ہمارا نظام عدل وانصاف

بدھ 15 جولائی 2020

Rana Muhammad Rizwan Khan

رانا محمد رضوان خان

رانا محمد رضوان خان
ہمارے ملک کی ماشاءاللہ ہر بات ہی نرالی ہے۔اگر ہم طاقتور انسان کی بات کریں تو وہ ایک ریڑھی والا بھی ہو سکتا ہے جس کی پہنچ وقت کے حکمرانوں تک ہوتی ہے اور آپ جرم کے باوجود اُسکا بال بھی بیگا نہیں کرسکتے اور دوسری طرف اگر آپ ملک کے حکمران ہیں تو آپ وقت آنے پر اتنے کمزور ہو جاتے ہیں کہ آپ کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور آپ دو تہائی اکثریت کے باوجود مجرم بن کر کٹہرے میں کھڑے کر دئیے جاتے ہیں۔

ہمارا پیارا ملک پاکستان جسے مدینہ منورہ کے بعد دوسری خالص اسلامی نظریاتی ریاست کہا جاتا ہے،وجود سے لے کر اب تک جہاں اور بہت سے مسائل کا شکار ہے، وہاں انصاف کی فوری اور شفاف فراہمی کا تعطل ومساوات کا فقدان ہے۔قانون و قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل طور پر انصاف کی بلا تفریق فراہمی میں ناکام نظر آتے ہیں۔

(جاری ہے)

تھانے سے لے کر کچہری تک جس کی لاٹھی، اُسی کی بھینس والا حساب ہے۔

جہاں سزا و جزا کا مستحق صرف غریب آدمی ہے۔
عدالتی نظام کسی بھی ریاست کا ایک اہم ستون ہوتا ہے، کیونکہ انصاف ہی سے کسی بھی ملک یا معاشرے میں ایک متوازن اور شفاف ماحول پیدا کیا جا سکتا ہے، اگر بلا تفریق انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے تو ملک میں موجود بہت سے مسائل خود بخود ختم ہو جائیں گے،بدقسمتی سے ہمارے ملک کے انصاف مہیا کرنے والے نظام کی یہ حالت ہے کہ مظلوم بھی واسطہ پڑنے کے بعد دعا کرتا ہے کہ اللہ دشمن کو بھی تھانہ، کچہری سے دور رکھے۔

ارباب اختیار کو چاہیے کہ وہ انصاف کی فراہمی کو یقینی اور شفاف بنائیں تاکہ ملک امن کی راہ پر گامزن ہو سکے اور انصاف کے متلاشی کو انصاف اس کی زندگی میں ہی ملے نہ کہ اس کے مرنے کے بعد عدالت اسکی بے گناہی کا اعلان کرے اور وہ اپنے رب کے حضور حاضر ہمارے عدالتی نظام پر آنسو بہا رہا ہو۔
مجھے یاد آتا ہے وہ وقت جب آج سے چودہ سو سال پہلے ایک مرتبہ قبیلہ بنی مخزوم کی ایک عورت فاطمہ بنت اسود نے چوری کی،یہ خاندان چونکہ قریش میں عزت اور وجاہت کا حامل تھا، اس لیے لوگ چاہتے تھے کہ وہ عورت سزا سے بچ جائے اور معاملہ کسی طرح ختم ہوجائے،مگرحضرت اسامہ بن زیدؓ کی سفارش پر حضور اکرم نے ناراض ہو کر فرمایا:
”بنی اسرائیل اسی وجہ سے تباہ ہوگئے کہ وہ غرباءپر بلا تامل حد جاری کردیتے تھے اور امراءسے درگزر کرتے تھے، (یہ تو فاطمہ بنت اسود ہے) قسم ہے رب عظیم کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر (بالفرض) فاطمہ بنت محمد (ﷺ) بھی چوری کرتیں تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالتا۔

(صحیح بخاری)
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے انفرادی و اجتماعی زندگی میں ہر جگہ عدل و انصاف کا حکم فرمایا ہے،آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ”وہ قومیں تباہ و برباد ہو جاتی ہیں جو آپس میں انصاف کرنا چھوڑ دیتی ہیں۔“
قرآن مجید میں اللہ رب العزت ایمان والوں سے مخاطب ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں:
ترجمہ”اے ایمان والو! اللہ اورا س کے رسول اور جوتم میں حکمران ہیں، ان کا حکم مانو۔

پھر اگر تم میں کسی بات کا جھگڑا اُٹھے تو اسے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور لوٹا دو، اگر اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو۔ یہ بہتر ہے اور اس کا انجام اچھا ہے“(سورة النساء32)
اس آیت ِمبارکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے بڑا انتظامی اور عدالتی اختیار تفویض کیا گیا ہے۔اسی طرح ایک وہ وقت تھا جب ہمارے عدل و انصاف کا یہ عالم تھا کہ ایک قاضی کے فیصلے پر پورا فتح کیا ہوا شہر خالی کر دیا جاتا تھا۔

حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور میں ایک سالار قتیبة بن مسلم نے اسلامی لشکر کشی کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے سمرقند کو فتح کر لیا تھا جبکہ اصول یہ تھا کہ حملہ کرنے سے پہلے تین دن کی مہلت دی جائے۔اس بے اصولی پر سمرقند کے پادری نے مسلمانوں کی اس غاصبانہ فتح پر قتیبة کے خلاف شکایت دمشق میں مسلمانوں کے حاکم کو ایک پیغامبر کے ذریعہ خط لکھ کر بھجوائی۔

پیغامبر نے دمشق میں حضرت عمر بن عبدالعزیز کو خط دیا اور آپ نے پڑھ کر اسی خط کی پشت پر لکھا کہ عمر کی طرف سے سمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام؛ ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری کی شکایت سنے اور مہر لگا کر خط واپس پیغامبر کو دیدیا۔پیغامبر وہاں سے چل تو دیا مگر اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے، کیا یہ وہ خط ہے جو مسلمانوں کے اُس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا؟
 سمرقند لوٹ کر پیغامبر نے خط پادری کو تھمایا، جسے پڑھ کر پادری کو بھی بڑی مایوسی ہوئی مگر پھر بھی وہ خط لیکر مجبورا اُس حاکمِ سمرقند کے پاس پہنچا۔

حاکم نے خط پڑھتے ہی فورا خلیفہ وقت کے حکم پر ایک قاضی کا تعین کردیا جو سمرقندیوں کی شکایت سن سکے. فوراً ہی عدالت لگ گئی، ایک چوبدار نے بغیر کسی لقب و منصب کے ثمر قند کے موجودہ حاکم کا نام پکارا اور وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر قاضی کے رو برو اور پادری کے ساتھ ہو کر بیٹھ گیا۔قاضی نے سمرقندی سے پوچھا، کیا دعویٰ ہے تمہارا؟پادری نے کہا: انہوں نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اِس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔

قاضی نے حاکم شہر کو دیکھ کر پوچھا، کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں؟ حاکم نے کہا: قاضی صاحب، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے، سمرقند ایک عظیم ملک تھا، اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے، بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی۔سمرقند کی زمینیں تو اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمرقند پر قبضہ کر لیا۔

قاضی نے حاکم شہر کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا: میری بات کا جواب دو، تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی؟
حاکم شہر نے کہا: نہیں قاضی صاحب، میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔قاضی نے کہا کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا۔

میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور انکے عہدہ داران بمع اپنے بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی املاک، گھر اور دکانیں چھوڑ کر سمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے۔اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو تو بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کی مہلت دیئے بغیر نہ آیا جائے۔

پادری اور اہل ثمر قند جو کچھ دیکھ اور سن رہے تھے وہ ناقابل یقین بلکہ ایک مذاق اور تماشہ نظر آ رہا تھا۔چند لمحوں کی یہ عدالت، نہ کوئی گواہ اور نہ ہی دلیلوں کی ضرورت.اور تو اور قاضی بھی اپنی عدالت کو برخاست کرکے مسلمانوں اور حاکم شہر کے ساتھ ہی اُٹھ کر جا رہا تھا۔چند گھنٹوں کے بعد ہی سمرقندیوں نے اپنے پیچھے گرد و غبار کے بادل چھوڑتے لوگوں کے قافلے دیکھے جو شہر کو ویران کر کے جا رہے تھے۔

لوگ حیرت سے ایک دوسرے سے سبب پوچھ رہے تھے اور جاننے والے بتا رہے تھے کہ عدالت کے فیصلے کی تعمیل ہو رہی ہے۔
 اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو دی ہی عدل و انصاف کی وجہ سے ہے نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی کے باعث...!اور اُس دن جب سورج ڈوبا تو سمرقند کی ویران اور خالی گلیوں میں صرف آوارہ کتے گھوم رہے تھے اور سمرقندیوں کے گھروں سے آہ و پکار اور رونے دھونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، اُن کو ایسے لوگ چھوڑ کر جا رہے تھے جن کے اخلاق، معاشرت، برتا¶، معاملات اور پیار و محبت نے اُن کو اور اُن کے رہن سہن کو مہذب بنا دیا تھا۔

تاریخ گواہ ہے کہ سمرقندی یہ فراق چند گھنٹے بھی برداشت نہ کر پائے، اپنے پادری کی قیادت میں لا الٰہ الاّ اللہ محمّد الرّسول اللہ کا اقرار کرتے مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے روانہ ہوگئے اور اُن کو واپس لے آئے۔اور یہ سب کیوں نہ ہوتا، کہیں بھی تو ایسا نہیں ہوا تھا کہ فاتح لشکر اپنے ہی قاضی کی کہی باتوں پر عمل کرے اور شہر کو خالی کردے۔اسلام اور مسلمانوں نے پھر وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمرقند ایک عرصہ تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا...!!!

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :