علی بابا کا طلسم

پیر 24 اگست 2020

Rana Muhammad Rizwan Khan

رانا محمد رضوان خان

چین کے جنوب مشرقی شہر ہینگزو میں ایک کمرے سے کاروبار شروع کرنے والا پینتیس سالا نوجوان مایون جسے دنیا جیک ما کے نام سے جانتی ہے،انہوں نے پچپن سال کی عمر میں ٹھیک بیس سال بعد اپنی کمپنی ’علی بابا‘ سے علیحدہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے جبکہ آج ان کی کمپنی چار سو ساٹھ بلین ڈالر مالیت کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی ای۔کامرس کمپنی بن چکی ہے۔


جیک ما کو اگر علی بابا کا طلسم کہا جائے تو غلط نہ ہو گا مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ انکی ریٹائرمنٹ کے بعد علی بابا کا سحر بڑھے گا یا ٹوٹ جائے گا اسکے لیے تو وقت کے ساتھ چلتے ہوئے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گاگو کہ جیک نے اپنے جانشین کے لیے اپنی کمپنی میں سب سے بہترین امیدوار چنا ہے جو دس سال سے اسے تیار کر رہے تھے اس پوزیشن کے لیے کیونکہ پانچ سال پہلے انہوں نے ’علی بابا‘ میں اپنے جانشین کے طور پر ڈینیل زھینگ کا انتخاب کیا تھا جو اس وقت سے بطور سی ای او خدمات انجام دے رہے ہیں۔

(جاری ہے)


جیک ما نے ڈینیل زھینگ کو جانشینی سونپنے کے لیے کئی سال تک تیار کیا گیا ،اور اکثر اوقات قیادت کی تبدیلی کاروباری اداروں میں بے یقینی کی کیفیت پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے، تاہم علی بابا اور ڈینیل زھینگ پہلے ہی ایک دوسرے سے اچھی طرح مانوس ہیں۔ڈینیل زھینگ کے بارے میں جیک ما کہتے ہیں کہ بطور چیف ایگزیکٹو آفیسر ذمہ داریاں سنبھالنے کے بعد ڈینیل نے اپنی بہترین ذہانت، کاروباری سوجھ بوجھ اور لیڈرشپ خصوصیات کا مظاہرہ کیا ہے اور ان کی قیادت میں علی بابانے مسلسل کئی سہ ماہیوں تک پائیدار ترقی دِکھائی ہے اور وہ بہترین تجزیاتی ذہن کے مالک ہیں جبکہ کمپنی کے مشن اور ویژن کو بہت پیارا اور دل کے قریب رکھتے ہیں۔


اب آجائیں ہم اس انسان کا تذکرہ کرتے ہیں جس نے بظاہر ناممکن کو ممکن کر دیکھایا کہ ایک چھوٹے سے کمرے سے محض بیس سال کے اندر دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بنانا جسکی فروخت کا حجم امریکا کی سب سے بڑی ای-کامرس کمپنی ’ایمازون‘ سے تین گُنا زیادہ ہو،معجزے ہوتے ہیں مگر اپنی محنت لگن اور انتھک جہد مسلسل سے معجزاتی کرشمہ کر کے دکھانا صرف جیک ما کو ہی آتا ہے۔


مایون نے دس ستمبر 1964 میں کمیونسٹ چین کے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی۔ یہ وہ دور تھا جب کمیونسٹ چین مغرب سے کٹا ہوا تھا۔ ستر کی دہائی میں امریکی صدر نکسن کے دورہ ہینگزو کے بعد یہ شہر سیاحوں کے ریڈار پر آیا اور آہستہ آہستہ سیاح اس خوبصورت شہر کو دیکھنے کے لیے آنے لگے۔ جیک ما اس وقت پندرہ سولہ سال کے نوجوان تھے اور صبح سویرے اُٹھ کر شہر کے مرکزی ہوٹل پہنچ جاتے تھے جہاں وہ سیاحوں سے انگریزی سیکھا کرتے تھے۔

والدین سے مایون نام پانے والے اس بلند نظر شخص کو جیک کا نام ایک سیاح نے ہی دیا تھا،ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جیک ما کو کالج میں داخلہ لینے کیلئے دو بار انٹری امتحان میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور دو تین بار کوشش کے بعد وہ کامیاب ہوئے۔ گریجویشن کے بعد متعدد ملازمتوں کے لیے رَد کیے جانے کے بعد بالآخر مقامی یونیورسٹی میں انگلش پڑھانے کی نوکری مل گئی جہاں وہ ماہانہ بارہ ڈالر کمایا کرتے تھے۔

کچھ سال پہلے جیک ماہ نے اپنے ایک خطاب میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ انہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی میں بھی کئی اپلائے کیا مگر ہر بار مسترد کیے گئے۔جیک ما نے 1995 میں پہلی بار امریکا کا دورہ کیا اور جب وہاں انٹرنیٹ استعمال کرنے کا موقع ملا تو اس وقت انہیں کمپیوٹر یا کوڈنگ کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔دراصل جیک ما نے ان ہی دنوں ترجمہ کرنے کے کام کا آغاز کیا تھا اور ایک چینی کمپنی نے انہیں اپنے امریکی کلائنٹ کے پاس پھنسی ہوئی رقم کی واپسی کے لیے امریکا بھیجا تھا۔

انٹرنیٹ پر انہوں نے جب ایک پراڈکٹ سرچ کی تو انہیں یہ دیکھ کر حیرانی ہوئی کہ سرچ کے نتائج میں ایک بھی چینی برانڈ یا کمپنی شامل نہیں تھی اور یہی وہ لمحہ تھا جب انہوں نے چین کے لیے ایک انٹرنیٹ کمپنی کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دو دفعہ وہ انٹرنیٹ کمپنی قائم کرنے کی کوشش میں بری طرح فیل ہوا اور یہ کام چل نہ سکا۔پھر تقریباً چار سال بعد جیک ما نے اپنے سترہ کے قریب دوستوں کو ایک دعوت پر مدعو کیا اور انہیں’ علی بابا‘ کمپنی کے بارے مکمل سمجھاتے ہوئے اس آن لائن مارکیٹنگ پلس کمپنی میں سرمایہ کاری کرنے پر راضی کر لیا۔

پھر اکتوبر 1999 تک یہ کمپنی پچیس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرچکی تھی۔ ساتھ ساتھ سن دو ہزار کے شروع میں جیک ما ای بے کی طرح ایک اور چینی حریف کمپنی ٹاؤ باؤ بھی بنا چکے تھے۔کچھ سال کی کامیابی کے بعد سب سے بڑا بریک تھرو تب ملا جب دو ہزار پانچ میں یاہو نے چالیس فی صد حصے داری کے بدلے ’علی بابا‘ میں ایک بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا اعلان کر دیا۔


ستمبر 2014 میں علی بابا نیویارک اسٹاک ایکسچینج پر لسٹ ہوئی۔اس موقع پر جیک ما نے ایک ٹیلی ویژن چینل کو بتایا کہ آج ہم نے جو چیز حاصل کی ہے وہ لوگوں کا پیسہ نہیں ان کا اعتماد ہے اسوقت نیویارک اسٹاک ایکسچینج کی تاریخ میں ڈیڑھ سو ارب ڈالر کے ساتھ امریکا میں لسٹڈ کسی بھی کمپنی کا یہ سب سے بڑا اکاؤنٹ تھا اور اس آئی پی او کے ساتھ جیک ما چین کے امیر ترین شخص بھی بن چکے تھے۔


جیک ما سحر انگیز شخصیت کے مالک انسان ہیں۔وہ جب بولتے ہیں تو دنیا انہیں دھیان سے سُنتی ہے اور جن میں سربراہانِ مملکت، ٹاپ بزنس لیڈرز، انٹرپرینیورز اور طلبا سب ہی شامل ہیں۔چین کا امیر ترین شخص ہونے کے باوجود، جیک مامیں کوئی بڑی تبدیلی نہیں آئی اور وہ ابھی بھی سادگی کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں۔انہیں پوکر کھیلنا، مراقبہ کرنا اور تائی چی پریکٹس کرنا پسند ہے۔

جیک ما اپنی ذاتی زندگی کو میڈیا کی چکاچوند روشنیوں سے الگ رکھنا پسند کرتے ہیں۔ان کی شریک حیات کا نام زھینگ یِنگ ہے۔جن سے وہ اسکول کے زمانے میں ملے تھے اور گریجویشن کے بعد شادی کرلی تھی اور ان کے دو بچے ہیں، ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔اب ریٹائرمنٹ کے بعد چیک ما صرف علی بابا کی پارٹنر شپ گورننگ باڈی میں شامل رہ کر اپنا کردار ادا کریں گے جو اڑتیس افراد پر مشتمل ہے اور جسکا علی بابا کی گورننس میں ایک اہم رول رہتا ہے۔


چیک ما کے متعلق جان کر ہم اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ کئی کئی بار ریجیکٹ ہونا یا فیل ہونا اس بات کی ضمانت نہیں کہ آپ ایک ناکام شخص ہیں۔مایوس نہ ہوں اور اپنے اندر جھانکیں اور دیکھیں کہاں آپ سے غلطی ہو رہی ہے اسکو درست کریں اور پھر ایک نئے جذبے سے اپنی کوشش کو تیز کردیں۔
اور یہ کبھی نہ بھولیں۔
جیت اور ہار آپ کی سوچ پر منحصر ہے
اگر مان لو ہار
اگر ٹھان لو تو کوئی آپ کو جیتنے سے روک نہیں سکتا۔
یاد رکھیں جب تک آپ اپنے آپ سے نہ ہارو کوء آپ کر ہرا نہیں سکتا۔اگر آپ سورج کی طرح چمکنا چاہتے ہیں تو جناب والی پھر سورج کی طرح جلنا بھی سیکھیے....!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :