تقدیر تدبیر پر ہنستی ہے

بدھ 26 اگست 2020

Rana Muhammad Rizwan Khan

رانا محمد رضوان خان

عمران خان کی حکومت کو دو سال پورے ہوگئے ہیں۔پہلے دن سے آج تک حکمران جماعت کو مُخالفین کی طرف سے سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔منفی اورجھوٹے پروپیگنڈہ کی ایسی مثال شاید ہی پاکستان میں پہلے کبھی دیکھنے کو ملے۔عمران خان نے ابھی حلف بھی نہیں اُٹھایا تھا کہ اسکے کیخلاف نفرت کی آخری حدوں کو چھونے والے سوشل میڈیا اور میڈیا کے کُچھ مخصوص عناصر تنقید کے مُسلسل تیر برسا کر ہلکان ہوئے جا رہے تھے۔

ایک بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ نفرت کی یہ شدت آئی کہاں سے؟مگرتھوڑا سا غور کرنے پر آپ کو پتہ چلے گا کہ زیادہ غصے میں وہ لوگ ہیں جو پچھلے دس سالوں میں کسی ناں کسی طریقے سے ذرداری اور لیگی حکُومت سے فوائد اُٹھا رہے تھے، یا حکومتی خرچے پر مزے اُڑا رہے تھے جبکہ باقی تنقید اُن کی طرف سے ہے جن کو عمران خان کے وجود سے ہی نفرت ہے۔

(جاری ہے)

نہیں معلوم کیوں مگر اُنکی اس نفرت کا کوئی علاج نہیں وہ خود ہی نفرت کی آگ میں جلتے رہیں گے۔

بے شک اللہ تعالی جسے چاہتے ہیں عزت سے نوازتے ہیں اور جسے چاہیں ذلت دیں،تو اگر اللہ تعالی کی طرف سے تقدیر کے پنوں پر یہ لکھا جا چُکا ہے کہ عمران خان ہی پاکستان کے وزیر اعظم رہیں گے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت خان کو گرا نہیں سکتی۔سب حاسدین مل کر بھی عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں گے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جس بہادری اور دلیری سے بے خوف ہو کرعمران خان نے اسٹیٹس کو کا مُقابلہ کیا، بڑے بڑے بُرج اُلٹے وہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔

بڑے بڑے سورماؤں نے اُسے گرانے کی ہر کوشش کر ڈالی، اُسکے خلاف فنڈنگ کیس کھُلے، اُس کی ذات پر غلیظ حملے کیے گئے، یہاں تک کے سابقہ بیوی سے کتاب تک لکھوائی گئی، لیکن تقدیر کا فیصلہ عمران کے حق میں رہا۔پہلے دن سے سازشیں اور جھوٹا پروپیگنڈہ اپنی جگہ مگر خان اب تک اپنے چاہنے والوں اور متوالوں کی امیدوں پر پورا اُترنے میں کامیاب نہیں ہو سکے،وہ اور انکی ٹیم اس طرح سے پرفارم کرنے میں ناکام رہی ہے جسکی توقع اور امید اُن سے کی جارہی تھی۔

بے شمار ملکی مسائل اور معاشی چیلنجز کے باوجود عمران خان ابھی تک بھرپور طریقے سے ڈٹے ہوئے ہیں۔جو سیاسی مبصرین یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ عمران خان کی حکومت اپنی مدت پوری نہیں کر سکتی اور حکومت کرنا عمران خان کے بس کا روگ نہیں،عمران خان ایسے مبصرین کے لیے سب سے بڑا روگ اور ڈراؤنا خواب بن چکے ہیں۔
دیکھا جائے تو کرونا وائرس کرائسز میں عمران حکومت کی سمارٹ لاک ڈاؤن حکمت عملی نے تحریک انصاف کی حکومت میں ایک نئی روح پھونک دی ہے،نہ صرف پاکستان اس وباء کے چُنگل سے نکلنے ہی والا ہے بلکہ ڈبلیو ایچ او سمیت دنیا بھر کے مبصرین پاکستان کی تعریف کر رہے ہیں۔


 عرب میں ایک کہاوت مشہور ہے کہ“ تقدیر تدبیر پر ہنستی ہے“ ابھی تک تو ساری اپوزیشن اور مخالفین کی ساری تدبیریں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف بُری طرح ناکام ہیں اور پاکستانی عوام ابھی بھی عمران خان سے مایوس نہیں ہوئے اور یوں لگتا ہے جیسے تقدیر قدرت نے اس ملک کو تبدیل کرنے اور سنوارنے کا فیصلہ ایک غیر سیاسی کھلاڑی کے ہاتھ پر لکھ دیا ہے اور بے شک تقدیر کے فیصلوں کو زیر کرنا کسی شرارتی اور پرانے سیاسی پاپیوں کے بس کی بات نہیں۔


قسمت اور تقدیر پر مجھے کئی سال پہلے پڑھا ایک شہزادے کا قصہ یاد آگیا جسے اسکے چچا نے اسکے باپ بادشاہ کی وفات کے بعد تخت پر قابض ہو کر ملک بدر کر دیا تھا اور بادشاہ کا بیٹا اپنے تین دوستوں کے ساتھ ملک چھوڑ کر چل نکلا۔ان دوستوں میں سے ایک تاجر کا بیٹا دوسرا کسان کا بیٹا تیسرا ایک بہت خوبصورت نو جوان تھا۔ راستے میں بہتر مستقبل کے بارے میں سب دوست اپنی اپنی رائے پیش کرنے لگے۔

کسان کے بیٹے نے کہا محنت سے انسان سب کچھ بنتا ہے باقی سب باتیں بیکار ہیں۔ تاجر کا بیٹا بولا عقل اور حسن تدبیر سب سے بڑا ہتھیار ہے یہ نہ ہو تو انسان نا کام ہے۔خوبصورت نوجوان بولا حُسن و جمال سب سے بڑی نعمت ہے۔بادشاہ کا بیٹا اللہ کی ذات پر بھروسہ کرنے والا نہایت تدبر تفکر والا انسان ہے۔سب کی باتیں غور سے سننے کے بعد کہنے لگا۔سب اپنی جگہ درست ہے مگر سب سے بڑی چیز اللہ کی رضا اور تقدیر ہے اس کی ذات کا فیصلہ ہی ہر چیز پر غالب ہے۔

جب تک ہمارا عقیدہ تقدیر پر مکمل نہ ہو اُس وقت تک راحت سکون حاصل نہیں ہو سکتا۔انہی باتوں کے درمیان وہ کسی دوسرے ملک جا پہنچے جہاں انہوں نے صحرا میں پڑاؤ ڈالا۔اس وقت کسان کا بیٹا کہنے لگا ہمارے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں ہے تو اب پتہ چلے گا کس کی بات ٹھیک ہے۔سب اپنی بات آزماتے ہیں۔
پہلے دن انہوں نے کسان کے بیٹے کو کہا آج ہم دیکھیں گے محنت کے کیا فائدے ہیں۔

جاؤ اپنی محنت سے آج کے کھانے کا انتظام کرو۔کسان کا بیٹا اٹھا اور جنگل کا رخ کیا ،لکڑیاں توڑیں اور شہر میں آ کر دو درہم کی بیچ دیں۔ایک درہم کا کھانا لیا دوسرا درہم اپنے پاس محفوظ کر لیا اور ساتھیوں کے پاس آ کر انہیں بھی کھلایا سب نے اس کو شاباش دی۔
اگلے دن تاجر کے بیٹے کا نمبر تھا کہ وہ عقل اور حسن تدبیر کا مظاہرہ کرے۔وہ اٹھا اور ساحل سمندر پر آیا، سمندر میں سامان سے لدی کشتی ساحل کی طرف آ رہی تھی ،تاجر کا بیٹا کشتی میں بیٹھ گیا اور دوسرے راستے سے چیکے سے لدی کشتی کے مالک کے پاس پہنچا اس سے سامان کا بھاؤ تاؤ کیا ادھار پر سارا سامان سو درہم میں خرید لیا۔

جب کشتی ساحل پر پہنچی تو مقامی تاجر انتظار میں تھے۔تاجر کا بیٹا ان کے پاس آیا سارا سامان گیارہ سو درہم کے عوض بیچ دیا اور سو درہم سامان کے مالک کو دیئے اور باقی جیب میں ڈالے،دوستوں کے لیے بہترین کھانا لیا ان کو خوب سیر کرائی سب نے اس کے حسن تدبیر کی تعریف کی۔
تیسرے دن خوبصورت نو جوان کا نمبر تھا جس کا کہنا تھا انسان خوبصورتی کے بل بوتے پر کامیابی حاصل کرتا ہے‘ دوستوں نے کہا آج ہم دیکھیں گے کہ آپ کا حسن ہم کو کیسے کھانا کھلائے گا وہ اٹھا میک اپ کیا اور شہر کی طرف روانہ ہوا اور ایک گھر کے باہر درخت کے نیچے بیٹھ گیا اوپر سے ایک خاتون نے کھڑکی سے جھانکا ایک خوبصورت نو جوان پریشان بیٹھا ہے اور سوچ رہا ہے اس نے بلا کر وجہ پوچھی کھانا کھلایا کہ مسافر ہے پریشانی کی وجہ پوچھی تو اس نے دوستوں کا قصہ سنایا تو خاتون نے نوجوان کو کچھ رقم تھما دی وہ نوجوان سب کے لئے کھانا لے آیا۔

سب دوستوں نے اس کو بھی سراہا۔
اب چوتھے روز بادشاہ کے بیٹے کی باری تھی۔سب سوچنے لگے کہ کسان کے بیٹے نے بھی محنت کی اور تاجر نے بھی کچھ کیا‘ نوجوان نے بھی کچھ کر ہی لیا مگر اب بادشاہ کا بیٹا جو کہتا ہے کہ اللہ کا فیصلہ رضا اور تقدیر ہر چیز پر غالب ہے یہ کیا کر کے دکھائے گا۔اب شہزادہ اللہ کا نام لیتا ہوا شہر میں داخل ہوا اور راستے کے کنارے جا بیٹھا وہاں سے اسی ملک کے بادشاہ کا جنازہ لے جایا جا رہا تھا وزرا ء فوج پولیس جنازہ کو کندھا دیئے جا رہے تھے۔

شہزادہ کو راستے میں بیٹھا دیکھ کر پولیس آفیسر نے اس کو ڈانٹا کہ تمھیں شرم نہیں آتی بادشاہ کا جنازہ جا رہا ہے اور تم اس طرح بیٹھے ہو۔بادشاہ کو دفنانے کے بعد جب پولیس افسر واپس آئے تو دیکھا شہزادہ اب بھی وہیں بیٹھا ہے،پولیس والوں نے اُسے اسی پداش میں فورا گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا۔دن گزرا اور اسکے دوست شہزادے کے واپس نہ آنے کی وجہ سے قیاس آرائیاں کرنے لگے، وہ شہزادے کو ڈھونڈنے شہر کی طرف چل پڑے لیکن شہزادہ جیل میں بند تھا اور وہ تلاش نہ کر سکے توکارروائی کو اگلے دن پر موخر کر دیا۔


ادھر کابینہ کے وزرا ء و مشیر جمع ہوکر نئے بادشاہ کے انتخاب کے لئے غور و فکر کر رہے تھے کہ نیا بادشاہ بادشاہوں کے خاندان سے منتخب کیا جائے اور عام آدمی منتخب نہ کیا جائے مگر بادشاہ کا کوئی وارث نہیں تھا کہ سینئر وزیر نے اعلان کروایا کہ تم میں سے کوئی ہے جو بادشاہوں کے خاندان سے تعلق رکھتا ہو،وہ ہاتھ کھڑا کر دیں مگر کابینہ میں کوئی ایسا بندہ نہ تھا مگر پولیس افسر کہنے لگا کہ ایک بندہ ہے جس کو میں نے قید کیا ہے وہ شہزادہ معلوم ہوتا ہے ۔

اس کو حاضر کرنے کا حکم ہوا، شہزادے کو کابینہ کے سامنے لایا گیا اور پوچھا آپ کون ہو؟ اور یہاں کس غرض سے آئے ہو، تو شہزادہ بولا میں فلاں ملک کے بادشاہ کا بیٹا ہوں باپ مر گیا اور میرے چچا نے تخت پر قابض ہو کر مجھے ملک بدر کر دیا۔ تمام کابینہ نے اس کی بات کو سچ سمجھا اور اس کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور اسے اپنا بادشاہ منتخب کر لیا۔شہزادے کے منہ سے بے ساختہ نکلا یقینا ً اللہ کا فیصلہ تمام تدبیروں پر غالب ہے۔


اب وزرا ء نے بادشاہ کو ملک کی سیر کرانے کے لیے باہر نکالا اور بادشاہ شہر میں گشت کر رہا تھا، لوگ بادشاہ کے پیچھے پچھے ’بادشاہ زندہ باد‘ کے نعرے بلند کرتے ہوئے جا رہے تھے جبکہ دوسری جانب شہزادے کے دوست بھی اُسی شہر میں اس کی تلاش میں نکلے تھے، جیسے انہوں نے شہزادے کو اس حالت میں دیکھا تو سمجھ گئے اور بے ساختہ بول اٹھے ”واقعی اللہ کا فیصلہ تمام تدبیروں سے بڑھ کر ہے “وہ بھی بادشاہ زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے بادشاہ کے ساتھ محل میں داخل ہو گئے۔

بادشاہ تخت پر بیٹھا یہ لوگ اس کی خدمت میں حاضر ہوئے تو بادشاہ نے ان کے سامنے کل کا جملہ دہراتے ہوئے کہا اللہ نے یہ سب کچھ اس لئے کیا تا کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ اللہ کا فیصلہ اسکی رضا، طاقت ہر چیز پر غالب ہے بے شک اللہ جو چاہے کر سکتا ہے جو جیسا گمان کرتا ہے اس کے ساتھ ویسا ہی معاملہ ہوتا ہے۔
بادشاہ نے تاجر کے بیٹے کو مشیر مقرر کر لیا اور کسان کے بیٹے کو وزیر زراعت کے عہدے پر مقرر کیا ا ور جو خوبصورت نوجوان تھا اسے کہا یہ عارضی حسن کسی فائدے کا نہیں اس کو کچھ مال تحفے میں دے کر رخصت کر دیا۔

اس واقعے سے آپ نے یہ سبق بلکل نہیں لینا کہ میاں صاحب گورے چٹے اور خوبصورت تھے تو خان نے بھی انکی خوبصورتی اور حُسن وجمال کی وجہ سے باہر جانے دیا کہ یہ حُسن تو دنیا میں عارضی ہے اور اسکا کوئی فائدہ نہیں اس لیے بہتر ہے انکو رخصت ہی کر دیا جائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :