی رعایت کیلئے نہیں دیکھا بلکہ کچھ تعلیم فروش اداروں کے علاوہ باقی بیشتر علمی ادارے عملا حکومت کی آئینی ذمہ داری ہی احسن طریقے سے نبھاتے رہے ہیں لیکن اس بحران میں کہ جہاں حکومت تعمیراتی، ٹیکسٹائل اور دوسرے شعبوں کو غیر معمولی سہولت دے رہی ہےاور اس میں اصول و ضوابط تک کو نظر انداز کیا جا رہا ہے، کالے دھن کیلئے ایمنسٹی اسکیمیں دی جا رہی ہیں، بین الاقوامی امداد آ رہی ہے لیکن بدقسمتی سے پورے ملک میں صرف ایک ہی شعبے سے قربانی لی جارہی ہے جو کہ پانچ ہزار سے کم فیس لینےوالے 90 فیصد پرائیویٹ سکولز اور کالجز ہیں.
 
میری حکومت سے اپیل ہے کہ اس شعبےکو پرایا نہ سمجھے بلکہ پچاس لاکھ لوگوں کا روزگار اور تین کروڑ بچوں کامستقبل سمجھا جاۓ  اور اس مقدس شعبے کو فوری مدد فراہم کی جاۓ.

اس سلسلے میں چند تجاویز حاضر ہیں جو نہ صرف قابل عمل ہیں بلکہ اس مشکل وقت میں بہترین حکمت عملی بھی :

(جاری ہے)

نجی تعلیمی ادارہ سکول ہو یا مدرسہ، کالج ہو یا یونیورسٹی، جس کے متعلق کسی بھی قسم کی فیصلہ سازی مقصود ہو، انکے نمائندگان کو تناسب سے شامل کیا جائے تا کہ بہتر طور پر زمینی حقائق اور اصل صورتحال کے تناظر میں فیصلے کیۓ جا سکیں.
 
2۔ فیصلہ سازی، خصوصا ًسکول کھولنے نہ کھولنے میں ماہرین صحت کی رائے، ملکی اعداد و شمار اور دیگر ملکوں کے طریقوں کو مد نظر رکھا جائے.


3۔ گھر بیٹھے بچے جو تعلیم سے دور ہو رہے ہیں تو ضروری ہے کہ مستقل سکول بند کرنے کی بجاۓ انکے لیے سکولز کو پابند کیا جاۓ کہ آن لائن علم و تدریس کا سلسلہ شروع کر سکیں تاکہ والدین فیس بھی دیں اور سکول سٹاف کو بروقت تنخواہوں کی ادائیگی بھی ہو سکے. اور جہاں ممکن ہو SOP بنا کر سکول اور کالجز بھی کھول دئیے جائیں.
4۔ فیصلہ سازی کرتے ہوۓ بڑی اور موٹی فیسیں لینے والے سکولز اور کالجز کے لیے الگ اورسمال میڈیم اداروں کا خاص خیال رکھا جاۓ.
5۔  چھوٹے سکول سب سے زیادہ متاثر بھی ہیں اور وہ غریب بچوں کو سب سے زیادہ رعایت بھی دے رہے ہیں.

ان کو واضح ریلیف پیکج دیا جائے.
6۔ فیسوں کی وصولی نہ ہونے کے برابر ہے بلکہ اب تک 4 ماہ کے بقایا جات ہو چکے ہیں جو مزید بڑھیں گے، ایسی صورتحال میں بنکوں کو ہدایات جاری کی جائیں جو ان اداروں کو بلا سود آسان شرائط پر قرضے دیں تا کہ یہ ایک سال تک اپنے سسٹم کو چلا سکیں.
7۔ پانچ ہزارسے کم فیس والے سکولوں کے پاس اب عمارات کے کرایوں، اساتذہ اور سٹاف کی تنخواہوں اور دیگر اخراجات کے لیے رقم نہیں ہے تو انہیں ریلیف پیکیج اور اس سال کے لیے ہر طرح کے ٹیکسوں سے چھوٹ دی جاۓ.
 
9۔ امتحانی بورڈز نے امتحانی فیس کی مد میں اربوں روپے وصول کئے ہوئے ہیں جن کا کوئی استعمال نہیں ہوا.

اس رقم اور مزید سرمائے کو استعمال کرتے ہوئے بچوں کے کثیر تعداد میں اور مسلسل ٹیسٹ کئے جائیں اور ان کی قوت مدافعت بڑھانے کیلئے اقدامات کئے جائیں.
10۔ سرکاری سکولوں کے معیار کو بلند کیا جاۓ اور موئثر حکمت علمی اپنائ جاۓ تاکہ اگر بڑی تعداد میں پرائیویٹ سکولز اور کالجز بند ہوں تو تعلیمی ادارے کھلنے پر انکے بچوں اور اساتذہ کو ایڈجسٹ کیا جا سکے.
بے شک تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی اور مستحکم بنیاد کا اہم جزو ہے. اسے یوں بد حالی اور حالات کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا.
 کچھ کیجئے خدارا...!
یہ نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے....!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :